پاکستان کی پارلیمنٹ میں جنگ یمن
کے حوالے سے مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا اور اجلاس جس افراتفری اور سیاسی
پوائنٹ اسکورنگ کا شکار ہوا یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن بادی النظر واضح
طور پر نظر آرہا تھا کہ وزیر دفاع ، سعودی حکومت کو کچھ یقین دہانیاں کروا
کر آچکے تھے، اس لئے جب پارلیمنٹ کا ماحول دیکھا تو ان کا رنگ اڑ چکا تھا ،
اب سعودی عرب اور امریکہ میں فرق تو ہونا ہی چاہیے ، امریکہ کی حمایت کے
لئے کسی پارلیمنٹ یا کسی سیاسی جماعت سے مشورے کی ضرورت سابق صدر کو نہیں
پڑی تھی اور ایک فون کال پر کہ پاکستان کو پتھروں کے دور میں نہیں پہنچانا
تو افغانستان میں امریکہ کی حمایت کرو ، سعودی عرب زیادہ کیا کرسکتا ہے کہ
پاکستانیوں کو ملازمت سے نکال دیگا ،اس کے علاوہ سعودی عرب کر ہی کیا سکتا
ہے ، وہ پاکستان پر حملہ نہیں کرسکتا ، تیل کی سپلائی بند کرنے کہ دہمکی
نہیں دے سکتا ، عرب لیگ میں پاکستان تو شامل ہی نہیں ، پھر وہاں سے نکالنے
کا بھی عمل نہیں کرسکتا ، شریف خاندان کا کاروبار ضرور وہاں ہے ، ممکن ہے
کہ ان کیلئے کچھ مشکلات پیدا کرے ، سعودی عرب پاکستان کی معیشت مضبوط بنانے
کیلئے کھربوں ، اربوں ریالوں کی سرمایہ کاری تو کر نہیں رہا ، پاکستان کو
قرضے دے رہا ہے تو سود پر واپس بھی لے رہا ہے ، وغیرہ وغیرہ ، سعودی حکومت
پاکستان پر اپنا اثر رسوخ کتنا بھی استعمال کرلے پاکستان اگر اپنی عسکری
قوت کو نہ بھیجنا چاہیے تو اس سے پاکستان کی ذات پر کوئی فرق نہیں پڑنے
والا ، ہاں پاکستان کی ناراضگی ضرور ، سعودی عرب کو مشکلات میں گرفتار
کرسکتی ہے۔لیکن یہاں اس بات کا ذکر کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ دیکھنا یہ ہے
کہ تقریباََ ہر سیاسی جماعت کے سربراہ نے ایک بات مشترکہ کہی کہ اگر مکہ ،
مدینہ پر حملہ ہوا تو وہ سب سے پہلے آگے ہونگے۔عجیب مضحکہ خیز صورتحال ہے ،
یمن میں حوثی باغی مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں ، داعش کی جانب سے مسلمانوں
کے اہم مقامات و مزارت کو تباہ کیا جارہا ہے ، ان کا تقدس بھی تو دیکھنے کی
ضرورت تھی ، حضرت یونس علیہ السلام ، سمیت انبیا کے مزارات ،سمیت سیدہ زینب
کے مزار کو داعش نے شہید کردیا اسی طرح تاریخی مقامات کو داعش اپنی
جنگجوانہ فطرت کی بنا پر تباہ و برباد کر رہا ہے ، کیا ان مقامات کا تحفظ
کسی مسلمان پر فرض نہیں ہے ، ویسے بھی ذرا تاریخ دیکھی لی جائے کہ جب مکہ
پر حملے ہوئے تو دنیا بھر سے کتنے مسلمانوں نے مکہ کا تحفظ کیا تھا ؟۔
یزید بن معاویہ نے اپنے عہد حکومت میں اﷲ کے مقدس گھر کعبہ پر منجنیقوں سے
پتھروں کی بارش کی جس سے کعبہ کی دیواریں مخدوش ہوگئیں ،روئی اور گندھک کے
بڑے بڑے گولوں میں آگ لگا کر بیت اﷲ میں پھینکے گئے ، اس حرکت کی وجہ سے
خلاف کعبہ میں آگ لگ گئی، کعبہ کی دیواریں جل کر سیاہ اور شکستہ ہوگئیں اور
چھت گر گئی۔ یہ واقعہ 64ء ھجری کا ہے۔عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالی عنہ نے
کعبہ کی دوبارہ تعمیر کرائی۔ ،بنو امیہ کے عہد میں خانہ کعبہ پر دوبارہ
حملہ کیا گیا جس سے نہ صرف کعبہ کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ حدود حرم میں
بھی قتل و غارت گری کی گئی۔72ھجری میں جب حجاز مقدس میں عبد اﷲ بن زبیر رضی
اﷲ تعالی کی حکومت تھی ایک لشکر حجاج بن یوسف کی قیادت میں مکہ میں حملہ
آور ہوا، سنگ باری کی گئی جس سے کعبہ کی چھت گر گئی۔ عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ
تعالی اور ان کے ساتھی شہید ہوئے ، ایک روایت کے مطابق عبد اﷲ بن زبیر رضی
اﷲ تعالی کا سر کاٹ کر کعبہ کے پر نالے میں لٹکا دیا گیا اور لاش کو سولی
پر لٹکا دیا۔ یہ شہادت کا واقعہ 73ھ میں پیش آیا۔تاریخ اسلام میں ایک ایسے
فرقے کا ذکر ملتا ہے جو حضرت محمد بن الحنفیہ کو نعوذ باﷲ رسول مانتا تھا ،
اس فرقے کے لوگ صبح و شام دو وقت کی نماز پڑھتے تھے اور سال میں دو دن کے
روزے رکھتے تھے ، انھوں نے اپنا قبلہ کعبہ کے بجائے بیت المقدس کو قرار دے
رکھا تھا ، اس فرقہ کو قرامطہ کہا جاتا ہے ، ایک زمانے میں ان کا اثر اس
قدر بڑھ گیا تھا کہ حاجیوں کے ساتھ مارپیٹ کرکے ان کا سامان لوٹ لیتے تھے
انھوں نے کعبہ کے اندر حاجیوں کو قتل کرکے ان کی لاشیں زمزم کے کنواں میں
ڈال دیں اور کعبہ کی عمارت کو توڑ ڈالا ، اس کے سردار طاہر نے حجر اسود کو
گرز مار کرتوڑ ڈالا اور یمن لے گیا جہاں اس کی حکومت قائم ہوگئی تھی ۔ وہ
یہ بھی اعلان کرتا گیا کہ آئندہ حج مکہ میں نہیں یمن میں ہوا کرے گا ، بیس
سال تک حجر اسود کعبہ سے دور رہا ، یہ وقعہ 318ھ ھجری کا ہے جبکہ بنو عباس
کی خلافت کا زمانہ تھا اور مقتدر باﷲ خلیفہ تھا ، اسی کے ساتھ مصر میں
فاطمی سلطنت کا بھی آغاز ہوچکا تھا۔
یہ سب اس وقت ہوا جب پوری دنیا میں مسلمانوں کی طاقت کا لوہا مانا جاتا تھا
، مسلمان ساری دنیا میں طاقت ور قوم سمجھے جاتے تھے اور ان کے نام سے
قیصران کانپ اٹھتے تھے ، ٹھیک اسی وقت مکہ و مدینہ کے تقدس کی حرمت کو
پامال کیا گیااور بردار کشی کی ایسی تاریخ رقم کی آج تک مسلمان اپنی اس
ذلالت کو بھلائے نہیں بھول سکتے ، کلمہ اسلام پڑھنے والوں اور ایک اﷲ و ایک
رسول ﷺ کا نام لینے والوں نے ہی ایسی حرکات کا ارتکاب کیا جس کے تصور سے
کافر افرنگ بھی کانپ اٹھے ، ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس
طرح رسول اکرم ﷺ کی پیدائش سے ایک سال قبل یمن کے بادشاہ ابرہہ نے مکہ پر
حملہ کیا اور خانہ کعبہ کو مسمار کرنا چاہا تو ابابیلوں نے حفاظت کی ، تو
آج بھی ابابیل ہی حفاظت کریں گی ۔ہاتھیوں کی عظیم فوج کو نازک سی چڑیوں نے
اپنی چونچ میں کنکریاں سے ہاتھی والی فوجیوں کو مار گرایا۔قرآن کریم میں یہ
واقعی سورۃ فیل میں موجود ہے۔لیکن اس کے بعد جب دنیا پر مسلمانوں کا غلبہ
ہوا اور اسلام کے نام لیواؤں نے اسلام کے نام پر حجاز مقدس میں بربریت کی
تاریخ رقم کی تو کسی بھی مسلم حکومت یا کروڑوں مسلمانوں نے اس واقعے پر
جابر حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا۔کس قدر اتفاق کی بات ہے کہ
خانہ کعبہ پر ہاتھی کی فوج لیکر حملہ آور ہونے براہہ کا تعلق بھی یمن سے
تھا ، اور قرامطہ کا تعلق بھی یمن سے تھا ، دونوں خانہ کعبہ کی حرمت اور اس
کے تقدس سے حسد کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ کعبہ کا تقدس ختم ہوجائے ۔بیس
سال تک حجر اسود یمن میں رہا لیکن کسی بھی مسلم ملک نے حجر اسود کو واپس
لانے کیلئے کوئی عمل نہیں کیا۔اب دوبارہ یمن میں ایک حوثی باغیوں کی بغاوت
نے سر اٹھایا ہے ، داعش بھی حجاز مقدس تک رسائی چاہتا ہے اور اس کے ارادے
بھی وہی ہیں کہ جس طرح مقدس اسلامی استعاروں کی بے حرمتی کی اسلام کے نام
پر حجاز مقدس میں اپنا مذموم ارادہ کامیاب کرے ۔ شاید آج کے مسلم ممالک ،
بمعہ پاکستان کسی نور الدین زنگی کا انتظار کر رہے ہیں کہ انھیں بھی کوئی
بشارت ملے اور وہ پھر جا کر کعبہ کے ارد گرد سیسہ پلائی دیوار بنا دیں، تو
معذرت کے ساتھ ، ترقی یافتہ مغربی تہذیب کے دلداہ مسلمانوں کے جذبہ ایمانی
، یہود و نصاری کی خواہشات کے تابع ہوگئے ہیں اور بہت قلیل تعداد اہل ایمان
کے درجے پر فائز نظر آتی ہے ۔ داعش نے اسلام کا جو تشخص دنیا کے سامنے رکھا
ہے اس پر کسی بھی مسلم ملک کی جانب سے عملی رد عمل نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ
حوثی باغیوں کی پیش قدمی اگر سعودی سرزمین پر ہوئی تو کوئی بھی مسلم ملک
انھیں روکنے کے لئے زبانی جمع خرچ سے زیادہ آگے نہیں بڑھے گا۔ابھی تو سعودی
حکومت کسی نہ کسی طرح اس جنگ کے اخراجات برداشت کرلے گی جب سعودی حکومت ہی
نہ رہے تو کون سا ایسا اسلامی ملک ہے جو آگے بڑھ کر باسٹھ اسلامی ممالک کی
کمان اپنے ہاتھ میں سنبھالے گا۔ عرب اسرائیل جنگ میں صرف چند دنوں میں عرب
افواج کی شکست ہمیں اشارہ دے رہی ہے کہ بغاوت کے عظیم طوفان کو آگے بڑھنے
سے پہلے روکنا ضروری ہے۔آج بھی غیب سے اہل ایمان کیلئے یہ صدا گونج رہی ہے
کہ۔۔۔
اپنے کعبہ کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے
اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا۔۔۔ |