لبیک حرمین شریفین ریلی

عوام ریلی میں شریک ہوکرغیرت ایمانی کاثبوت دیں

بروزسوموارجامعہ بنوریہ عالمیہ میں دفاع حرمین شریفین کے سلسلے میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقدکیاگیا ،جس میں یمن کی صورتحال کے حوالے سے سعودی عرب کی مدد نہ کرنے اور یمن کے حوالے سے غیر جانبدار رہنے کی پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد کو قومی امنگوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے بلاتاخیر عرب اتحاد کا حصہ بننے کی اپیل کی گئی اورباقاعدہ احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا،جس کا آغاز 24اپریل بروز جمعہ تمام جماعتوں اور مذہبی طبقے کی جانب گرو مندر سے تبت سینٹر تک احتجاجی ریلی کی صورت میںکیا جائے گا، اجلاس میں اہلسنت والجماعت کے مرکزی صدر علامہ اورنگزیب فاروقی ، جماعة الدعوة کراچی کے امیر ڈاکٹر مزمل ، جمعیت علماء اسلام (س)کے مولانا حماداللہ مدنی ، ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے مولانا قاری خلیل الرحمن ،امیر انجمن دعوت اہلسنت والجماعة پاکستان کے مفتی نجیب اللہ عمر ،تحریک غلبہ اسلام کے مولانا عبداللہ شاہ مظہرسمیت تقریباًشہرقائدکے تمام دیوبندواہل حدیث مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے مدارس کے نمایندگان شرکت کی اورحکومت اوراداروں پرواضح کردیاکہ پاکستانی عوام سعودی عرب کو اس مشکل وقت میں ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔ پاکستانی قوم غیرت مندقوم ہے اوراپنے دوست کومشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑسکتی ۔اس اجلاس میں بریلوی مکتبہ فکرکی کمی شدت سے محسوس کی گئی اوراس بات پرخوش گوارحیرت کابھی اظہارکیاگیاکہ مکہ مدینہ کے ناموں کی مالاجپنے اوراپنی دال روٹی چلانے والے اس کڑے وقت میں دوسرے بلاک کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں؟دعوت دینے کے باوجوداس مکتبہ فکرکے کسی راہ نماکی عدم شرکت ایک سوالیہ نشان چھوڑگئی کہ آخرخودکوکب تک سواداعظم سے الگ تھلگ رکھاجاتارہے گا؟پاک فوج یمن بھیجنے کی مخالفت کرنے والوںکی زبانیں آخرکیوں گنگ ہیں؟یمن سعودیہ تنازع،ماناکہ شیعہ سنی تنازع نہیں ہے اوراسے یہ رنگ دیابھی نہیں جاناچاہیے،لیکن اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یمن کے حوثیوں کوبغاوت پراکسانے والے کون ہیں اوران کے پس پردہ کیامقاصدہیں؟ایران کے اس حوالے سے جانب دارانہ کردارکامعاملہ اب محض الزام تراشیوں اورمفروضوں تک محدودنہیں ہے ،بلکہ ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈرکی سعودی عرب کے تمام شہروں کونشانہ بنانے کی دھمکی نے تمام گردصاف کردی ہے اوراب یہ جاننا کچھ مشکل نہیں رہاکہ کون گدھے پراورکون گھوڑے پرسوارہے؟سب سے پہلے پاکستان کی بات کرنے والے کن کی وکالت کررہے ہیں ،یہ بھی اب کوئی سربستہ رازنہیں رہا۔یمن کی قانونی حکومت کے خلاف شورش کے پیچھے کون ہے اوراس کے کیاعزائم ہیں ،یہ بات سمجھنے کے لیے ہماراتھوڑاماضی میں جھانکناہوگا۔

یہ مئی 2011کی بات ہے۔تیونس اورمصرمیں مسلم حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاج کی کامیابی اورڈکٹیٹروں کی حکومتوں کے خاتمے سے اسلام دشمن یہودونصاریٰ کے کاسہ لیسوں اورایجنٹوں کے دل میں اس شوق نے انگڑائی لی کہ کیوں نہ انقلابات کی عوامی ،عالمی وبین الاقوامی سطح پرپذیرائی کے اس موقع کوکیش کرتے ہوئے سرزمین عرب،مشرق وسطیٰ بالخصوص حرمین شریفین کے خلاف اپنے منصوبوں کوعملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے۔اس کے لیے منافقین کے تھنک ٹینک سرجوڑ کر بیٹھے۔ تہران،امریکاوتل ابیب میں ہونے والے ان خفیہ اجلاسوں میں دجالی قوتوں نے طے کیاکہ اس کاآغازبحرین سے کیاجائے،جہاں پہلے ہی ان کے ہم خیالوں کی ایک بڑی تعدادحکومت کے خلاف علم بغاوت بلندکرچکی تھی۔اس بغاوت کوتیونس اورمصرطرزکاعوامی انقلاب باورکرانے کی پوری کوشش کی گئی۔جہاں تک بس چلتاتھااس حوالے سے رائے عامہ کواپنے حق میں کرنے کے لیے عالمی ذرائع ابلاغ کووقف کردیاگیا۔مظاہرین وباغیوں کی پیٹھ ٹھونکی گئی ،بحرین کی اہل سنت حکومت کے خلاف بیان بازی کی گئی،قراردادیں پاس کی گئیں ،غرض ایران ،شام ،لبنان نے براہ راست اوردوسری استعماری قوتوں نے بالواسطہ اس بغاوت کوکامیاب کرانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادی۔مذکورہ ممالک کے ساتھ ساتھ ملک عزیزپاکستان میں موجودایران کے ہم خیال مخصوص مکتبہ فکرکے لوگوں نے بھی اس ''کارخیر''میں اپناحصہ ڈالناضروری خیال کرتے ہوئے ''شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری''کاثبوت دیا۔چنانچہ شہرقائدمیںاس مکتبہ فکرکی طرف سے سرزمین حرمین شریفین اورسعودی حکمرانوں کے خلاف نفرت آمیزاوردل آزاربینرز آویزاںکیے گئے اورآل سعودکوآل یہودتک کہنے سے گریزنہیں کیاگیا۔مسلک اہل سنت دیوبندواہل حدیث سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اورمذہبی وسیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں نے اس موقع پربھی حالات کی نزاکت کودیکھتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیاکہ یہ نفرت آمیزاوردل آزاربینرزفوری طورپرہٹائے جائیں۔علمائے کرام کاموقف تھاکہ ایک منظم منصوبے کے تحت ملک اور بالخصوص شہر قائدکو فرقہ واریت کی طرف دھکیلاجا رہا ہے۔ عرب ممالک میں افراتفری کا مقصد وہاں کے تیل کے ذخائر پر قبضہ اور مسلمانوں کے روحانی مرکز حرمین شریفین کے گردگھیراتنگ کرنا اوریہودی استعمارکے مذموم ودجالی مقاصدکے لیے راہ ہموارکرناہے۔علمائے کرام کے مطالبے اوربارباریاددلانے کے باوجوداس سلسلے میں کوئی نمایاں پیش رفت دیکھنے میںنہ آئی ۔جس کے بعد اکابرعلمائے کرام کے مشورے سے طے کیاگیاکہ علماوخطبائے کرام کویکجاجمع کرکے انہیں ایک مشترکہ لائحہ عمل دیاجائے۔علمائے کرام کی پیہم جدوجہدکے نتیجے میں وطن عزیزکوفرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھونکنے کی یہ سازش ناکام ہوئی تھی اورآل سعودکوآل یہودکہنے والی لابی کوسانپ سونگھ گیاتھا۔زخمی سانپ کی طرح یہ عناصرانڈرگراؤنڈاپنی منصوبہ بندی تشکیل دینے میں لگے رہے اوربحرین کے محاذپرناکامی کے بعداب یمن کے حوثیوںکوبغاوت پراکسایاگیاکہ تم قدم بڑھاؤہم تمھارے ساتھ ہیں۔اس کے بعدپھراسی طرح کی کہانی دہرائی گئی،رائے عامہ کوسعودیہ کے خلاف ہم وارکرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی گئی،حکومت کواس معاملے کوپارلیمنٹ میں لے جانے پرمجبورکیاگیااوروہاں بیٹھے اپنے ہم خیال سیاست دانوں کے ذریعے بساط الٹ دی گئی۔جانے کس ان جانے خوف کے تحت پاکستان کے سینئرترین سیاست دان نے مکمل مینڈیٹ ہونے کے باوجودبھی خودکشی کی راہ پرچلنے کافیصلہ کیا۔خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیاکہیے!!

اس اجتماعی خودکشی کی راہ پرلے جانے والے فیصلے کی تبدیلی کے لیے ایک بارپھرعلمائے کرام اٹھ کھڑے ہوئے،انھوں نے اپناکرداراداکرتے ہوئے اس فیصلے کے نقصانات سے قوم کوآگاہ کرنے کافیصلہ کیاکہ یہ ہمیں تنہاکرکے مارنے کی سازش کی ایک کڑی ہے،سعودی عرب اورخلیجی ممالک کے ساتھ کھڑے ہوکرہم اپناقداونچاکرسکتے تھے،خلیجی ممالک سے منہ مانگے مفادات حاصل کرسکتے تھے،اپنے دوستوں کی تعدادمیں اضافہ کرسکتے تھے ۔جناب سراج الحق ،حضرت مولانافضل الرحمن کی رائے بھی اب وہی بن چکی ہے جودیگراہل سنت علمااورجماعتوں کی ہے،جس کاواضح ثبوت اس نوع کے پروگراموں میں ان کی گرم جوشی سے ملتاہے،تاہم صرف اتناکافی نہیں ۔ہماری سوچ نارساکے مطابق ان کواس حوالے سے پارلیمانی میدان میں اپنے جوہردکھانے ضروری ہیں ،جس کے لیے قوم کی نگاہیں اس جماعت بالخصوص قائدجمعیت کی طرف اٹھتی ہیں ۔ہمیں امیدواثق ہے کہ دیرآیددرست آیدکے مصداق وہ اپناکردارضروراداکریں گے۔یہ انتہائی خوش آئندامرہے کہ اس حوالے سے نہ صرف تمام مسلک دیوبندسے تعلق رکھنے والی جماعتیں یک آوازہیں ،بلکہ مسلک اہل حدیث کی تنظیموں کی بھی ایک ہی رائے ہے کہ یہ سرزمین حرمین شریفین پرقبضہ کرنے اوراس کی مرکزیت کوختم کرنے کی سازش ہے۔دونوں مکاتب فکرماضی کی طرح اب بھی اس معاملے میں یک آوازہیں ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ مسلک اہل سنت کے دوسرے مکاتب فکرکوبھی اس پلیٹ فارم پریکجاکیاجائے ۔مقام حیرت وافسوس ہے کہ جن لوگوں کاوظیفہ زندگی ہی ''مکہ ومدینہ''ہے،جن کاماٹوہی ''عشق رسالت ''ہے،وہ مجرمانہ غفلت یاپراصرارخاموشی کاشکارکیوں ہیں؟۔

حکومت کی '' صاف چھپتے بھی نہیں ،سامنے آتے بھی نہیں''والی صور ت حال ہے ۔''راضی رہے رحمن بھی اورنہ روٹھے شیطان بھی''کے مصداق ایک طرف خفیہ سفارتی وفودبھی جاجاکریقین دہانیاں بھی کی جارہی ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں،دوسری جانب اسحق ڈارجیسے وزیران باتدبیراحسان فراموشی کی روایت بھی برقراررکھے ہوئے ہیں،''شیطان بزرگ''تواس حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ کھڑاہے ،پھرنہ جانے کس ''بزرگ''کی ناراضی کاڈرہے۔ویسے مرگ براسرائیل کے نعرے لگانے والوںکااسرائیل سے کوئی نیایارابھی ہوچکاہے اورکوئی بعیدنہیں کہ پش پردہ شیطان بزرگ بھی اس کاحصہ ہو،کہ بغل میں چھری منہ میں رام رام اس کی پرانی پالیسی ہے،بہرحال ہنوزپرنالہ الٹابہ رہاہے،جس کے بعدعلمائے کرام نے ایک بارپھرباقاعدہ احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا،جس کا آغاز 24اپریل بروز جمعہ تمام جماعتوں اور مذہبی طبقے کی جانب گرو مندر سے تبت سینٹر تک احتجاجی ریلی کی صورت میںکیا جارہاہے۔شہرقائدکے عوام کی دینی ،ملی ومذہبی دمے داری ہے کہ لبیک حرمین ریلی کوکامیاب بناکردشمن کوپیغام دیں کہ پاکستانی عوام کے دل سعودی عرب کے ساتھ دھڑکتے ہیں،ہم کڑے وقت میں اپنے محسن کوتنہانہیں چھوڑسکتے اوربغاوت یاکسی بھی اندازمیں حرمین شریفین کی سلامتی کوخطرے میں ڈالنے کی کسی کواجازت نہیں دیں گے۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307868 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More