طائف کے پہاڑوں کے درمیان کچھ لمحات۔سفرنامہ

طائف ،سعودی عرب کے صوبے مکہ المکرمہ کا ایک خوبصورت شہر، مکہ کے بالکل برابرپہاڑوں کے درمیان آبادہے ۔مکہ کی امہ القراءیونیورسٹی روڈ پر جہاں مکہ کی حدود ختم ہوتی ہیں طائف کی حدود کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ پہاڑوں کے درمیان خوبصورت وادی ہے جو اپنے اندر ایک تاریخ لیے ہوئے ہے۔قرآن کریم میںاﷲ تبارک و تعالیٰ نے مکہ اور طائف کو ’القریاتین‘کہا ہے۔

طائف کے معنی ’طواف کرنے والا، خواب، رکھوالا، نگہبان اور پاسبان کے ہیں۔یہ شہر 6ہجری میں مکہ کے شمال میں کوئی سو کلومیٹر اونچے اونچے پہاڑوں کے درمیان بنو طاقف نے آباد کیا تھا۔ اس قبیلے کے لوگ اب بھی طائف کے باسی ہیں۔یہاں کی آبادی 60لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ انگور یہاں کا خاص پھل ہے ۔ آنحضرت محمدﷺ نے طائف والوں کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے طائف کا سفر کیا تھا ۔ طائف کی آب و ہوا خوش گوار ، صحت افزا اور سرد ہے۔ یہاں آکر پاکستان کے پر فضاءشہروں مری، ایوبیہ، بارہ گلی، نتھیا گلی، سوات اور دیگر پہاڑ وں پر واقع شہروں کا احساس ہوتا ہے۔ فرق یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں ان شہروں کو جانے والے راستے آج بھی قدیمی ہیں جب کہ یہاں سعودی عرب کے اونچے اونچے پہاڑوں پر قائم شہروں کو جانے والے راستے جدید طرز کی شاہراہوں، چوڑی چوڑی سٹرکوں ، خوبصورت درختوں اور چمکتی دمکتی بجلی کے کھمبو ں پر لگی لائیٹوں سے آراستہ ہیں۔ان اونچے پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی ہوئی سڑکوں پر رات کے کسی پہر بھی سفر کرتے ہوئے دن سے زیادہ حسن نکھار دکھائی دیتا ہے۔

سعودی عرب اپنی آمد کے بعد عمرہ کی ادائیگی کے علاوہ مقدس مقامات کی زیارت ہر مسلمان کے معمولات ہوتے ہیں ہمارے معمولات میں بھی یہ شامل ہوتا ہے۔ جہاں ہم از خود جاسکتے ہیں چلے جاتے ہیں اب کیونکہ کئی بار یہاں آنا ہوا ہے اس وجہ سے اکثر راستے جانے پہچانے ہوگئے ہیںالبتہ دور دراز جگہ پر ہمارا بیٹا ہی ہمیںلے جاتا ہے۔ 13 دسمبر 2013ءنماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد جدہ سے طائف کے لیے ہمارے سفر کا آغاز ہوا۔شہناز(میری شریک حیات)،میرے بڑی بہو مہوش ، پوتا صائم اور عدیل جو گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ اس سفر میں ہماری رہنما ئی بھی کررہے تھے۔ جدہ سے طائف جانے سے قبل مکہ تک کا سفر کرنا ہوتا ہے۔ اب یہ راستہ ہماری نظروں میں سماچکا تھا۔ بے شمار باراس راستے پر سفر کر چکے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ہم مکہ کی حدود میں داخل ہوگئے۔ شاہراہ مکہ پر رحل نما گیٹ سے حرم کی حدود کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس گیٹ پر آغازِ حرم تحریر بھی ہے۔یہاں سے حرم چند قدم کے فاصلے پر ہے ۔کچھ آگے جانے کے بعد ہماری منز ل طائف کی جانب تھی۔ حرم کے لیے سیدھا جانا ہوتا ہے ہم دائیں جانب شاہراہ جامعہ امہ القراپر مڑ گئے ۔مکہ کی جامعہ امہ القر اکی خوبصورت عمارت ہمارے دائیں جانب تھی۔اس جامعہ اور اس کے کتب خانے کو دیکھنے کی تمنا تھی تاحال پوری نہیں ہوئی ، انشاءاﷲ آئندہ کے پروگرام میں اس جامعہ کو دیکھیں گے۔عمارت دیدہ زیب اور خوبصورت نظر آرہی تھی۔ یہ شاہرہ آگے جاکر شاہراہ طائف میں بد ل جاتی ہے اورایسا ہی ہوا۔ کچھ فاصلے پر مکہ کی حدود اختتام پذیر ہوئیں اور طائف کی سرزمین نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ گاڑی اوپر کی جانب رواں دواں تھی۔ دونوں جانب پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، ٹھنڈک کے احساس کے ساتھ سرد ہوا کانوں میں رس گھولتی محسوس ہوئی۔ عدیل جو پہلے بھی طائف آچکے تھے ہماری رہنمائی کررہے تھے۔جیسے جیسے ہم پہاڑوں کی جانب بڑھ رہے تھے تیز ٹھنڈی ہوائیں بدن میں داخل ہوتی محسوس ہورہی تھیں۔ دونوں جانب رنگ برنگے پہاڑ قدرت کا حسین نظا رہ پیش کررہے تھے۔ سفید بادل جھوم جھوم کر پہاڑوں سے بغل گیر ہورہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آج بادل بھی طائف کے پہاڑوں سے ملاقات کے لیے آئے ہیں یا پھر یہ وقت ان کے یہاں آمد کا ہوتا ہوگا۔ سڑک کے کناے جگہ جگہ لوگ اپنی فیملی کے ہمراہ گاڑی روکے ہوئے حسین نظاروں کا لطف لے رہے تھے۔ کھانے پینے کے ساتھ گرم گرم چائے ،کافی یا عربی قہوا لوگوں کو گرما رہا ہوگا۔

عصر کی نماز کا وقت ہوچکا تھا۔ جوں ہی مسجد نظر آئی ہم سب وہاں رک گئے۔ یہ طائف کی وادی’ محرم‘ تھی۔ مسجد کانام ’مسجد المیقات قدیم ۔ وادی محرم‘ تھا۔ مسجد کے دروازے پر اس کے قیام کا سال ۰۰۴۱ہجری درج تھا۔ سعودی عرب میں مسجد شہر میں ہو، گاؤں یادیہات میں ، پہاڑ پر ہو یا جنگل بیاں بان میں ہر اعتبار سے مکمل، خوبصورت ، دیدہ ذیب ، مکمل قالین اور ائر کنڈیشن ہوتی ہیں۔ یہ مسجد بھی ایسی ہی تھی۔ البتہ وضوکرنے کی جگہ پرصفائی کا فقدان نظر آیا غالباً اس کی وجہ مسافروں کا زیادہ تعداد میں یہاں آنا ہوگا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ہم اُسی سڑک پر آگے چل دئے۔ دونوں جانب پہاڑوں کے درمیان طائف کی مختلف بستیاں آباد تھیں۔ یہ بستیاں اب قدیم زمانے کی نہیں تھیں بلکہ جدید طرز کی کئی کئی منزلہ عمارتوں پر مشتمل ہیں۔تیز اورسرد ہوائیں اپنے عروج پر تھیں۔ شاید عدیل اور مہوش کواندازہ نہیں تھا کہ طائف میں اس قدر سردی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے پاس سردی سے بچاؤ کا مکمل سامان نہیں تھا۔ اب کیا کیا جاسکتا تھا۔ جو کچھ بھی تھا اس سے اپنے اپنے سر اور کانوں کو ڈھانپنے کی کوشش کررہے تھے۔ کوشش یہ تھی کہ ہمارے کان اور ناک گرم کپڑے سے ڈھک جائیںایسا کرنے سے سردی کا احساس کم ہوتا محسوس ہورہاتھا۔

اب ہم نے بھی سڑک کے کنارے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، یہ طائف کے درمیان کی کوئی جگہ تھی، ہمارے علاوہ کئی اور لوگ بھی یہاں ٹہرے ہوئے تھے۔ کپڑا بچھا دیا گیا۔ فٹ پاتھ صوفہ کا کام دے رہی تھی۔ بیٹھنا کس نے تھا۔ سرد ہوائیں جسم میں گھس رہی تھیں ، ٹھنڈ سے ہاتھ سن ہورہے تھے ۔ لیکن ہم نے بھی اس جگہ میں کچھ وقت گزارنے کا ارادہ کر لیاتھا۔ چائے اور دیگر کھانے کا سامان ہمراہ تھا ۔ چائے جو کچھ گرم تھی نے خوب لطف دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد محسوس ہوا کہ اندر کچھ گرمی پہنچی ہے لیکن ہاتھ جسم سے جدا ہونے کی نوید دے رہے تھے۔ اس صورت حال میں بھی ہم طائف سے پورا پورا لطف لے رہے تھے۔

حسین سرد نظاروں کے ساتھ ساتھ میری سوچ اونچے اونچے پہاڑوں ، بادلوں اور پہاڑوں کے حسین ملاپ کو دیکھتے دیکھتے اہل طائف کے اس سلوک پر جا پہنچی جو انہوں نے ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے ساتھ کیا تھا۔ یہ بات تو حقیقت ہے کہ طائف کا نام آتے ہی ہر مسلمان کے دل و دماغ میں قدیم طائف کے لوگوں کاوہ سلوک یاد آجاتا ہے جو انہوں نے نبی ﷺ کے ساتھ کیا تھا ۔نبوت کے نو سال تک آپؑ مکہ میں خدا کے پیغام کو قوم کی ہدایت و اصلاح کی سعئی فرماتے رہے لیکن کم لوگوں کے ایمان لانے کے باعث کفار آپ ؑ کو اور آپ کے ساتھیوں کو مستقل تکلیف پہنچارہے تھے۔آپ کے چچا ابو طالب مکہ کے مقتدر شخصیات میں سے تھے ساتھ ہی نیک دل لوگوں میں گردانے جاتے تھے وہ مسلمان تونہ ہوے تھے لیکن وہ آپ ؑ کی ہر طرح مدد کیا کرتے۔نبوت کے دسویں سال ابو طالب وصال فرما گئے تو مکہ کے کفاروں کو اور بھی زیادہ شہ مل گئی اور انہوں نے آپؑ کے ساتھ اور بھی خراب سلوک شروع دیور اکرم محمدصلی اﷲ علیہ و سلم کی شریک حیات حضرت بی بی خدیجہؓ بھی وفات پاچکی تھیں۔اب مکہ میں آپ کے لیے مشکلات بڑھ گئیں تو آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے اﷲ کا پیغام اہل طائف کو پہنچانے کا قصد کیا۔ اس موقع پر آپ کے ہمراہ زید بن حارث ؓتھے۔طائف سے آپ ﷺ کا ایک تعلق یہ تھا کہ آپ ﷺ کی والدہ حلیمہ سعدیہ طائف کے قبیلے بنی سعد سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس وجہ سے بھی آپ ﷺ نے طائف میں جانے اور انہیں اﷲ کا پیغام پہنچانے کا فیصلہ کیا ہوگا۔آپ ﷺ کا خیال تھا کہ اگر طائف کے لوگ ایمان لے آتے ہیں تو مسلمانوں کو ان مشکلات سے نجات حاصل ہوجائے گی ۔ طائف بلند و بالا پہاڑوں کی وادی تھی۔ نبی ﷺ نے اپنے اس ارادے پر عمل کرنے کے لیے طائف کا قصد کیا ، زید بن حارثؓ آپ کے ہمراہ تھے۔

طائف پہنچ کر آپ نے طائف کے سرداروں اور مقتدر شخصیات کو اپنے مقصد سے آگاہ کیا، جب آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے اﷲ کا پیغام اہل طائف کو پہنچایا تو وہ آگ بگولہ ہوگئے ۔انہوں نے عرب کی مہمان نوازی کی روایات کے بر خلاف آپ کے ساتھ سلوک کیا۔ آپ ﷺ نے طائف میں کئی مقامات پر لوگوں کو سمجھانے اور اﷲ کے پیغام سے انہیں آگاہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے آپ ؑ کی ایک نہ سنی۔ جب آپؑ واپس ہونے لگے تو وہاں کے کچھ نوجوان اپنے بڑوں کے اکسانے پر اس قدر آپے سے باہر ہوئے کہ انہوں نے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم پر آوازیں کسیں، تالیاں بجائیں، یہاں تک کہ آپؑ پر پتھروں کی بارش کردی۔ جس کے نتیجے میں آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کا جسم اطہر خون میں ترگیا یہاں تک کہ خون آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کے پاو ¿ں مبارک تک پہنچ گیا۔ بعض جگہ لکھا ہے کہ آپؑ بیہوش بھی ہوگئے۔ اس کیفیت میں حضرت زید بن حارث ؓ کے سہارے سے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے نیچے کی جانب ایک جگہ پناہ لی۔ تاکہ اپنی تکلیف کے احساس کو کم کر سکیں۔حضرت زید بن حارث ؓ کے حوالے یہ روایت جسے ڈاکٹر محمد عبد الحئی نے اپنی کتاب ’اُسوہ ¿ رسولِ اکرم ؑ‘ میں نقل کیا ہے کہ ’میں حضور ﷺ کا ہمسایہ تھا جب حضور ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ مجھے بلاوا بھیجتے میں حاضر ہو کر اس کو لکھ لیتا تھا‘۔ بعض مصنفین نے لکھا ہے آپ ﷺ کو حضرت زید بن حارثؓ سے خاص محبت تھی۔آپ ﷺ نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا یا ہوا تھا یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ ﷺ طائف کے سفر میں صرف انہیں ہی اپنے ہمراہ لیا، حالانکہ نو سالا دور نبوت میں مکہ میں متعدد صحابہ اکرام اور قریبی ساتھی موجود تھے۔ یقینا اس میں اﷲ کی مصلحت تھی کہ آپ نے طائف کا یہ سفر صرف حضرت زید بن ثابت ؓ کے ہمراہ ہی کیا۔حضرت زید بن حارث ؓ کا حافظہ بھی بلا کا تھا، کم عمری ہی میں آپ نے قرآن مجید کے کئی پارے حفظ کر لیے تھے۔ جیسے جیسے آپ احادیث لکھتے وہ انہیں ازبر بھی ہوجایا کرتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ آنحضر تﷺ کے بعد بھی چاروں خلفاءکے قریبی ساتھیوں میں رہے۔

خدا وندقدوس کی شان قہاری کو اس پر جوش آیا اور جبرائیل امین نے آپکی کی خدمات میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا اور کہا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی قوم کی وہ تمام گفتگو اور وہ عمل سنا اور دیکھا۔آپ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس فرشتہ کو بھیجا ہے، جس کا کام پہاڑوں کی خدمت ہے۔ آپ جو چاہیں اسے حکم دیں۔ اُس فرشتہ نے آپﷺ کو سلام عرض کیا کہاکہ اگر آپ اجازت دیں تو ان دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں تاکہ یہ لوگ ان پہاڑوں کے درمیان آکر اپنے انجام کو پہنچ جائیں اور کچل جائیں۔یا جو سزابھی آپ ان کے لیے تجویز کریں۔ نبی پاک صلی اﷲ علیہ و سلم جو پورے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے کو یہ گوارہ نہ ہوا اور آپ صلی اﷲ علیہ و سلم اُسے منع فرماتے ہیں ۔کفارانِ طائف کے ازیت پہنچانے کے باوجود اس وقت آپ ﷺ نے جو دعا مانگی وہ کچھ اس طرح سے تھی۔ترجمہ’۔
”اے اﷲ میں اپنے ضعف اور، بے بسی اور لوگوں کی نظروں میں اپنی تحقیر اور بے سرومانی کی فریاد تجھ ہی سے کرتا ہوں۔اے ارحم الراحمین! اے درماندہ ناتوانوں کے مالک! تو ہی میرا رب ہے۔ اے میرے آقا! تو مجھے کس کے سپرد کرتا ہے بیگانوں کے جو ترش رو ہوں گے یا دشمن کے جو میرے نیک و بد پر قابو رکھے گا۔ لیکن جب تو مجھ سے ناخوش نہیں ہے تو مجھے کچھ پرواہ نہیں ، کیونکہ تیری عافیت اور بخشش میرے لیے زیادہ وسیع ہے۔ میں تیری ذات پاک کے نور کی پناہ چاہتا ہوں، جس سے آسمان روشن ہوئے اور جس سے تاریکیاں دورہوئیں اور دنیا و آخرت کے کام ٹھیک ہوئے۔ تجھ سے اس بات کی پناہ چاہتا ہوں کہ مجھ پر غضب نازل کرے یا تیری ناخوشی مجھ پر وارعتاب کرنے کا تجھی کو حق ہے اور تجھ کو منانا ہے حتیٰ کہ تو راضی ہوجائے اور تیری مدد اور تائید کے بغیر کسی کو کوئی قدرت نہیں‘ (تاریخ طبری جلد 2،ص 81)۔ اس واقع کے بعدآنحضرت ﷺ طائف سے واپس ہوئے اور پھر فرمایا :”میں ان لوگوں کی تباہی کے لیے کیوں دعا کروں۔ اگر یہ لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے تو کیا ہوا۔ امید ہے کہ ان کی آئندہ نسلیں ضرور اﷲ پر ایمان لانے والی ہوں گی“۔ آپ کی یہ دعا قبو ل ہوتی ہے اور اسلام قبول کرنے والوں میں طائف مدینہ کے بعد دوسرا شہر قرار پاتا ہے۔ آج طائف میں ہر شخص اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کا چاہنے والا ہے۔ اسلام کا بول بالا ہے۔

اس واقع کے ذہن میں آتے ہی مجھے یہ خیال بھی آیا کہ یہ پہاڑ جو اِس وقت میری نظروں کے سامنے ہے وہی پہاڑ تو نہیں کہ جس کے دامن میں آپ صلی اﷲ علیہ و سلم بیٹھے تھے۔ اس پہاڑ نے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کو اس تکلیف میں دیکھ کر کس طرح اپنے آپ کو قابوں میں رکھا ہوگا۔ ہو سکتا ہے یہ وہی پہاڑ ہو کہ جس پر میں اس وقت بیٹھا ہوا ہوں آپ کاخون مبارک بہا ہو۔ ہر صورت میں وہ پہاڑ بھی اس وقت میری نظروں کے سامنے تھے جن جن کے دامن میں آپ ﷺ نے اہل طائف کو اسلام کی دعوت دی تھی ۔ یقینا ان پہاڑوںکو آنحضرت ﷺ نے دیکھا ضرور ہوگا جن پر آج میری نظریں بھی ہیں۔آج میں اس سرزمین پر بیٹھا ہوں جس پر میرے بنی صلی اﷲ علیہ و سلم نے پتھر کھا کر ،زخمی ہوکر ، خون بہ خون ہوکر اہل طائف کو دعا ہی دی۔ اسی شہر طائف میں آج نبی صلی اﷲپر علیہ و سلم کے دین کا بول بالا ہے۔ مسجدوں کا ایک وسیع جال اس شہر میں بچھا ہوا ہے۔ پانچ وقت اذان کی صدائیں گونجتی ہیں تو ہر قسم کا کاروبار بند ہوجاتا ہے لوگ مسجدوں کا رخ کرتے ہیں اور اﷲ کا حکم بجا لاتے ہیں۔

باغ یا قطعہ زمین یا گھر جہاں حضور ﷺ نے زخمی حالت میں کچھ دیر قیام کیا تھا طائف کے شائیبہ اور عتبہ نامی سرداروں کا تھا ۔ وہ اس صورت حال کو اس وقت دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اظہار ہمدردری کے طور پر اپنے ایک عیسائی کسان ’عداس‘ کو انگوروں کا ایک خوشہ دے کر حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ عداس اپنے آقاؤں کا حکم بجا لاتے ہوئے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انگوروں کا خوشہ آپ ؑ کی خدمات میں پیش کیا۔ عداس کا تعلق نینوا کی سرزمین سے تھا۔ نینوا جو اب عراق میں ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ و سلام کو اس سرزمین میں اپنا پیغام دے کر بھیجا تھا۔ عداس نے جب آپ ﷺ کو دیکھا اور گفتگو کی تو اسے اپنے خاندان کے بڑوں کی کچھ باتوں کا خیال آیا وہ سمجھ گیا کہ یہ اﷲ کے نبی ؑ ہیں ۔ اس نے اُسی وقت کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔ طائف میں اس جگہ جہاں آنحضرت ﷺ نے زخموں کی حالت میں قیام کیا تھا اور عداس نامی عیسائی نے اسلام قبول کیا تھا یہاں ایک’ مسجدِ عداس‘ بنادی گئی ہے۔ ہماری کوشش تھی کہ مسجد عداس کو تلاش کریں لیکن رات شروع ہو چکی تھی ۔ رات کے اندھیرے اور پہاڑوں کے درمیان مسجد عداس تک پہنچنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ حالانکہ ہم طائف میں بہت آگے کی جانب جاچکے تھے بہت ممکن تھا کہ وہ مسجد ہمارے آس پس ہی موجود ہوگی۔طائف میں ایک مسجد عبد اﷲ بن عباس کے نام سے بھی ہے جو قدیم مساجد میں سے ہے۔ مرکز بنی سعد بھی قائم ہے اس کے علاوہ طائف سے البہی کی جانب جائیں تو 60کلومیٹر کے فاصلے پر بنی سعد کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ حلیمہ سعدیہ طائف کے بنو سعد قبیلے سے تعلق رکھتی تھی ان کا گھر اسی جگہ تھا جو اب بے نام و نشان ہوچکاہے اس طرح کی بے شمار تاریخی و نادر چیزوں، متبرک مقامات کو محفوظ کرنے کے بجائے انہیں ختم کردیا گیا۔

پہاڑوں کے درمیان کی کھلی ہوئی ٹھنڈی اور روشن فضاءاندھیری رات میں تبدیل ہو نا شروع ہوچکی تھی ، سر دی نے بھی ہمیں مجبور کردیا کہ ہم اب یہاں سے اُٹھ جائیں اور واپسی کی راہ لیں ۔ گاڑی میں ھیٹر چلا تو جان میں جان آئی۔ اب ہم طائف سے واپسی کے سفر پر تھے۔ طائف شہر کی بلند و بالا عمارتیں ہمیں خدا حافظ کہہ رہی تھیںاور ہم پہاڑوں کے درمیان تیزرفتاری سے نیچے کی جانب رواں دواں تھے۔ مغرب کی اذان ہو ئی ہم نے پھر ایک مسجد کے سامنے گاڑی پارک کردی۔ یہاں ہر مسجد میں خواتین کے لئے نماز کی جگہ علیحدہ ہوتی ہے۔ طائف کی یہ مسجد کشادہ، حسین ، صاف ستھری تھی۔ نماز پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ مسجد کے ساتھ ہی چھوٹا سا بازار بھی تھا اسے دیکھا،ٹوپیاں اور صائم کو دستانے دلوائے اور واپس ہوئے۔ راستے میں پھلوں کی بہت بڑی مارکیٹ تھی ۔ دکانوں پر تمام طرح کا فروٹ خوبصورتی سے سجا یا ہوا تھا۔ خوبصورت روشن قم قموںنے اس جگہ کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ کیا ہوا تھا۔ کچھ پھل خریدے اور واپس ہوئے۔ اب مکمل اندھیرا ہوچکا تھا ہمارا سفر جاری تھا۔ سڑکیںکشادہ اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لائٹیں لگی ہوئی تھیں ۔ دور دور تک سڑک روشن نظر آرہی تھیں ۔ اب ہمارا سفر اوپر سے نیچے کی جانب تھا۔سڑک کے کنارے لگے بجلی کے بلب خوبصورت نظارہ پیش کررہے تھے۔ ہم ایک جگہ اور ٹہرے تاکہ اوپر اور نیچے کا نظارہ کرسکیں۔ کس قدر حسین منظر تھا۔ اوپر دیکھ کر یہ خوف آیا کہ ہم اتنی بلندی پر تھے اور نیچے دیکھ کر یہ خوف آرہا تھا کہ ہم ابھی اتنے نیچے جائیں گے۔ روشنی میں بل کھاتی ہوئے سڑک انتہائی حسین اور دیدہ ذیب منظر پیش کررہی تھی۔

طائف کی حدود اختتام کو پہنچی ہم مکہ کی حدود میں داخل ہوئے۔ رات کے وقت گاڑی چلانے میں اکثر بھول ہوجاتی ہے۔ جہاں سے آپ کو مڑنا ہے اگر وہ یو ٹرن نکل جائے تو آپ کو خاصا طویل راستہ طے کرنا پڑجاتا ہے یہی ہوا جہاں سے جدہ کے لیے مڑنا تھا عدیل سے وہ یو ٹرن مس ہو گیا اب تو ہمارا راستہ اور طویل ہوگیا لیکن اس میں بھی کچھ مصلحت تھی ہم ایک بار پھرخانہ کعبہ کے سامنے جا پہنچے ۔ گاڑی سے اترے تو نہیں لیکن حرم شریف کے بالکل سامنے سے ہوتے ہوئے ہم اپنی منزل جدہ کے سفر پر تھے جو رات نو بجے اختتام پذیر ہوا۔

قارئین اکرام میری ذاتی رائے یہ ہے کہ سفر نامے کا مقصد صرف یہ ہی نہیں ہونا چاہیے کہ سفرنامہ نگار اپنی مصروفیات اور جہاں جہاں وہ جائے اس کا آنکھو دیکھا حال خوبصورت جملوںمیںادب کی چاشنی کے ساتھ قارئین تک پہنچا دے۔ میری نظر میں سفر نامے کو سفر نامہ نگار کی مصروفیات اور اس نے جس جس جگہ کو دیکھا ، جو کچھ اس دوران اس پر گزرا، ان حالات اورو اقعات کو خوبصورت انداز سے اپنے قارئین تک پہنچائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ سفر نامہ جس شہر،ملک یا علاقے کا ہو اس کے بارے میں بھی بنیادی معلومات سفر نامے میں شامل ہوں تاکہ وہ سفر نامہ قاری کے لیے ایک گائیڈ و رہنما کا کام بھی دے۔ میری اسی سوچ کے پیش نطر آپ کو جابجا کچھ تاریخی واقعات اور حقائق بھی ملیں گے۔(29اپریل 2015جدہ، سعودی عرب)

 
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1437965 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More