پاکستان: ایشین ٹائیگر بننے کاخواب.... خواب ہی رہے گا؟

پاکستان ایک عرصے سے متعدد مسائل کا شکار ہے، جن کی وجہ سے پاکستانی معیشت شدید خطرات سے دو چار ہے۔ حالت اب یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پاکستانی معیشت ایشیائی ممالک سری لنکا، بنگلا دیش، بھوٹان، بھارت، مالدیپ اور نیپال سے بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2014 میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 4.1 رہی ہے، جو خطے میں موجود آٹھ ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2014 میں سری لنکا کی جی ڈی پی کی شرح نمو 7.4، نیپال کی 5.5، مالدیپ کی 5.0، بھارت کی 7.2، بھوٹان کی 5.2، بنگلا دیش کی 6.1، افغانستان کی 2.0، جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 4.1 رہی۔ یعنی ایشیا میں موجود آٹھ ممالک میں سے صرف افغانستان کی شرح نمو پاکستان سے کم ہے، جبکہ باقی تمام ممالک کی جی ڈی پی کی شرح نمو پاکستان سے زیادہ ہے اور زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ 2015 اور 2016 میں بھی پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو میں بڑھوتری کا امکان نہیں ہے۔ اس حوالے سے معروف ماہر اقتصادیات شاہد حسن صدیقی نے روزنامہ ”اسلام“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اداروں کی معاشی رپورٹ تو اب آئی ہے، جبکہ ہم تو ایک عرصے سے یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی معیشت بہت پیچھے جا رہی ہے۔ پاکستانی معیشت کئی قسم کی مشکلات سے دوچار ہے، کیونکہ میاں نواز شریف امریکا اور عالمی اداروں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ پاکستانی حکومت کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ہماری حکومت چونکہ امریکا کی اتحادی ہے، اسی لیے وہ امریکا کے حکم پر عمل کرتی ہے اور اسی کو مراعات دےتی ہے۔ حکومت کی معاشی پالیسیاں عالمی مالیاتی اداروں اور امریکا کے کہنے پر بنتی ہیں،جن سے ملک میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، معاشی ترقی کی رفتار سست ہوئی ہے اور برآمدات میں کمی آتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ ملکی معاشی ماہرین سے مشاورت کرکے معاشی پالیسیاں بنائے، کیونکہ ملکی ماہرین ہی بہتر مشورے دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی حکومت کو بڑے سرمایہ کاروں اور طاقتور لوگوں سے دلچسپی ہے اور انہی لوگوں کو مراعات دی جاتی ہیں، عوام کو کوئی مراعات نہیں دی جاتیں۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیاں کسی طور بھی ملکی معیشت کے لیے بہتر نہیں ہیں۔ انہی پالیسیوں کی وجہ سے ملک دن بدن معاشی طور پر پیچھے جا رہا ہے اور مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ جب 2018ءمیں موجودہ حکومت جائے گی، اس وقت ملک معاشی طور پر مزید کمزور ہوگا۔ حکومت بڑے بڑے مگرمچھوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دیتی ہے۔حالانکہ کسی کو بھی ٹیکس میں چھوٹ نہیں دینی چاہیے، بلکہ ٹیکس نیٹ ورک بڑھانا چاہیے اور جو اضافی پیسہ ہو اس کو ملک پر خرچ کریں۔ تعلیم، صحت، صاف پانی اور عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔ شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ حکومت کو چاہےے کہ بیرون ملک ملکی پیسہ جانے سے روکے اور بیرونی قرضوں میں کمی لائے۔ عالمی مالیاتی اداروں اور امریکا کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستانی عوام پر زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت وڈیرہ شاہی اور ناکام معاشی نظام پر کاربند ہے، جو اسلام کے معاشی نظام سے متصادم ہے، جب تک حکومت اسلام کے معاشی نظام پر عمل پیرا نہیں ہوتی، اس وقت تک ملک کی معیشت ترقی نہیں کرسکتی۔

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی معیشت کو زیادہ نقصان پہچانے والے عوامل میں بدامنی، بھتا خوری، توانائی بحران، حکومت کی ناقص پالیسیاں، سیاسی عدم استحکام اور بزنس فرینڈلی پالیسیوں کا نہ ہونا سرفہرست ہیں۔ گزشتہ تقریباً دس سال سے دہشت گردی، بم دھماکے، بدامنی اور خود کش حملوں کی وجہ سے پاکستان میں خوف و ہراس اور پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ پاکستان کے مختلف شہروں میں ٹارگٹ کلنگ اور بھتا خوری بھی زوروں پر ہے، اس حوالے سے کراچی کا نام سرفہرست ہے۔ کراچی میں بھتا خوری اورٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے ملکی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، کیونکہ بھتا خور بھتا نہ ملنے پر تاجروں کو قتل کردیتے ہیں اور فیکٹریوں تک کو آگ لگادیتے ہیں، جس کی وجہ سے سرمایہ کار کراچی چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہورہے ہےں۔ کراچی چونکہ ملک کا معاشی حب ہے، جس کے حالات پورے ملک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب ملک میں موجود توانائی بحران بھی پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے کا بڑا سبب واقع ہوا ہے۔ اگرچہ موجودہ حکمرانوں نے الیکشن سے پہلے چند ہی ماہ میں توانائی بحران پرقابو پانے کے وعدے کیے تھے، لیکن ابھی تک توانائی کے بحران پر قابو نہیں پایا جاسکا، بلکہ توانائی بحران میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ میں مزید اضافہ ہوا ہے، جس سے پاکستانی انڈسٹری تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت نے توانائی کے حوالے سے کئی منصوبے شروع کیے ہوئے ہیں، لیکن ان کی تکمیل کے لیے بھی کئی سال درکار ہیں۔ اس کے ساتھ گزشتہ سال ملک کئی ماہ تک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ کئی ماہ تک ملک کے دارالحکومت میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری حکومت کو گرانے کے لیے دھرنا دیے بیٹھے رہے ، جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ کئی ماہ تک پاکستان کشمش کی کیفیت میں مبتلا رہا، بلکہ اس کی وجہ سے چین کے ساتھ کیا گیا 30ارب ڈالر سے زاید کا معاہدہ منسوخ ہوا اور دیگر ممالک سے بھی کئی معاشی معاہدے نہ ہوسکے، جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو کافی نقصان پہنچا۔مبصرین کے مطابق ملک میں مالی بد انتظامی اس قدر زیادہ ہے کہ پاکستان کے اندرونی وسائل تو درکنار، دوسرے ممالک یا مالیا تی اداروں سے جو قرضہ لیا جا تا ہے، وہ بھی پاکستان کے ترقی و خو شحالی کے منصوبوں پر خرچ نہیں کیا جاتا، بلکہ باثر، با اختیار اور بر سراقتدار لوگوں کے اثاثوں میں منتقل کردیا جا تا ہے۔ پاکستان کی اس مخدوش معاشی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس نظام نہ صرف یہ کہ درست کیا جائے، بلکہ ٹیکس نیٹ ورک کے دائرے کو بڑھا دیا جا ئے۔

معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں کاروبار دوست ماحول نہیں ہے، جس کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاراپنا سرمایہ پاکستان میں لگانے کی بجائے ایسے ممالک میں لگانے کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور ان کو بزنس فرینڈلی ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی صنعتکار یا سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنے سے پہلے ملکی حالات کو مدنظر رکھتا ہے۔ بجلی، پانی، گیس اور دیگر بہت سی باتوں پر دھیان دیتا ہے۔ کسی بھی ملک میں کاروبار کرنے کے حوالے سے عالمی بینک ہر سال کاروبار کے لیے سازگار ممالک کی ایک فہرست جاری کرتا ہے جس میں بہت سی ایسی باتوں کی طرف توجہ دی جاتی ہے جوکہ کاروبار کرنے سے متعلق ہوتی ہیں۔ اس عالمی رینکنگ میں کاروبار کے آغاز پر کسی بھی قسم کی تعمیرات کے لیے کس قسم کے اجازت ناموں کی ضرورت پڑتی ہے۔ بجلی کیسے حاصل کی جاتی ہے، جائیداد کیسے خریدنی ہے اور پھر ان کی رجسٹری اور دیگر قانونی مراحل وغیرہ۔ قرض کیسے حاصل کیا جاتا ہے، ٹیکس کی ادائیگی کی بابت اس کے علاوہ کئی اور باتوں کی وضاحت کے بعد اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کاروبار کے لیے کسی بھی ملک کا کیا درجہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کسی بھی کاروبار کو شروع کرنا ہو تو اس کے لیے 19 دن لگتے ہیں۔ جب کسی کمپنی کا آغاز کیا جاتا ہے تو اس کی رجسٹریشن کرانی پڑتی ہے، اس کے مختلف مراحل ہیں جس کے لیے 10 مختلف طریقوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں گودام تعمیر کرنا ہو تو اس کے لیے بھی 10 مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ڈھائی سو یوم درکار ہوتے ہیں اور برآمدات کرنے میں 20 روز اور فی کنٹینر برآمدی لاگت 600 ڈالر آتے ہیں اور درآمدات میں 17 یوم اور فی کنٹینر درآمدی لاگت 725 ڈالر صرف ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کاروبار کے حوالے سے تعمیراتی اجازت نامے اور بجلی کے کنکشن، جائیداد کی رجسٹری، قرض کے حصول اور دیگر کئی حوالوں سے پاکستان کی پہلے سے تنزلی دکھائی گئی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کار ترقی پذیر ممالک کے ان ہی شعبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، جہاں کوئی رسک بھی نہ ہو اور زیادہ سے زیادہ منافعے کی توقع بھی ہو۔ اگر محسوس ہو کہ حالات سازگار نہیں جا رہے تو فوری طور پر تمام سرمایہ یا اس کا بڑا حصہ فوراً نکالا جاسکے۔ لہٰذا ترقی پذیر ممالک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح بھی ملک میں سرمایہ کاری ہوتی رہے، تاکہ معیشت میں جمود کی کیفیت نہ پیدا ہوجائے، بلکہ معیشت میں حرکت ہوتی رہے۔ ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ اگر کوئی ملک متوازن سرمایہ کاری کے نظریے پر عمل نہیں کرسکتا تو بہتر راستہ یہی ہوسکتا ہے کہ جن شعبوں میں غیرملکی سرمایہ کار زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، وہاں ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ جبکہ پاکستان میں سرمایہ کاروں کے لیے سہولیات میسر نہیں ہیں۔ بلکہ بدامنی، بھتا خوری، اغوا برائے تاوان، توانائی بحران اور سیاسی عدم استحکام کے سائے میںغیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے کنی کترارہا ہے اور ملک میں پہلے سے موجود سرمایہ کار اپنا سرمایہ پاکستان سے نکال رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی خراب معاشی صورتحال بدامنی اور توانائی بحران سے تنگ آکر سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کردیا ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک نے بھی پاکستانی سرمایہ کاروں کو پرکشش مراعات کا لالچ دےا۔ بنگلادیشی حکومت نے پاکستانی سرمایہ کاروں کو پرکشش مراعات فراہم کی ہیں، پاکستان سے بنگلا دیش صنعتیں منتقل کرنے والوں کو صنعتی زونز میں مفت پلاٹ اور رہائش کے لیے مفت لگژری اپارٹمنٹ دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے گزشتہ چند سال کے دوران 10 ہزار پاکستانیوں نے بنگلا دیش میں 500 ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔اسی طرح پاکستانی سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد اپنا سرمایہ ملایشیا میںمنتقل کر چکی ہے، جن میں بڑی تعداد کراچی کے تاجروں کی ہے اور پاکستانی سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کی تیسری بڑی جنت دبئی ہے، جہاں پاکستانی سرمایہ کاروں کی بہت بڑی تعداد اپنا کاروبار منتقل کر چکی ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا معاشی طور پر ایشیائی ممالک میں ساتویں نمبر پرآنا پاکستان کے لیے باعث افسوس بات ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا ایشین ڈائیگر بننے کا خواب کہیں ادھورا ہی نہ رہ جائے۔ لہٰذا پاکستانی حکومت کو ایسے تمام مسائل پر قابو پانا ہوگا جو ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہیں اوراس کے ساتھ بزنس فرینڈلی ماحول فراہم کرنا ہوگا، تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کار پاکستان میں اپنا سرمایہ خرچ کریں، جس ملک کی معیشت مضبوط ہو اورملک سے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701521 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.