کامیاب لوگ کون ہیں ؟

کامیابی کیا ہے اور کسی انسان کو اصل کامیابی کب حاصل ہوتی ہے۔ عزت، دولت اور شہرت آج کی دنیا میں کامیابی کا معیار تصور کیے جاتے ہیں لیکن واقعی کیا یہی اصل کامیابی ہے کہ کسی شخص کے پاس ڈھیر ساری دولت ہو، ایک دنیا اس کو پہچانے اور معاشرے کے افراد اس کی عزت کریں۔ یہ موضوع بڑی حد تک بحث طلب ہے اورشاید ایک بڑی تعداد میں لوگوں کیلئے یہی کامیابی ہو کہ آپ کے پاس بنگلہ ، کار اور بنک بیلنس ہے اور لوگ آپ کو جھک کرملتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں تو یقینا یہی ساری چیزیں کامیابی کی ضمانت ہیں کہ آپ کے پاس جدید ماڈل کی کار ہو اور یہی اسٹیٹس سمبل بھی ہے لیکن اسی ملک کچھ ایسے لوگ بھی بستے ہیں جن کے نزدیک کامیابی کا معیار یہی نہیں ہے۔

خان محمد ایسے ہی لوگوں میں شامل ہے جس کو لمبی کار اور بنگلے کی کوئی خواہش ہے اور نہ ہی وہ اسے زندگی کا حاصل قرار دیتا ہے۔ اسلام آباد کے بلیو ایریا میں جوتے پالش کرنے والا خان محمد بھی خود کو ایک کامیاب شخص قرار دیتا ہے۔ خان کی کہانی اسی کے الفاظ میں آ پ کی خدمت میں پیش ہے کہ اس کی نظر میں کامیابی کیاہے۔

'' مجھے اپنی درست عمر تو معلوم نہیں مگر شناختی کارڈ کے مطابق اڑتالیس برس ہے ۔ سوات کے علاقے مالم جبہ کا رہنے والا ہوں، پانچویں تک اسکول گیا تھا اس کے بعد اپنے والد کے ساتھ کھیتی باڑی میں لگ گیا اور سیزن ( سوات میں سیاحوں کی آمد کے دنوں کو کہا جاتا ہے) میں چھوٹی موٹی دکانداری ، پھیری اور گائیڈ کا کام کرتا تھا۔ بیس برس کی عمر میں والدین نے شادی کرادی اور تیس برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے تین بچوں کا باپ بن چکا تھا اور پھرایک سانحہ ہوگیا ، تیسرے بچے کی پیدائش کے بعد بیوی کو ایسا عارضہ لاحق ہوا کہ تین برس میں ہی جان سے چلی گئی۔

اس کے بعد زندگی پہلے جیسی نہیں رہی مگر بچوں کیلئے بہتر زندگی اور سہولتوں کا حصول تو کرنا تھا ۔اسی لئے زندگی کی گاڑی کھینچتا رہا اور بچے اسکول میں داخل کرادئیے ۔ زندگی کسی حد تک بہتر گزر رہی تھی اور جیسے تیسے کرکے اخراجات پورے ہو رہے تھے کہ اچانک ہم پر ایک ساتھ کئی آفتیں نازل ہونا شروع ہوگئیں۔ سوات میں طالبان کے آنے کی کہانی سے تو اب ایک دنیا واقف ہے لیکن جو ہم پر گزری وہ ہم ہی جانتے ہیں اور اس دوران کس طرح ہم روز وشب عذابِ مسلسل سے گزرے۔ شروع کے دنوں میں ہم نے بھی طالبان کے اعلانات پر لبیک کہا اور اسلامی نظام کے خوش کن نعرے سے متاثر ہوئے ۔ اپنے پاس جو کچھ تھوڑا بہت تھا نقدی او زیور کی صورت اللہ کی راہ میں طالبان کے حوالے کردیا۔ ہم پٹھان لوگ ویسے بھی بہت مذہبی ہوتے ہیں اور دل وجان سے چاہتے ہیں کہ ملک میں اسلامی نظام رائج ہو۔ لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ طالبان کی جانب سے ان کوششوں کا ردعمل اتنا خوفناک ہوگا اور ہمیں اپنا علاقہ چھوڑنا پڑے گا۔ جب تک ہمارے علاقے میں طالبان کا اثر ورسوخ تھا کسی حد تک امن تھا مگر جب فوج آئی تو پھر خودکش حملے اور بم دھماکے شروع ہوگئے ۔ میرے تین بچوں میں سے ایک فوجی آپریشن کے دوران گولی لگنے سے جاں بحق ہوگیا۔اس کے بعد میں نے اپنی زندگی کامشکل ترین فیصلہ کیا ۔

اپنے گھر کو ، اپنے علاقے کو ، آباء واجداد کی زمینوں کو چھوڑ کراجنبی شہروں کی جانب سفر کوئی آسان کام تو نہیں ہوتا نا صاحب۔۔!! ہم دیہاتی لوگ ہیں ، شہروں میں کہاں رہ سکتے ہیں ، ہم سے یہ بے حیائی کہاں برداشت ہوتی ہے مگر جب جان کے لالے پڑ گئے تو اپنے دو بیٹوں کو لے کر راولپنڈی آگیا۔ یہاں دور پرے کے جاننے والے تھے ان کے پاس کچھ دن ٹھہرے لیکن ہم کسی پر بوجھ نہیں بن سکتے ۔ ایک بیٹے کی شہادت اور علاقہ بدری ، غریب الوطنی اور جیب خالی۔ حادثے تو بڑے تھے لیکن پھر بھی ہمارے حوصلے سے کم رہے۔ نئی زندگی کی ابتداء کرنا تھی اور زندگی کی گاڑی کھینچنا تھی اس لئے جوتے پالش کرنے کا کام سب سے آسان لگا ، باقی مزدوری کے علاوہ تو کچھ آتا نہیں ۔ دو ہاتھ اور دو پائوں اللہ تعالی نے دیئے ہیں وگرنہ بہت سے مقامی فقیروں نے خود کو سوات آپریشن سے متاثرہ قرار دے کر جگہ جگہ بھیک مانگنا شروع کردی۔ شرم تو بہت آئی لیکن کیا کریں ، آفت ہی ایسی آئی ہے کہ لوگوں کو کیا کہا جائے۔ دووقت کی روٹی کمانا جب مشکل ہوجائے تو کم حوصلہ لوگ ہمت ہار دیتے ہیں۔ مجھ پر اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اپنے گزارے کیلئے رقم کما لیتا ہوں ، صبح آٹھ بجے کام شروع کرتا ہوں اور شام چھ بجے چھٹی کرلیتا ہوں ۔ اتنا ہوجاتا ہے کہ میں اور بچے دووقت کی روٹی سکون کے ساتھ کھا لیتے ہیں۔ چوری نہیں کرتا ، ڈاکہ نہیں ڈالا ، کرپشن نہیں کی اور نہ ہی کبھی حرام کمایا۔ کیا پاکستان میں رہتے ہوئے یہ کامیابی نہیں ؟ ہمارے لئے تو یہی کامیاب زندگی ہوتی ہے صاحب۔۔!! ہم تو سمجھتے ہیں وہی شخص کامیاب ہے جو اپنے اللہ کو راضی کرتا ہے اور حرام اور کرپشن کی کمائی کی بڑی گاڑی میں گھومنے کی بجائے پیدل چل اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ، اسی لئے صاحب جی ہم تو کامیاب لوگ ہیں، باقی آپ کی مرضی ، ہمیں جو بھی سمجھیں۔''​
Prof Dr Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi
About the Author: Prof Dr Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi Read More Articles by Prof Dr Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi: 10 Articles with 35402 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.