سوچو مگر آگے دیکھ کر

پاکستان کا خطہ ایک اصول کے تحت معرض وجود میں آیا۔ ہم ایک قومبنے،ہم میں تہذیب، خوداری تھی۔ہم نے دوستوں کے دوست اور دشمنوں کو بلاخوف للکارتے تھے۔ ہم نے اپنے وجود کو پوری دنیا میں منوایا ہے۔ بہت سے ممالک ہماری دوستی پر فخر کرتے تھے، مگر اب ایسا نہیں ہے۔

سعودی عرب ہمارے درینہ دوست ملک ہے۔ ہر موقع پر انہوں نے پاکستان کی مدد کی ہے۔ ہمارے قبلہ اور مدینہ شریف جس کی حفاظت کے لئے ہماری جانوں کا نذرانہ معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیشہ سے سعودی حکمرانوں نے پاکستان کو خاص اہمیت دی ہے۔ انہوں نے 1965ء کی جنگ سے لے کر 2010ء کے سیلاب اور آج تک ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا۔ہمیں سعودیہ سے سب سے زیادہ زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ پیٹرولیم کے مسائل کو ہمیشہ سے حل کرنے میں سعودیہ پیش پیش رہا ہے۔

اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ان کے ہم پر کوئی احسانات نہیں۔ ہمارے سب سے مقدس مقامات سے ہمارے کوئی تعلق نہیں، ہم صرف ڈر رہے ہیں، ان دوستوں سے جو بعد میں ہمارے ملک میں انتشار پھیلا دیں گے،کیونکہ ان کا باڈر ہمارے ساتھ ہے ،ہمیں ڈر ہے کہ پہلے ہی ایک طرف بھارت اور دوسری جانب افغانستان کے شرپسندوں نے پاکستان میں انتشار پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ ہمیں اس سے تعلقات درست رکھنے چاہیے، مگر کیا مخلص دوستوں سے ہمسایہ کو فوقیت دینا چاہئے ،جو کہ دوستی کے لبادے میں کئی دفعہ دشمنی کرچکا ہو۔ خود وہ شرپسند ہو۔ اب امریکہ سے تعلقات بڑھانے کی خواہش نے اسے پاگل کردیا ہے۔ اس بات سے ڈر کر کہ وہ ہمارے ملک میں انتشار پھیلا دے گا،حالانکہ وہ پہلے ہی بلوچستان میں دہشتگرد کی پشت پناہی کررہا ہے اس نے انڈیا کی ہمیشہ ہمارے مخالفت میں ساتھ دیا ہے۔ ایسے ملک کو خوش کرنے کے لئے ہم سعودیہ کو مشکل وقت میں چھوڑ دیں گے؟یہ ہمارے نام نہاد پارلیمنٹیرین جو اُس وقت بھی انہیں حکومتی بنچوں پر تھے، جب مشرف نے ایک کال پر بغیر کسی مفاد کے پاکستان کو امریکہ کی جنگ میں دھکیل دیا تھا۔ اس وقت کچھ نہ ہوا۔ آج ان کی تقاریر ،تجزیات ختم ہونے کو نہیں آتے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان اور ترکی مل کر ثالثی کردار ادا کررہا ہے۔ ویسے تو ایران اپنے آپ کو حوثی باغی تسلیم نہیں کرتا۔ اور نہ ہی باغیوں کی مدد کا اعتراف کررہا ہے ،پھر پاکستان کو کیا مسئلہ ہے۔ یہ یاد رکھیں کل کشمیر پر عرب ممالک صرف اس وجہ سے پاکستان کے موقف کی پیروی نہ کریں کہ بھارت ناراض ہوجائے گا ،تو ہمیں کیسا لگے گا؟ ابھی زیادہ دور کی بات نہیں جب پاکستان کی سمندری حدود دور کی بات نہیں، جب پاکستان کی سمندری حدود میں 50 ہزار میل کا اضافہ ہوا ہے، وہاں پر عرب ممالک نے ہی آپ کی مدد کی۔ ایران تو ووٹنگ سے ہی غائب ہوگیا تھا۔ عرب ممالک کو بھی دنیا میں رہنا آتاہے۔ ہر اونچ نیچ کو بھی سمجھتے ہیں۔ وہ آپ کے مفادات کاتحفظ اسی لئے کرتے ہیں کہ جب کبھی انہیں ضرورت پڑے ،تو آپ ان کے کام آئیں، مگر ہم اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے سعودیہ کے حکمرانوں کو ہم مذہب، دوست اور احترام کا درجہ دیتے ہیں مگر جب ان پر مشکل وقت آیا ہے، تو ہمیں مختلف خدشات،تحفظات نے گھیر لیا ہے۔

ہمارے عجیب سوچ کے مالک ارباب دانش پاکستان کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ یمنی باغیوں سے لڑائی صرف سعودی عرب کی نہیں ہے بلکہ تمام عرب ممالک کی ہے۔ جس میں 30 ممالک شامل ہیں۔ جبکہ ترکی،ملائیشیا اوردوسرے ممالک نے بھی ان کی بھرپور حمایت کی ہے اگر ان تمام ممالک سے فوج مانگی جائے ،تو وہ ہرگز انکار نہیں کریں گے۔ دوسری جانب سوائے ایران کے اور اس کے حمایتی حزب اﷲ ،حوثی اور بشار الاسد کی حکومت ہے،ہم صرف ایک ملک سے تعلق بچانے کے لئے کئی دوسرے ممالک کو بتا رہے ہیں کہ ہم مفاد پرست لوگ ہیں اور جب کسی پر برا وقت آتا ہے تو ہم کیڑے نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ ہمارے وقار کی توہین ہے۔ ایران سے ڈرنے والے یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ وہ قابل بھروسہ ملک نہیں ہے۔ ویسے تو وہ فرقہ واردیت بڑھانے کو نہیں مانتا، مگر حقیقت یہی ہے کہ فرقہ واردیت دہشتگردی میں ایران اپنی مثال آپ ہے۔

پاکستان اور ترکی نے یمن مسئلہ کا پُر امن حل نکالنے کئے لئے جو کوششیں کر رہے ہیں ، یہ ایک نہایت مثبت قد م ہے۔جسے عرب ممالک بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہوں گے، لیکن ہم نے موجودہ واقعہ سے یہ تاریخ رقم کردی ہے کہ ہم مشکل وقت پر دوستوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے مذہب میں بھی ہے کہ جنگ سے اجتناب کرو مگر تمام راستے صلح کے نہ رہیں تو طوفان بن جاؤ، ایسے جنگ کرو کہ دنیا اسے دیکھے۔ ہم ایسے مقام پر آچکے ہیں جہاں چاروں اطراف پر دشمن ہیں۔ ہمیں دوستوں کی اشد ضرورت ہے۔
جوڈری، سہمی سوچ رکھنے والے اپنے ملک کے باسیوں کو دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم آگے ہی حالت جنگ میں ہیں اور اب فرقہ واردیت بھی ہمارے گلے پڑ جائے گی۔ تو کیا بنے گا؟ یہ دھمکیاں دینا بند ہونی چاہیے۔ ہمیں دلائل پر بات کرنی چاہیے۔ ہماری آزادی، خودمختاری اور مستقبل میں بہت سے ایسے فیصلے آتے ہیں جہاں آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا ۔

ہر سمجھ دار ملک اپنے دوست دشمن کی پہچان چاہتا ہے۔ وقت آنے پر وہ آزماتا بھی ہے، چاہتا ہے کہ وہ ان کے دشمن کے کارناموں کی کھل کر مزاحمت کرے ،جیسا کہ عرب والوں نے کیا۔وہ پاکستانی کی ڈری سہمی سی پالیسی پر خوش نہیں ہوئے اور ہوں بھی تو کیوں ……؟وزیر اعظم میاں نواز شریف کو انہیں باقاعدہ سمجھانے کے لئے پریس کانفرنس کرنا پڑی کہ ہم پارلیمنٹ میں کیا کر رہے ہیں اور ایسی پالیسی کیوں بنائی گئی ۔پاکستان عالم اسلام کے لئے ایک بڑی طاقت ہے،یہ وقت پاکستان کو عالم اسلام کو لیڈ کرنے کا ہے۔ اس میں کسی دوسرے ملک کو سامنے نہیں آنے دینا چاہئے۔ہماری سیاسی لیڈر شپ کو اپنی تمام تر قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر کمان اپنے ہاتھ میں لینی چاہئے ۔اگر موجودہ وقت کو درست طریقے سے لیڈ کر لیا گیا تو اس سے اسلامی ممالک میں نہ صرف پاکستان کی قدر وقیمت بڑھے گی بلکہ دنیا میں پاکستان معاشی اور خارجی طور پر مستحکم ہو گا۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109626 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.