کاش مین آپ کی بات مان لیتا کاش

استاد اپنے مخصوص انداز میں کلاس میں داخل ہوئے،ایک اچٹتی نگاہ سے کلاس میں موجود تمام طلباء کا جائزہ لینے کے بعد اپنی نشست پہ متمکن ہوئے،کلاس کے نگران طالب علم نے حاضری کا رجسٹر استاد کے ڈیکس پہ رکھ دیا،استاد نے غصے سے رجسٹر بند کردیا ،ان کے پرنورچہرے پہ غصہ کے آثار کسی آفت ناگہانی کا خبر دے رہے تهے،اتنے نرم مزاج استاد کا رویہ آج خلاف معمول تها,طلباء استفہامیہ نظروں سے ایک دوسرے کامنہ تکنے لگے،ہر کوئی اپنے کسی سابقہ گناہ کو استاد کے غصے کا سبب قرار دے کر انجام کے لیے تیار بیٹها تها،اچانک موت نما خاموشی کے لیے استاد کی گرج دار آواز صور اسرافیل ثابت ہوگئی،استاد کی گرج سن کرہر کوئی اپنا اعمال نامہ ہاتھ میں تهامے خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کے لیے تیار ہوگیا,میں نے اندازہ لگایا کہ استاد کی نظروں کے تیر براہ راست ہماری صف پہ برس رہے تھے،میرا دماغ شش و پنج کی180 ڈگری پہ تھا اچانک استاد کی گرج دار آواز نے سوچ و فکر کے فاصلے سمیٹنے پہ مجبور کردیا،مجھے اور میرے برابر میں طالب علم کو کلاس سے نکلنے کا پروانہ تھما دیا گیا تھا اور ساتھ میں یہ حکم بھی جاری ہوا تھا کہ کل کلاس میں آنےسے پہلے اپنے سروں کو بالوں کے بوجھ سے آذاد کروانا مت بھولیے،سوء اتفاق کہ ہم دونوں کا تعلق ایک ہی علاقے سے تھا،اصل میں اس استاد کے پیریڈ میں بغیر دستار سر پہ سجائے بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی اور ہم دونوں سے یہ گناہ سرزد ہوچکا تھا,کلاس سے باہر نکلتے وقت تک استاد کا خوف سر پہ سوار رہا، مگر دروازہ عبور کرتے ہی ہم سوچوں کی ایک نئی دنیا میں پہنچ گئے،ر گوں میں ابتداء جوانی کا خون جوش مارنے لگا،نفس اور شیطان کی سازشوں نے کئی سبز باغ دکھائے،دل میں رہ رہ کے گھر اور گھر والوں کی یاد نے کچوکے لگانے شروع کردیے،ابتدائی مشورے میں ہم نے نفس پرستی کا سہارا لیتے ہوئے استاد کے فرمان سے سرتابی کا فیصلہ کر لیا اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ہم جامعہ کے کینٹین پہنچے،مستقبل کے حوالے سے پلان اے سے زیڈ تک کا ایک خاکہ تیار کرلیا،پلان اے میں مدرسہ چھوڑنے کے علاوہ نئے مدرسے کی تلاش کے علاوہ کچھ اور بھی چیزیں شامل تھیں، ناکامی کی صورت میں پھر بالترتیب پلان زیڈ تک کا اجمالی خاکہ تیار تھا..

پلان اے کی کامیابی کے لئے حکمت عملی عملی ترتیب دیتے ہوئے اچانک میری نظر کیںٹین کی اس کرسی پہ پڑی جہاں پہ بیٹھ کر میرے والد صاحب نے مجهے قیمتی نصیحتوں سے نوازا تها،اس کرسی پہ نظر پڑھتے ہی میرے تن بدن میں سرسراہٹ شروع ہوگئی،تین دن داخلے کے چکر میں میرے ساتھ خواری کاٹنے والے والد کی نصیحتیں میرے دماغ پہ ہتھوڑے کی طرح برسنے لگیں،اندر ہی اندر میں عرق ندامت میں ڈوبتا چلا گیا،مجھے یہ بھی یاد آیا کہ میرے والد صاحب رشتہ داروں کے درمیان میری مثالیں فخر سے بیان کیا کرتے تھے،میں ایک مصمم ارادے کے ساتھ اپنے دوست کی جانب مڑااور اسے دھرنا ختم اور استاد کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا فیصلہ سنایا اور اٹھ کے سیدھا مدرسے کے مین گیٹ سے ہوتے ہوئے فٹ پاتھ پہ موجود "نائی" کے آگے سر جھکاکے اس سے درخواست کی کہ سر پہ موجود بالوں پہ اس بے دردی سے استرا پهیر دے کہ دوبارہ اگنے کا نام ہی نہ لیں،سر کے بال گنوانے کے بعد اس دوست کے پاس واپس آیا تو مجھے دیکھ کر میرا مذاق اڑانے لگا،اوراس نے اپنا فیصلہ سنادیا کہ میں کسی بھی قیمت پہ اپنے بال نہیں منڈواوں گا،میں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر،ہفتہ بعد اگنے والے بالوں کو بچانے کی خاطر میرا دوست استاد کی ناراض گی مولتے ہوئےمدرسہ چھوڑ کے چلا گیا...

اگلے دن میں کلاس ،میں ایک مسخرے کی صورت میں دوستوں کے ذوق مزاح کی تسکین کے لیے دستاب،مگر میرا ضمیر مطمئن تھا،کیوں کہ میں نے ایک استاد کا حکم بجا لایا تھا،کسی کی طنز سے مجھے کچھ فرق نہیں پڑا،متعلقہ استاد کا پیریڈ جب شروع ہوا تو میں ان کا ردعمل دیکھنے کے لیے بے تاب تھا، استاد نے مجھے بلایا،مجھے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیااور دوسرے دوست کے بارے پوچھا تو میں نے بتادیا کہ وہ چلا گیا،،،یہ سن کر وہ بہت رنجیدہ ہوئے اور کہا کہ جا کر بلا کے لے آو اس کو بغیر سر منڈوائے بیٹھنے کی اجازت ہے،،،مگر وہ اپنے سامان سمیت بہت دور چلا گیا تھا...

اس دن کے بعد سب اس واقعے کو بھول گئے،مگر کچھ ذاتی مشاہدوں نے اس واقعے کو میرے دماغ میں تروتازہ رکھا،سیکنڈ منٹوں میں بدل گئے،منٹوں نے گھنٹوں کی شکل اختیار کی،گھنٹے دن بن گئےِ، دن ہفتوں میں ڈھل گئے ،ہفتوں سے مہینے اور مہینوں سے سال بن کے گزرتے گئے،اس واقعے کے ٹھیک 12سال بعد میں اپنےشہر کے ایک بازار میں گھومتے پھرتے ٹھکاوٹ سے چور ہوکر چائے پینے کے لیے ایک ہوٹل میں ہنچا،آرڈر دینے کے بعد میں اپنے موبائل میں کھوگیا،تھوڑی دیر بعد بوسیدہ سی آستینوں والا ایک ہاتھ چائے کی پیالی کے ساتھ میرے سامنے نمودار ہواتو میں نظر اٹھا کے اس کی جانب دیکھنے لگا،اس کی جانب دیکھتے ہی میرا ہاتھ جہاں پہ تھا وہی رک گیا،میرے ہوش و حواس مختل ہوگئے،میں حیرت کا بت بنے اس کی طرف دیکھتا رہااور میں 12 سال پیشتر مدرسے کی کینٹین میں پہنچا جہاں پر ہم اپنے پلان پہ کام کررہے تھے، میں تو پلان اے میں ہی سنبھل گیا تھا مگر میرادوست شاید پلان زیڈ کی ناکامی کی وجہ سے میلے کچیلے کپڑوں میں میرے سامنے داسستان عبرت بن کے کھڑا تھا،چند ثانیےتک ہم ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے،اچانک اس نے میرا نام لیا اور حسرت کے آنسو بہاتے ہوئے مجھ سے لپٹ گیا،اور اس کی زبان پہ بس ایک جملہ تھا،
کاش میں آپ کی بات مان لیتا......کاش......کاش.....کاش............
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 50579 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More