فضیلتِ جمعہ کا سبب یومِ تخلیقِ
آدم علیہ السلام ہے:-
جمعہ کے دن کی خاص اَہمیت اور فضیلت کی بناء پر اسے سید الایام کہا گیا ہے۔
اس دن غسل کرنا، صاف ستھرے یا نئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا اور کاروبارِ
زندگی چھوڑتے ہوئے مسجد میں اِجتماع عام میں شریک ہونا اُمورِ مسنونہ ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن زیادہ سے زیادہ درود شریف
پڑھنے کا بھی حکم دیا ہے۔
حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه قبض، وفيه النفخة، وفيه
الصعقة، فأکثروا عليّ من الصلاة فيه، فإن صلاتکم معروضة علي.
’’تمہارے دنوں ميں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن حضرت آدم علیہ السلام
کی ولادت ہوئی (یعنی اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو
لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا)، اس روز اُن کی روح قبض کی گئی، اور اِسی
روز صور پھونکا جائے گا۔ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو، بے
شک تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
1. أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة
وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047
2. أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531
3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1
: 345، رقم : 1085
4. نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه
وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375
5. نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه
وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666
6. دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572
7. ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697
8. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589
9. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 5789
10. بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634
11. هيثمي، موارد الظمان إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550
جمعۃ المبارک عید کا دن ہے، اِس پر کبار محدثین کرام نے اپنی کتب میں درج
ذیل احادیث بیان کی ہیں :
1۔ اِبن ماجہ (209۔ 273ھ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت
کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن هذا يوم عيد، جعله اﷲ للمسلمين، فمن جاء إلي الجمعة فليغتسل، وإن کان
طيب فليمس منه، وعليکم بالسواک.
’’بے شک یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بنایا ہے۔ پس
جو کوئی جمعہ کی نماز کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے، اور اگر ہوسکے تو خوشبو
لگا کر آئے۔ اور تم پر مسواک کرنا لازمی ہے۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلٰوة، باب في الزينة يوم الجمعة، 1 :
349، رقم : 1098
2. طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 230، رقم : 7355
3. منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 1 : 286، رقم : 1058
2۔ احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں
کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن يوم الجمعة يوم عيد، فلا تجعلوا يوم عيدکم يوم صيامکم إلا أن تصوموا
قبله أو بعده.
’’بے شک یومِ جمعہ عید کا دن ہے، پس تم اپنے عید کے دن کو یومِ صیام (روزوں
کا دن) مت بناؤ مگر یہ کہ تم اس سے قبل (جمعرات) یا اس کے بعد (ہفتہ) کے دن
کا روزہ رکھو (پھر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں)۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 303، 532، رقم : 8012، 10903
2. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 315، 318، رقم : 2161، 2166
3. ابن راهويه، المسند، 1 : 451، رقم : 524
4. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 603، رقم : 1595
4. اِبن حبان (270۔ 354ھ) روایت کرتے ہیں کہ ابو اوبر بیان کرتے ہیں :
کنت قاعدًا عند أبي هريرة إذ جاء ه رجل فقال : إنک نهيت الناس عن صيام يوم
الجمعة؟ قال : ما نهيت الناس أن يصوموا يوم الجمعة، ولکني سمعت رسول اﷲ صلي
الله عليه وآله وسلم يقول : لاتصوموا يوم الجمعة، فإنه يوم عيد إلا أن
تصلوه بأيام.
’’میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے اُن
کے پاس آ کر کہا : آپ نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟
آپ نے فرمایا : میں نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے نہیں روکا بلکہ
میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تم
جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو کیوں کہ یہ عید کا دن ہے، سوائے اس کے کہ تم اس کو
اور دنوں کے ساتھ ملا کر (روزہ) رکھو۔‘‘
ابن حبان، الصحيح، 8 : 375، رقم : 3610
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فضیلتِ جمعہ کا سبب کیا ہے اور اسے کس لیے سب
دنوں کا سردار اور یومِ عید قرار دیا گیا؟ اس سوال کا جواب گزشتہ صفحات میں
بیان کی گئی حدیث مبارکہ میں موجود ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے اس دن کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا :
فيه خلق آدم.
’’(یوم جمعہ) آدم کے میلاد کا دن ہے (یعنی اس دن آدم علیہ السلام کی خلقت
ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا)۔‘‘
جمعہ کے دن ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی جس کی بناء پر
اِسے یوم عید کہا گیا ہے اور اس دن کی تکریم کی جاتی ہے۔ اگر یوم الجمعہ
حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے باعث عزت و اِحترام کے ساتھ منائے جانے
کا حق دار ہو سکتا ہے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بناء پر
عید الاعیاد (تمام عیدوں کی عید) کے طور پر اسلامی کیلنڈر کی زینت کیوں
نہیں بن سکتا۔ اب کوئی کہے کے میلادِ آدم علیہ السلام کی تقریب کا اہتمام
اس لیے کیا گیا کہ ان کی تخلیق معروف طریقے سے عمل میں نہیں آئی۔ لیکن اس
سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام
کی تخلیق جمعہ کے دن ہوئی۔ لہذا یوم الجمعہ کو یوم العید بنا دیا گیا کہ یہ
بنی نوع انسان کے جد اَمجد اور پہلے نبی کا یومِ تخلیق ہے۔ اِسی بناء پر
وجہ تخلیقِ کائنات اور تمام انبیاء کے سردار سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت تمام عیدوں کی عید ہے۔
روزِ جمعہ کا اِہتمام برائے محفلِ درود و سلام:-
جمعۃ المبارک کے سلسلہ میں کیے جانے والے تمام تر اِنتظامات وہ ہیں جو
میلاد کے حوالہ سے بھی کیے جاتے ہیں، مثلاً غسل کرنا، خوشبو لگانا، ایک جگہ
جمع ہونا، کاروبار ترک کرنا اور مسجد میں حاضری دینا۔ ان کے علاوہ بھی بعض
امور کا تذکرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔ جمعہ کے دن یہ سارا اہتمام درحقیقت
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام
بھیجنے کے حوالہ سے ہے اور اس دن کو کثرتِ درود و سلام کے لیے اس لیے چنا
گیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کا یومِ میلاد ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
فأکثروا عليّ من الصلاة فيه.
’’پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو۔‘‘
اِس دن عاشقانِ رسول درود شریف کا اِجتماعی ورد کرتے ہیں اور اس دن محفل
میلاد اور محفلِ صلوٰۃ و سلام کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ سو یہ
دن جہاں ایک طرف میلادِ سیدنا آدم علیہ السلام کے لیے خاص ہے تو دوسری طرف
درود و سلام کے ذکر کی نسبت سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
لیے بھی ہے۔ اس طرح بہ یک وقت یہ دن جدماجد اور فرزند اَمجد دونوں کے لیے
اِظہارِ مسرت کا مژدہ بردار بن گیاہے۔
حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا :
يا رسول اﷲ! وَکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت؟
’’یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد کیسے آپ پر پیش کیا جائے
گا؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن اﷲ عزوجل حرّم علي الأرض أن تأکل أجساد الأنبياء.
’’بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کرام کے
جسموں کو کھائے۔‘‘
1. أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة
وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047
2. أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531
3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1
: 345، رقم : 1085
4. نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه
وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375
5. نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه
وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666
6. دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572
7. ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697
8. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589
9. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 5789
10. بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634
11. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم
کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ میں اِس دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد
بھی اپنے جسم کے ساتھ زندہ رہوں گا، اور تمہیں چاہیے کہ مجھ پر جمعہ کے دن
کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنا اپنا معمول بنا لو۔
جاری ہے۔۔۔ |