چینی صدر کا دورہ پاکستان ....اقتصادی ترقی کا اہم سنگ میل

پاک چین تعلقات گزشتہ کئی عشروں سے دنیا بھر میں مثالی نوعیت اختیار کر چکے ہیں۔ دونوں ملکوں کی دوستی کو نہ تو بدلتے ہوئے موسم متاثر کر سکے اور نہ ہی داخلی، علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں اس مثالی دوستی پر اثر انداز ہو سکی ہیں۔ چین کے سابق صدر ”ہوجن تاﺅ“ نے چند برس قبل اپنے دورہ اسلام آباد کے دوران کہا تھا: ”پاک چین دوستی نہ صرف سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند ہے، بلکہ یہ شہد سے زیادہ مٹھاس پر مبنی ہے“۔ جبکہ 2013ءمیں اپنے دورہ پاکستان کے دوران اس مثالی دوستی کا تذکرہ کرتے ہوئے چینی وزیر اعظم نے پاکستانی دوستی کو سونے سے زیادہ قیمتی اثاثہ قرار دیا تھا۔ چین اور پاکستان دیرینہ دوست ہیں۔ چین ہر شعبے میں معاونت کرکے پاک چین دوستی کا عملی مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔ 20اپریل کو چینی صدر شی جن پنگ پاکستان کے دورے پر آئے، جنہیں شاندار پروٹوکول دیا گیا۔ چینی صدر چینی صدر شی جن پنگ کے حالیہ دو روزہ دورے میں پاکستان کے ساتھ اربوں ڈالر کے کیے گئے معاہدے اس دوستی کی بہترین مثال ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان اور چین نے 51 دستاویزات، معاہدوں اور مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔ اسی موقع پر دونوں ملکوں نے آئندہ تین سال میں اپنے تجارتی حجم کو 15 ارب ڈالر سے بڑھا کر 20 ارب ڈالر تک لے جانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ان دستاویزات، مفاہمتی یاداشتوں اور معاہدوں میں پاک چائنا راہ داری کے منصوبے کے تحت توانائی، بنیادی ڈھانچے، مواصلات جیسے شعبوں میں اہم ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔ پیر کو جن منصوبوں کی افتتاحی تختیوں کی نقاب کشائی کی گئی ان میں لاہور میں چین کے انڈسٹریل اور کمرشل بینک کی ایک شاخ ، بہاولپور کے قائداعظم سولر پارک کے لیے 100 میگا واٹ کا شمسی پاور پلانٹ، ریڈیو پاکستان اور چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کے اشتراک سے ایف ایم 98 دوستی چینل، پاکستان میں چینی ثقافتی مرکز، اسلام آباد میں ایک چھوٹے ہائیڈروپاور پراجیکٹ کا ریسرچ سینٹر، پاک چین کراس باڈر آپٹیکل فائبر کیبل سسٹم پراجیکٹ، لاہور میں اورنج لائن میٹرو ریل ٹرانزٹ سسٹم شامل ہیں۔ دونوں ملکوں کے سربراہان نے مل کر پانچ معاہدوں کا سنگ بنیاد رکھا، جن میں کروٹ میں 720 میگا واٹ کا پن بجلی منصوبہ، داؤد اور سچل میں 50، 50 میگا واٹ، جبکہ جھمپر میں 100 میگا واٹ کا ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ اور زونرگی میں شمسی توانائی کا 900 میگا واٹ کا پراجیکٹ شامل ہیں۔ دونوں ملکوں نے ہر قسم کے حالات میں اسٹریٹیجک تعاون پر مبنی شراکت داری قائم رکھنے، معاشی اور تکنیکی شعبوں میں تعاون کرنے کے معاہدے کیے۔ پاکستان اور چین نے ”ڈیجیٹل ٹیریسٹریل ملٹی میڈیا برڈکاسٹ“ کے لیے نمائشی منصوبے کے لیے پیشگی مطالعہ کرنے اور انسدادِ منشیات کے لیے سازوسان کی ایک دوسرے کے ہاں منتقلی پر بھی معاہد ہوا ہے۔ جبکہ دونوں جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ضروری آلات کی فراہمی پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان گوادر ہسپتال بنانے کے لیے فیزیبیلٹی سٹڈی کرنے کے منصوبے پر بھی بات ہوئی ہے۔ چین کی وزارتِ کامرس نے پاکستان کی وزارتِ خزانہ کو قراقرم ہائی وے کی مزید بہتری کے لیے رعایتی قرضے دے گی۔ اس کے علاوہ کراچی سے لاہور تک موٹر وے کے لیے رعایتی قرض فراہم کرنے کی یاداشت پر دستخط ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک ایسی مفاہمتی یاداشت پر بھی دستخط ہوئے ہیں، جس کے تحت گوادر کی بندرگاہ کے مشرق میں ایکسپریس وے بنانے کے لیے چین آسان نرخ پر قرض دے گا۔ علاوہ ازیں گوادر میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قیام کے لیے بھی دوست ملک نے پاکستان کو آسان شرائط پر قرض فراہم کرنے کی یاداشت پر دستخط کیے ہیں۔ دونوں ملکوں نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے آلات کی فراہمی کے سمجھوتے پر بھی دستخط کیے۔ چین کےنیشنل ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن اور پاکستان کی وزارت برائے منصوبہ بندی و ترقی کے درمیان تعاون کی یاداشت، گوادر سے نواب شاہ تک مائع گیس پہنچانے کے فریم ورک اور لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین پربجیکٹ بنانے میں مدد اور اس سلسلے میں کمرشل معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ صوبہ سندھ میں تھر کے علاقے میں کوئلے کے ذریعے بجلی کے حصول کے منصوبے میں تعاون کا معاہدہ طے پایا، جبکہ دونوں جانب پنجاب میں شمسی توانائی کے 900 میگاواٹ سولر پراجیکٹ کے بنیادی نکات طے پائے۔ پاکستان کی نمل یونیورسٹی اور چین کی زنجیانگ یونیورسٹی کے درمیان تعلیمی شعبے این آئی سی ای کے قیام کا منصوبہ طے پایا، اس کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے لیے دونوں یونیورسٹیوں کے حوالے سے ایک مفاہمتی یاداشت پر بھی دستخط ہوئے۔چین کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں میں پاک چائنہ اقصادی کوریڈور منصوبہ بہت اہم ہے، جس کے تحت پاکستان میں جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں گہرے سمندری پانیوں والی گوادر کی بندرگاہ کو چین کے خود مختار مغربی علاقے سنکیانگ سے جوڑا جائے گا۔ تین ہزار کلومیٹر طویل اس منصوبے کے تحت مستقبل میں گوادر اور سنکیانگ کے درمیان نئی شاہراہوں اور ریل رابطوں کی تعمیر کے علاوہ گیس اور تیل کی پائپ لائنیں بھی بچھائی جائیں گی۔ ابتدا میں اس منصوبے پر اٹھنے والی لاگت کا تخمینہ 46 بلین ڈالر کے برابر لگایا گیا ہے اور یہ پروجیکٹ کئی مرحلوں میں 2030ءتک مکمل ہو گا۔

چینی صدر کے دورے کے دوران کیے گئے تمام معاہدوں کو ملک کے تمام سیاسی، سماجی اور اقتصادی حلقوں کی جانب سے ملک کی معیشت اور ترقی کے لیے خوش آیند قرار دیا جارہا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات اسٹریٹجک شراکت داری سے اسٹریٹجک اور اقتصادی شراکت داری میں تبدیل ہو رہے ہیں، جس سے ملک میں خوشحالی آئے گی۔ چین کے تعاون سے سب سے پہلے تھر میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے شروع کیے جائیں گے، جن سے 6600 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی، جو ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے میں بڑی حد تک مددگا ثابت ہو گی، جبکہ چین پن بجلی، شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے مختلف منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کرے گا۔چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں گوادر کی بندرگاہ کو بہتر بنایا جائے گا، جبکہ تیسرے مرحلے میں ریلوے لائنز، شاہراہیں اور ایکسپریس ویز تعمیر کی جائیں گی۔ منصوبے کے چوتھے مرحلے میں صنعتی تعاون میں اضافہ ہوگا، جس کے تحت ملک میں خصوصی اقتصادی زون قائم کیے جائیں گے۔ چین میں پاکستانی سفیر خالد مسعود کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی منصوبہ اب ڈرائنگ بورڈ سے نکل کر عمل کی اسٹیج تک پہنچ چکا ہے۔ جبکہ ماہرین اقتصادیات نے چینی صدر کے دورہ پاکستان کو سراہاتے ہوئے کہا ہے کہ اس دورے کے پاکستانی معیشت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ دورہ پاکستان کو اقتصادی لحاظ سے گیم چینجر سمجھا جارہا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی صدر کا یہ دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے معاشی اور اقتصادی لحاظ سے پاکستان کے لیے بہت اہم ہےں۔ گوادر منصوبہ پاکستان کی حالت بدل سکتا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق حکومت کو سمجھوتوں پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنانا پڑے گا۔ اقتصادی راہداری کا معاہدہ خود چین کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اقتصادی میدان میں چینی صدر کے دورے کے اہم نتائج برآمد ہوں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے پاکستان کے لیے سنہری باب ہوں گے۔ جبکہ ملک کے صنعت کاروں اور تاجروں نے چینی صدر کے دورئہ پاکستان کو خوب سراہا ہے۔ صنعت کاروں اور تاجروں نے توقع ظاہر کی ہے کہ چین کے صدر کا دورئہ پاکستان معیشت کو مستحکم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرے گا اور چینی صدر کے دورئہ پاکستان کے موقع پر اربوں ڈالر کے معاہدوں سے پاکستان میں توانائی کا بحران حل ہوگا، صنعتوں کو وسعت ملے گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ توقع ہے کہ آئندہ چند برسوں میں باہمی تجارت کا حجم پندرہ ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔

اقتصادی تجزیہ کار گوادر پروجیکٹ اور توانائی کے حوالے سے کیے گئے معاہدوں کو خصوصی طور پر پاکستان کی معیشت کے لیے بہت بہتر قرار دے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چینی صدر کے دورہ پاکستان میں ہونے والے معاہدوں کے بعد چین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں سرفہرست آ گیا ہے۔وزارت تجارت کے ذرائع کے مطابق پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ملکی تاریخ میں کسی بھی ملک کی پاکستان میں سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے، جس سے ملک کی معاشی صورت حال میں نمایاں فرق پڑے گا۔ چین اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدوں میں توانائی منصوبوں کو فوقیت دی گئی ہے۔ وزیر اعظم 2018ءکے الیکشن سے قبل ملک سے توانائی بحران کا خاتمہ چاہتے ہیں، جس کے لیے وزیر اعظم کی ترجیح پاکستان اور چین کے درمیان معاہدوں کے ذریعے توانائی کے بحران کا حل ہے۔ 15 بلین ڈالر کی لاگت سے 10400 میگاواٹ بجلی کی پیداوار منصوبہ 2018 تک ہر صورت میں نیشنل گریڈ میں شامل کرنا وزیر اعظم کی ترجیح ہے۔ چینی صدر دورہ پاکستان کے دوران معاشی، ترقیاتی اور عسکری نوعیت کے مختلف معاہدوں پر کیے گئے دستخطوں سے پاکستان اور چین کے درمیان سرمایہ کاری کا مجموعی حجم 58 بلین ڈالر سے زاید ہوگیاہے۔ چین اور پاکستان دونوں اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں، چین نے پاکستان کی دفاعی ضروریات کو پورا کیا ہے۔ پاکستان چین کی مدد سے جہاں توانائی کا بحران حل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، وہاں پاکستان کے ایشیائی ٹائیگر بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کا امکان بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبہ کی تکمیل سے جہاں مغربی چین ترقی کی منازل تیزی سے طے کرے گا، وہاں پاکستان میں معاشی انقلاب آئے گا۔ حکومت پاکستان آئندہ انتخابات سے قبل معاشی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ چین کے صدر شی چن پنگ کے دورے کے دوران سب سے زیادہ معاہدے توانائی اور مواصلات کے شعبے سے متعلق ہیں۔ ان معاہدوں کو نہ صرف پاکستان، بلکہ امریکا سمیت تمام دنیا انتہائی اہمیت کا حامل قرار دے رہی ہے۔ پاکستان کے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ان معاہدوں سے پاکستان کی قسمت تبدیل ہو جائے گی۔ پاکستان اس وقت توانائی کے بحران سے دوچار ہے، جبکہ چین سے کیے گئے پانی، کوئلے اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے معاہدوں سے پاکستانی صنعت بہتر طریقے سے چل سکے گی اور پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ چین سے کیے گئے معاہدوں میں پانی، کوئلے سے پاکستان کے چاروں صوبوں میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شامل ہیں۔ دوسرا اہم شعبہ شاہراہوں کی تعمیر کا ہے، جس سے پاکستان کے تمام اہم شہروں کو گوادر پورٹ اور آپس میں ملایا جائے گا۔ جس میں سب سے اہم گوادر کو کوئٹہ، ڈیرا اسماعیل خان اور سندھ سے ملایا جائے گا۔ اسی طرح گلگت بلتستان اور پاکستان کے دوسرے علاقوں سے ملا کراس علاقے کی معدنیات سے استفادہ کیا جائے گا۔ ماہرین کے مطابق چینی صدر کے اس دورے کی سیاسی اہمیت اپنی جگہ، لیکن اس کے اثرات پاکستان، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کی ترقی پر بہت مثبت ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کو جہاں عوامی اور سیاسی سطح پر غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے، وہاں چینی صدر کا دورہ پاکستان عالمی میڈیا کی توجہ کا بھی مرکزبنا رہا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے چینی صدر کے دورہ پاکستان اور معاہدوں کو نئی سپر ہائی وے کا نام دیا، جبکہ امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدے کو گیم چینجر کہا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق چین کے صدر پاکستان کے انفراسٹرکچرکو اربوں ڈالز کی امداد فراہم کریں گے۔ اس کے علاوہ بھارتی میڈیا میں بھی چینی صدر کے دورے کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ این ڈی ٹی وی کا کہنا تھا کہ چینی صدر کا پاکستان کا دورہ دو بھائیوں کے درمیان ملاقات ہے۔ سی این این، آئی بی این نے کہا کہ چین گوادر بندرگاہ کی اہمیت جانتا ہے اور بہتر سہولیات کے حصول کے لیے چینی صدر کا دورہ پاکستان خطے کے لیے دور رس اقدامات کا حامل ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کا کہنا تھا کہ چینی صدر کے دورے میں تقریبا پچاس ارب ڈالرز کے معاہدے متوقع ہیں۔ دی ہندو، زی نیوز اور ٹائمزناﺅ نے بھی چینی صدر کے دورہ پاکستان کو سرفہرست رکھا ہے۔

واضح رہے کہ پاک چین دوستی کا سفر 1949ءمیں چین کی آزادی کو تسلیم کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ چین کی آزادی کے اوائل میں پاکستان نے تائیوان حکومت کو نہ مان کر چین کے ساتھ تعلقات کی بنیاد رکھی۔ 1956ءمیں چینی وزیرِاعظم ”چواین لائی“ نے پاکستان کا دورہ کیا، اس وقت حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ 1964ءمیں چینی وزیرِاعظم ”چواین لائی“ نے پاکستان کا دورہ کیا، یہ صدر ایوب خان کا دورِ حکومت تھا۔ 1984ءمیں چینی صدر ”لیوسوچی“ پاکستان کے دورے پرآئے، اس وقت جنرل ضیا الحق پاکستان پرحکمران تھے۔ 1989ءمیں چینی وزیراعظم ”لی پنگ“ نے بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں پاکستان کا دورہ کیا۔ 1991ءمیں چینی صدر ”ریان شنگ کون“ نے پاکستان کے ساتھ چینی تعلقات کوفروغ دیتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں پاکستان کا دورہ کیا۔ 1996ءمیں چینی صدر ”لیوسوچی“ پاک چین دوستی کے پودے کو مزید پروان چڑھانے کے لیے پاکستان تشریف لائے۔ 1996ءمیں چینی صدر ”جیانگ زی من“ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِحکومت میں پاکستان کے دورے پرتشریف لائے۔ 2001ءمیں چینی وزیراعظم ”زو رونگ جی“ نے جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کا دورہ کیا۔ 2006ءمیں چینی صدر ”ہوجنگ تاوﺅ“ نے پاکستان کا دورہ کیا۔ 2013ءمیں چینی وزیراعظم ”لی چی شیان“ نے صدر آصف علی زرداری کے دوراقتدار میں پاکستان کا دورہ کیا۔ 2015ءمیں چینی صدر ”لی جن پنگ“ وزیر اعظم نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں پاکستان تشریف لائے ہیں اور ان کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، کیونکہ 9 سال بعد کوئی چینی صدر پاکستان کے دورے پر آیا ہے۔ پاکستان اور چین جغرافیائی لحاظ سے پڑوسی ہونے کے ناطے ہی ایک دوسرے کے قریب نہیں ہیں، بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی ایک بے مثال دیرینہ تعلقات کا بہترین نمونہ ہے۔ پاکستان کی چین سے دوستی کی بنیادی وجہ آج سے 66 سال پہلے یکم اکتوبر 1949 کو طویل ترین خانہ جنگی کے چین کی آزادی ہے۔ پاکستان پوری مسلم دنیا کا پہلا ملک تھا ،جس نے سب سے پہلے عوامی جمہوری چین کو تسلیم کیا تھا، اس وقت سے چین اور پاکستان کے درمیان انتہائی دوستانہ تعلقات ہیں۔ پاک چین دوستی کو قوموں کی برداری میں ایک مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد چین مختلف مراحل سے گزرتا رہا اور ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ آج وہ معاشی طورپر دنیا کی بڑی طاقتوں کی صف میں شامل ہوچکا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 637074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.