الم ناک سانحہ
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, Karachi)
موضوع ذرا پرانا ہے ۔ مگر ایسا
ہے کہ اغماض برتنے کو جی نہیں چاہتا ۔ یہ موضوع دیگر موضوعات سے زیادہ اہم
بھی نہیں ہے۔کیوں کہ موضوع جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے ، اہمیت کھوتا جاتا ہے
۔ مگر پھر بھی لکھنے کو جی چاہ رہا ہے ۔ پیر سے لے کر ہفتے تک ذہن میں بہت
سے موضوعات کلبلاتے رہے ۔ میرے سامنے یمن کا مو ضوع تھا ۔ عرب امارات کے
وزیر کی طرف سے پاکستان کے خلاف بیان بازی اور پھر اس پر ہمارے وزیر ِ
داخلہ کے سخت رد َ عمل کا موضوع تھا ۔ سعودی عرب کے وزیر ِ مذہبی امور
ڈاکٹر عبد العزیز بن عبد اللہ العمار کی مثبت باتوں کا موضوع تھا ۔ جنھوں
نے نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں بہترین انداز سے یمن کی کشیدگی کے ضمن میں
سعودی عرب کے موقف کا اظہار کیا ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں کسی مثبت موضوع
پر طبع آزمائی کروں ۔ سعودی عرب کے وزیر ِ مذہبی امور نے جس طرح مثبت انداز
میں اپنے موقف کا اظہار کیا ، اس سے اچھا کوئی مثبت موضوع تھا ہی نہیں ۔
مگر پھر امید پر نا امیدی غالب آگئی ۔ جب معلوم ہوا کہ میرے بلوچستان میں
20 مزدوروں کو ، محض اس ضرم کی بنا پر کہ وہ بلوچ نہیں تھے،قتل کر دیا گیا
۔ آگ جب اپنے گھر میں لگی ہو تو اس کی زیادہ فکر کرنی چاہیے ۔کیا یمن ، کیا
عراق ، کیا شام ۔ یہ الم ناک واقعہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب وقوع پزیر
ہوا ۔ جب سوراب ڈیم پل تعمیر کرنے والی کمپنی کے 20 مزدوروں کو فائرنگ کر
کے شہید کر دیا گیا ۔یہ واقعہ بلوچستان کے علاقے تربت میں پیش آیا ۔شہید
ہونے والوں میں سے 13مزدوروں کا تعلق پنجاب کے علاقے صادق آباد سے تھا ۔ 7
مزدوروں کا تعلق سندھ سے تھا ۔وہ 50 مسلح افراد تھے ۔جو جمعے کی شب ایک بج
کر 40 منٹ پر سوتے ہوئے مزدوروں کے کیمپوں میں داخل ہوئے اور اندھا دھند
فائرنگ کر کے انھیں لہو لہو کر دیا ۔یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ ان
مزدوروں کی حفاظت کے لیے لیویز فورسز کے اہل کار تعینا ت تھے ۔ مگر جب
انھوں نے 50 مسلح افراد کو دیکھا تو وہاں سے چلتے بنے ۔ یوں نگہبانوں کی
نگہبانی کچھ کام نہ آئی ۔ قافلہ لٹتا گیا ۔اور لٹتا چلا گیا ۔
نہ جانے میرا ملک کب تک فرقہ واریت اور قومیت کے نام پر ہونے والے قتل کے
گھاؤ سہتا رہے گا۔ بلوچستان بھی فاٹا اور شہر ِ قائد کی طرح حرماں نصیب ہے
۔ فاٹا اور شہر ِ قائد ہی کیا ۔ یہاں تو ہر سو آگ لگی ہوئی ہے ۔ہر طرف
معصوم انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے ۔کہیں فرقے کے نام پر قتل کیا جا رہا
ہے تو کہیں قومیت کے نام پر ۔پے در پے دو جمعوں کو پشاور اور شکار پور کے
امام باڑوں میں انسانوں کا قتلِ عام اگر فرقہ واریت کے نام پر ہونے والے
قتل کی مثالیں ہیں تو 20 مزدوروں کے قتل کا حالیہ سانحہ قومیت کے نام ہونے
والے قتل کی تازہ ترین مثال ہے ۔بلوچستان میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔اس
سے قبل بھی گذشتہ اکتوبر میں بلوچستان کے علاقے ساکران سے 8 مزدوروں کو
اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا تھا ۔
حریت اور آزاد پسندی کا یہ مطلب نہیں کہ بے ضرر اور غریب لوگوں کا لہو
بہایا جائے ۔ آخر ان بے چاروں کا قصور کیا تھا ؟ بس یہی کہ وہ اپنے گھروں
سے کوسوں دور حصول رزق کی تلاش میں ادھر آگئے تھے ۔ یہ کوئی اتنا بڑا جرم
تو نہیں تھا ، جس کی انھیں سزا دی گئی ۔زمین اور مزدور کا رشتہ بہت پرانا
بھی ہے اور بہت مضبوط بھی ۔ مزدور کا یہ حق ہے کہ وہ زمین کے کسی بھی گوشے
سے اپنے رزق کے حصول کا سامان کرے ۔ یہ بے ضرر لوگ تھے ۔ یہ مزدور پیشہ تھے
۔ اگر ان کا کوئی قصور ہوتا تو بات سمجھ آتی ۔یہ سیاست کے ابتدائی حروف سے
بھی نا بلد تھے ۔ یہ سب لوگ عصبیت کے بھینٹ چڑھ گئے ۔ اور عصبیت اندھی ہوتی
ہے ۔عصبیت کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ عصبیت انسانیت کے درد سے نا آشنا ہو
تی ہے ۔ جن لوگوں نے یہ کا م کیا ، وہ دنیا کو کیا باور کراناچاہتے ہیں ۔
یہی کہ ہم عدم برداشت کے سخت شکار ہیں ۔ہمارے دلوں میں ان مزدوروں کے لیے
کوئی جگہ نہیں ہے ، جو ہماری زبان نہیں بولتے ۔ اگر چہ ان کا کوئی قصور بھی
نہ ہو ۔جن لوگوں نے یہ خطرناک کھیل کھیلا ، انھیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی
چاہیے کہ ہر عمل کا رد ِ عمل ہوتا ہے ۔ جس طرح یہ لوگ اپنے صوبے میں دیگر
زبانوں کے لوگوں کو برداشت نہیں کرتے ، اسی طرح اگر دیگر صوبوں میں بھی یہی
فعل ِ قبیح شروع ہوجائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ۔ یقینا وہی لوگ ، جنھوں
نے اس فعل ِ قبیح کی خشت ِ اول رکھی ہوگی ۔ پاکستان کے ہر صوبے میں ہمارے
بلوچ بھائی رہتے ہیں ۔ پنجاب کی یو نی ورسٹیوں میں ہمارے بلوچ طالب علم
بھائی تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ جس طرح دیگر صوبوں کے مزدور بلوچستان میں
حصول ِ رزق کے لیے آتے ہیں ، اسی طرح بلوچستان سے بھی بہت سے مزدور حصول ِ
رزق کے لیے دیگر صوبوں کا رخ کرتے ہیں ۔ خدا نہ خواستہ عمل کا رد ِ عمل
شروع ہو جائے تو پورا ملک ہی بدترین عصبیت کا شکار ہوجائے گا ۔
بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ بلوچستان میں طاقت کے استعمال سے زیادہ ان
لوگوں کی نفسیات سمجھنے کی ضرورت ہے ، جنھوں نے اپنے لوگوں سے ہی بغاوت کر
دی ۔ ان محرکات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ، جس سے قومیت کی وبا پھوٹی اور
اس وقت تقریبا پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔یہ قومیت کس حد
تک خطرناک ہو چکی ہے ، اس کا اندازہ صرف 20 مزدوروں کے قتل کے حالیہ سانحے
سے لگایا جا سکتا ہے ۔احساس ِ محرومی سے قومیت جنم لیتی ہے ۔ غیر جانب دار
ہو کر دیکھیں تو ہم سارا دوش بلو چستان کے ان چند سر پھرے لوگوں پر نہیں
ڈال سکتے ، جو اس وقت پاکستان کی دیگر قوموں کے لیے خطرے کی علامت بن چکے
ہیں ۔یقینااس میں ان لوگوں کا بھی قصور ہے ، جنھوں نے باشندگان ِ بلوچستان
کواپنے افعال سے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ واقعی محروم ہیں ۔ ان کا
کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ اگر بلوچستان کے ان لوگوں کی جائز شکایات ہیں تو ان
کا ازالہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ورنہ یہ احساس ِ محرومی نہ جانے کیاکیا گل
کھلائے گی۔
a |
|