پے گئی اے ٹھنڈ

؎ ٹھنڈ سے خوگر هوا انساں تو مٹ جاتی هے ٹھنڈ
سردیاں مجھ پر پڑیں اتنی که آساں هوگئیں

گزشته مرتبه جب هم سیف الملوک میں تهے تو وهاں هم قیام کر کے آئے تھے... خیمه میں... بارش کا موسم تھا... سرد هوائیں هڈیوں کو چیرے دے رهی تھیں... دھند میں اٹی برف پوش، سنگلاخ اور سر سبز چوٹیاں کافی بھلی لگ رهی تھیں اور اپنے دھند میں پنهاں اسرار کو کھوجنے کی آپ دعوت تھیں... صاف چھپتے بھی نهیں سامنے آتے بھی نهیں... اراده تو همارا آنسو جھیل کا تھا مگر طوفان اور برف باری کے باعث التوا میں ڈالنا پڑا... اسی دن رات کو بارش بھی هوئی... اور ساری دھند چھٹ گئی... اس کے بعد جو فضائے بسیط میں نگاه کی تو بس دیکھتے ره گئے... دیو قامت پهاڑوں کے درمیان وادی میں وه فیروزی رنگ کے پانی کا بے پروا خرام... اپنا آپ کتنا اکیلا اور وجود کا هونا کتنا ناممکن لگا تھا... کن فیکون اور کیا هوتا هے...

؎ ترستی هے نگاهِ نارسا جس کے نظارے کو
وه رونق انجمن کی هے انھی خلوت گزینوں میں

؎ سراپا حسن بن جاتا هے جس کے حسن کا عاشق
بھلا اے دل! حسیں ایسا بھی ھے کوئی حسینوں میں

'خالق الوجود من العدم' والا سماں تھا اور هم سب تمبو نما خیمه میں پڑے ٹھٹھر رهے تھے... هوا یوں که اسی اثناء میں نماز کا وقت آن پهنچا... جھیل کی اَور هم وضو کرنے گئے تو وهاں پر اور لوگ بھی تھے... سیاح اور باقی وضو کرنے والے بھی... حالانکه اس وقت گرمیوں کا دور دوره تھا لیکن اس کے با وجود وهاں اچھی خاصی ٹھنڈ تھی... هاتھ پیر اکڑے جا رھے تھے... وضو کرنے والے پلیا کی ایک طرف اتر کر اس جگه وضو کر رهے تھے جہاں سے دریائے کنہار پھوٹتا هے اور ناران، کاغان اور بالا کوٹ سے هوتا هوا اپنے هم نشینوں میں ضم هو رهتا هے... وهاں وضو کرتے هوئے منه سے سسکیاں نکل نکل جاتی تھیں... جہاں جہاں پانی مس هوتا وه جگه شل هو کر ره جاتی... میرے بازو میں هی ایک جوان بنده جس کے چہرے کی صاف رنگت پر سیاه داڑھی کافی بھلی لگ رهی تھی اور سفید شلوار قمیص میں ملبوس تھا، وضو کر رها تھا... اس نے مجھ سے متبسم استفسار کیا که "کیا هوا... کچھ زیاده سردی لگ رهی هے...؟" میں اثبات میں جواب دیتے هوئے گویا هوا "بس الله بچائے... میں اپنے منحنی وجود کی کپکپاهٹ کی ریاکاری تو کرنے سے رها...!" میں نے مصنوعی خفگی سے جمله مکمل کیا... تو وه شخص دھیمی سی مسکراهٹ که ساتھ مدھم لے میں بولا "پناه مانگنی هے تو گرمی سے مانگو... آگ سے مانگو...! الله تعالی نے قرآن میں سردی سے نهیں ڈرایا بلکه اس نے تو نار سے ڈرایا هے... آگ سے ڈرایا هے... گرمی سے ڈرایا هے...!" وه تو اور بھی کافی کچھ کہتا رها مگر میں اثبات میں سر هلا کر سوچنے لگا " اس وقت گرمی ذرا بھی نهیں هے اور همارا یه حال هے... جب گرمی بھی هو اور جهنم کی گرمی تو پھر اس کے عذاب هونے میں کیا شک... یه سردی بھی تو اس کی نشانی هے... اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے... الله تعالی اپنی نشانیاں بیان کرتا هے، دکھاتا هے... مگر انسان هے که کچھ سمجھتا هی نهیں... بے شک انسان ناشکرا اور جھگڑالو هے... اللهم اجرنی من النار... یا مجیر مجیر یا مجیر...!"

مگر یه تو مجھے بعد میں معلوم ھوا کہ جہنم میں سردی کا بھی عذاب ھے... زَمہَرِیرا... انتہا کی سردی... کاٹ دار...! کیسا سماں ہوگا نا... ایک طرف آگ اور ایک طرف ٹھنڈ... گویا دہکتی ہوئی ٹھنڈ...!
ربنا اغفرلنا و لإخوننا الذین سبقونا بالایمان...!

؎ پھڑک اٹھا کوئی تیری ادائے ماعَرَفْنَا پر
ترا رتبه رها بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرینوں میں

؎ نمایاں هوکه دکھلا دے کبھی انکو جمال اپنا
بہت مدّت سے چرچے هیں ترے باریک بینوں میں
رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی)
About the Author: رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی) Read More Articles by رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی): 40 Articles with 30926 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.