بھارتی جمہوریت کا مکروہ چہرہ اور اچھوت

ہندودھرم کے مطابق گنگامیں اشنان کرنے سے ہندوہرقسم کے قبیح گناہوں سے پاک ہوجاتاہے لیکن خودگنگامیں اتنی غلاظت جمع ہوچکی ہے کہ موجودہ حکومت کیلئے اس کی صفائی ایک دردِسر بن گئی ہے۔ہندومذہب میں چاربنیادی ذاتیں ہیں۔

١۔برہمن(پنڈت پجاری وغیرہ)٢۔ کھشتری (سپاہی یاجنگجو)٣۔وشنو (کاروباری، کاریگر اور دستکار وغیرہ)٤۔ شودر(خدمت گار،کسان وغیرہ)لیکن اس سارے نظام میں بے ذات کے لوگ یعنی اچھوت بھی اس معاشرتی نظام کاحصہ ہیں اورسب سے کمتریعنی کمترین درجے کے انسان ہیں اس لیے انہیں بھارت کے مظلوم طبقے سے وابستہ قراردیاجاتاہے۔بھارت میں اس وقت ان کی تعداد ١٨سے ٢٠کروڑہے اورقریباًاتنی ہی تعدادمیں بھارتی مسلمان بھی بھارت میں ذلت ونکبت کی زندگی گزار رہے ہیں۔یعنی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کانعرہ لگانے والے ملک میں ٤٠ کروڑ سے زائد انسانوں کوانسان ہی نہیں سمجھاجاتا۔

ہندواچھوت گندگی اٹھانے والے جانوروں کی کھالیں صاف کرنے،جھاڑودینے،مردہ جانوروں کوٹھکانے لگانے،مردہ انسانوں کوجلانے، چوہے اوردوسرے غلیظ جانوروں کو مارنے اورموچی وغیرہ کاکام کرسکتے ہیں۔ان کی بستیاں،مندراور اسکول غرض یہ کہ ان کی ہرشئے ہندودھرم کی چاربنیادی ذاتوں سے علیحدہ ہے ۔یہ ہندوہوتے ہوئے بھی بقیہ ہندو معاشرے سے کٹ پھٹ کرعلیحدہ ہوکررہنے پرمجبورہیں کیونکہ یہ گھٹیالوگ ہیں اوران کے ساتھ میل ملاپ سے ہندو مذہب کے بقیہ پیروکارناپاک ہوجاتے ہیں۔ایسی صورتحال میں ان اچھوتوں کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں اوربعض صورتوں میں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیاجاتا اوران کی عورتوں کی آبروریزی کرناتو بھارت میں ایک معمول ہے۔

پولیس اچھوتوں کے متعلق جرائم کی ایف آئی آردرج کرنے سے اجتناب کرتی ہے اوراگربہ امرمجبوری ایساکرناپڑجائے توملزم اکثرصورتوں میں بری ہوجاتے ہیں۔ برطانوی دورِ حکومت میں انہیں’’اَن ٹچ ایبل‘‘کانام دیاگیاجس کاہندی اور اردو میں مترادف اچھوت سمجھا جاتاہے۔بعدمیں گاندھی نے ان کو ہریجن(خداکے بچے)کانام دیا لیکن بھارت کی آزادی کے بعد ان کی فلاح کے لیے کام کرنے اداروں نے انہیں ''دلت''یعنی مظلوم اورکچلے ہوئے لوگ قراردیا۔بھارتی تاریخ کے مطابق قریباً٧٠٠ قبل مسیح میں اس خطے میں ذات پات پرمبنی نظام کی بنیادرکھی گئی جس کے مطابق ذات پات کاتعین پیدائش سے کیاجاتاہے نہ کہ نسل سے۔ہندومذہب کے مطابق ایک انسان کی زندگی میں اس کی حیثیت اس کے ماضی کی اچھائیوں یا برائیوں سے بندھی ہوتی ہے۔اچھے کاموں کے نتیجے میں وہ آئندہ زندگی میں اچھے گھرانے میں جنم لیتاہے اوربرے کاموں کے نتیجے میں برے گھرانے میں جنم لیتا ہے ۔ اس کی ذات پات ہی کی بنیادپرایک ہندو مردیا عورت کی شادی،بیاہ،دوستی ،رہائش، نوکری اوریوں ساری زندگی کاتعین ہوتاہے۔

آج کے دورمیں پاکستان میں کمی کمین یاچوڑے چمار ایسے الفاظ استعمال نہیں ہورہے۔ بھارت میں نیچ ذات یااچھوت کے لیے جونفرت و بیزاری ظاہرکی جاتی رہی وہ ہمارے ہاں کمین ،چوڑے چماروغیرہ ایسے الفاظ سے مدعاکاکام دیتی رہی مگر چونکہ پاکستان میں ٩٧فیصد آبادی مسلمانوں پرمشتمل ہے اور اسلام میں محمودوایازکوایک ہی صف میں کھڑا ہونے کا شرف غیرمبہم اندازمیں دیاجاتا ہے توچوڑے چمار ایسی ارذل اصلاحات اپنی موت آپ مرچکی ہیں۔بھارت میں ہندواکثریت میں ہیں جوذات پات اورچھوت چھات پرمبنی معاشرتی نظام کی وجہ سے چوڑے چمارسے نجات حاصل نہیں کرسکے اورہندو کاتعصب تواس شرمناک امتیازکوختم کرنے کی بجائے اسے بڑھاوادیتاہے،اوپرسے نریندرمودی جیسے سیاسی چوڑے اقتدارپرہی آبراجمان ہوتے ہیںتودنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کی دنیامیں مزید بھیانک تصویر پیش کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔

سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے اچھوتوں کے ساتھ بھارت میں نارواسلوک کی بنیادپرکہاتھاکہ اچھوتوں کے ساتھ بھارت میں یہ سلوک دراصل چھپاہوا امتیازی سلوک ہے۔من موہن سنگھ کایہ بھی کہناتھاکہ بھارت کے ماتھے پرکلنک کایہ ٹیکابدنی دھبہ ہے جسے دور کرنا ازحدضروری ہے،من موہن سنگھ نے یہ بھی تسلیم کیاکہ آئینی اورقانونی تحفظ کے باوجود اچھوتوں کی اکثریت ذلت ورسوائی کی زندگی بسر کررہی ہے۔ اگرچہ بھارت میں ١٩٥٥ء میں سول رائٹ ایکٹ اور١٩٨٩ء میں ''شیڈول کاسٹس اینڈٹرائبل ایکٹ''کے نام سے قانون پاس کیے گئے لیکن اچھوتوں کوان قوانین سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا کیونکہ بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت ہے لہنداوہ مذہبی طورپراچھوتوں سے امتیازی سلوک روا رکھنااپنی مذہبی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل ١٤میں نوکری اورتعلیم میں مساوات کا اصول اپنایاگیاہے اورعدم مساوات کی ممانعت ہے لیکن بھارتی آئین میں ذات پات کے بغیرمعاشرے کااصول نہیں اپنایاگیا ۔ کوئی ایساقانون نہیں بنایاگیاجس سے’’ان ٹچ ایبل‘‘یعنی اشھت پن کوختم کرنامقصود ہو ۔’’اَن ٹچ ایبل‘‘کا عمل یااظہارایک قابل سزاجرم ہے لیکن اسے شاذوناذرہی استعمال میں لایاجاتاہے۔ ہندومت میں یہ راسخ عقیدہ ہے کہ جولوگ مردوں کوصاف کرنے،نہلانے اورجلانے وغیرہ کے کاموں میں عملی طورپر حصہ لیتے ہیںان کی روحیں گھٹیاروحوں میں بدل جاتی ہیں، اسی لیے ان لوگوں کاعام لوگوں کے ساتھ مل جل کررہناعام انسانوں کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔اسی بناء پریہ دلت یا اچھوتوں کوعام انسانوں سے علیحدہ رکھتے ہیں تاکہ انسانی معاشرہ ان ''غلیظ ''لوگوں کی وجہ سے تباہ وبربادنہ ہوجائے۔ان کایہ بھی عقیدہ ہے کہ اچھوت اپنی سابقہ زندگی میں اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اچھوت گھرانے میں پیداہوتے ہیں لیکن اگرایک اچھوت پوری ذمہ داری سے اپنامعاشرتی کردارنبھاتاہے اور معاشرے سے کٹ کر رہتے ہوئے اپناکام پوری ایمانداری سے کرتاہے تو بھگوان اس سے خوش ہوکراگلے جنم میں اسے کسی اچھے خاندان میں پیدا کر سکتاہے۔ہندومت کے آواگون اصول کے مطابق ایک انسان چوراسی لاکھ جنم لیتاہے،اس لیے اچھوتوں سے کہاجاتاہے کہ ان کے اچھے کاموں سے خوش ہوکربھگوان انہیں اچھی زندگی ضروردے گا۔

یہ اچھوت بھارت،سری لنکا،نیپال اورکسی حدتک بنگلہ دیش میں بھی پائے جاتے ہیں،اگرچہ پاکستان میں بھی غریب عیسائی ''جمعدرا''پائے جاتے ہیں لیکن ان کے خلاف ہندو مت جیسی نفرت نہیں ہے بلکہ انہیں معاشرے کااہم جزوتسلیم کیاگیاہے ۔یہ اپنامذہب بھی تبدیل کرنے میں مکمل طورپرآزادہیں۔پاکستان میں جوبھی حکومت آج تک برسراقتدار آئی ، دوسری اقلیتوں کی طرح مسیحی برادری نے بھی ہمیشہ اطمینان کا اظہارکیا اور اکژیتی آبادی سے یاحکمرانوں سے انہیں کسی قسم کے شکوے شکایت نہیں رہے۔مسیحی برادری کو پاکستان میں عزت حاصل ہے۔یوحناآبادکارہنے والا نامورپاکستانی کرکٹرمحمدیوسف مذہبی رواداری اور یکساں سلوک کی شاندارمثال ہے۔مذہب قبول کرنے کی آزادی کے حوالے سے بھی اسے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان کوبطورمثال پیش کیا جا سکتاہے۔یہ باتیں جملہ معترضہ کے طور پرنوکِ زباں پرآ گئیں، عرض کرنایہ مقصودتھا کہ پاکستان میں ذات پات ،چھوت چھات کے امتیازات ختم ہوچکے ہیں مگربھارت میں ذات پات کا حصار توڑنا فی الحال ناممکن نظرآتا ہے۔

برطانوی حکومت نے اچھوتوں کے بھلے کے لیے کچھ کام کیے لیکن ہندواکثریت کے سامنے بے بس تھے۔انہوں نے اچھوتوں کے کسی حد تک ذات پات کے سسٹم کوتوڑنے کی کوشش کی لیکن اس میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔اس لیے عیسائی مشینری اسکولزنے ان اچھوتوں کومذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دی جس کے نتیجے میں بہت سے اچھوت عیسائی ہوگئے لیکن برطانوی حکومت بھی ان کے پیشہ وارانہ کاموں میں تبدیلی نہ لاسکی،یعنی یہ لوگ پہلے والے غلیط کام ہی کرتے رہے اس لیے پاکستان بننے کے بعدبھی پاکستان میں عیسائیوں کو غلیظ کام کرنے والا سمجھا جاتارہاہے جبکہ آج کل بھی اس حوالے سے یہ روایت کافی حد تک جاری ہے کیوں کہ یہ عیسائی بنیادی طورپراچھوت لوگ تھے اس لیے بعدمیں عیسائی کہلانے لگے اس طرح پاکستان میں چوہڑے چمارکی اصطلاح ''عیسائی''میں بدل گئی مگریہ روایت کسی مسلمان،ہندو،سکھ یاعیسائی حتیٰ کہ پاکستان کی سوسائٹی کے کسی بھی مذہبی گروہ کی پیداوار نہیں۔یہاں تمام مذاہب کے پیروکارعیسائی بھائی کوبرابری کاشہری تسلیم کرتے ہیں جو باصلاحیت ہواسے عزت دیتے ہیں۔پاکستان میں توجسٹس اے آرکارنیلئس جیسی شخصیت فاضل عدالت کے سربراہ کے طورپرفائزرہی جن کے بارے میں بجاطورپرکہاجاتاہے کہ وہ عیسائی ہونے کے باوجود کسی بھی مسلمان سے زیادہ اسلام کا نظام عدل نافذکرنے کے حامی تھے۔

بھارتی آئین میں اچھوتوں کوشیڈولڈکاسٹ تسلیم کیاگیاہے جس میں ظاہرہے کہ دوسری ذاتیں بھی شامل ہیں۔اس لیے انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیومن رائٹس واچ، منسٹر فارہیومن رائٹس اورگلوبل جسٹس نے بھارتی آئین میں اچھوتوں کودیے گئے حقوق کوناکافی قراردیا ۔ ان تنظیموں کاکہناہے کہ اچھوت اس قدرپسے ہوئے لوگ ہیں کہ بھارتی آئین اورقانون میں خصوصی اقدامات کے نتیجے میں ہی ا نہیں اس ذلت ورسوائی کی دلدل سے نکالاجاسکتاہے۔ان تنظیموں کایہ بھی کہنا ہے کہ بھارت ایک منظم طریقے سے اچھوتوں کوان کے بین الاقوامی طورپرمسلمہ حقوق سے محروم رکھ رہاہے۔دوسری طرف انسانی حقوق کی علمبردار بین الاقوامی طاقتوں کواپنے کاروبار اورعلاقائی مفادات اس قدرعزیزہیں کہ وہ انسانیت کے نام پر اس بدنمادھبے کومٹانے کیلئے بھارت پرنہ توتجارتی پابندیاں لگانے کوتیارہیں اورنہ ہی کوئی دوسراانسانی،اخلاقی یاقانونی دباؤ ڈالنے کی ضرورت محسوس کرتی ہیں۔تجارتی پابندیوں کے اصل حقداران کے نزدیک محض مسلم ممالک ہیں جو دنیا کے پرامن ترین لوگ ہونے کے باوجود دہشتگردی کے نام پر دنیامیں بدنام کیے جارہے ہیں۔

یہاں اس بات کاذکر بے محل نہ ہوگاکہ یورپی یونین نے ایک قراردادکے ذریعے یہ بھارت کویہ باورکرایاہے کہ بھارت میں اچھوتوں کی حاکت ناگفتہ بہ ہے۔تعلیم ، ملازمت اور دیگر معاملات میں ان کے ساتھ شرمناک حدتک امتیازی سلوک کیا جارہاہے ۔بھارتی حکومت کو انتباہ کیاہے کہ بھارت میں ذات اوربرادری کی بنیادپرامتیازی سلوک ختم کیا جائے ، یہ ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کامکروہ چہرہ۔گورنمنٹ آف انڈیا کی رپورٹ برائے ٢٠٠٧ء میں کہاگیاکہ بھارت کی ٧٧فیصد آبادی آدھے ڈالرسے بھی کم رقم پرزندگی گزاررہی ہے جس میں اکثریت اچھوتوں کی ہے۔امریکی جریدے ''فوربس انڈیا''کے تازہ شمارے میں ایک سروے شائع کیاگیاہے جس کے مطابق بھارت کے ١٠٠/امیر ترین شہریوں کی فہرست میں پہلی باراب کوئی بھی ایساشہری شامل نہیں جوارب پتی نہ ہو۔اسی جریدے نے پانچ سال پہلے کے ایک سروے میں ارب پتی بھارتیوں کی تعداد ٥٢ شائع کی تھی جواب ١٠٠تک پہنچ چکی ہے۔یہ ١٠٠/ ارب پتی بھارتی٣٦٤/ارب ڈالرکے مالک ہیں۔اچھوت تورہ گئے ایک طرف کہ ان کی اب تک کوئی آوازہی نہیں،یہ حقائق جان کربھارت کاعام آدمی سب سے بڑی جمہوریت پرلعنت بھیجنے پرمجبور ہوا تونئی دہلی کے انتخابات کے نتائج آپ نے دیکھ لیے۔ ہرمہذب ومتمدن ملک اورقوم ،بھارت پرتین حرف ہی بھیج رہی ہے ماسوائے امریکی استعمار کے کہ جوشریف انسانوں اورمہذب اقوام کے نزدیک بھارت سے بھی بڑی استعماری قوت ہے۔
 
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390220 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.