میری فیس بکی کہانی قسط نمبر 1
(شکیل اختر رانا, karachi)
نوٹ: میں چند قسطوں میں اپنی
کہانی سنانے جارہا ہوں،جس میں فیس بک استعمال کرنے والوں کے لیے بہت سارے
معلومات کے علاوہ فیس بک استعمال کرتے ہوئے جن چیزوں سے بچنا ضروری ہے ان
کا بھی تفصیلی ذکر آجائے گا، اس حوالے سے پہلی قسط آپ کی خدمت میں پیش ہے
اور روزانہ ایک قسط آپ کے سامنے پیش کروں گا، میری کوشش ہوگی 4 یا زیادہ سے
زیادہ 5 قسطوں میں اپنی کہانی مکمل کروں گا۔
سن 2011کے اوائل تک انٹرنیٹ سےخدا واسطے کابیر رہا،انٹرنیٹ کا نام سن کر یک
لخت ایک ایسی دیوی کا تصور ذہن میں ابھرتا تها جو اپنے طلسمی اثر سے ہر اس
شخص کو گناہ کے دلدل میں دهکیلتی ہے جو انٹرنیٹ چلانے کی غلطی کر بیٹهتا
ہے،سو اسی وجہ سے ہم اس انٹرنیٹ کی سیاست سے بہت دور رہے مگر ہمیشہ دل میں
یہ خیال جاگزیں رہتا تھا کہ پتہ نہیں لوگ کیوں سارا دن کمپیوٹر پہ جھک کر
کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں،سن 2011 کے وسط میں درس نظامی سے سند فراغت حاصل
کرنے کے بعد اپنےگائوں چلے گئے تو بہت سارے دوستوں نے مشورہ دیا کہ کم از
کم فیس بک اکاؤنٹ بنانا تو آج کل بہت ضروری ہوگیا ہے کیونکہ دنیا "گلوبل
ولیج" بن چکی ہے، پڑها لکها طبقہ سارا، فیس بک پہ موجود ہے،بہت کچھ سیکھنے
کو ملتا ہے،لوگ ایک سیکنڈ میں پوری دنیا میں رابطے قائم کرتے ہیں اور اس کے
علاوہ بھی بہت ساری چیزیں دستیاب ہوتی ہیں،اس مسلسل تبلیغ کا کم ازکم اتنا
اثر ضرور ہوا کہ اس گناہ کی دیوی کا اثر ختم ہوکر ایک نازک پری کا اثر دماغ
پہ حاوی ہوا جو نظروں سے اوجھل رہ کر بندے کو سیدھے راستے کی نشاندہی کرتی
ہے،ذہنی طور پر تو ہم نے اس میدان میں اترنے کے لیے لنگوٹ کس لیا تھا مگر
عملی طور پر اس میدان میں انٹری مارنے کے لیے نہ وسائل دستیاب تهے اور نہ
ہی حالات سازگار تهے....
سن 2011 کے اوخر میں جب جامعتہ الرشید کے شعبہ صحافت میں داخل ہوئے تو رفتہ
رفتہ انٹرنیٹ کے نقصانات ذہن سے اوجھل ہوگئے اور فوائد نے سر اٹھانا شروع
کر دیا،کورس کے دوران ایک استاد نے انٹرنیٹ کا استعمال سکهانا شروع کر دیا
اور ای میل وغیرہ بنانا سکھادیا،پهر ہم جب کمپیوٹر لیب میں پہنچتے تو
کمپیوٹر کےاستاد ان پیج پڑها پڑها کے تهک جاتے، ان کے جانے کے فوراً بعد ان
پیج کی پریکٹس کے بجائے دوسرے استاد کے سکھائے ہوئے طریق کار کے مطابق
انٹرنیٹ کی پریکٹس شروع کر دیتے،بڑی تگ و دو اور تین چار کمپیوٹروں کی ایسی
کی تیسی کرنے کے ایک دن وہ مبارک لمحہ بهی آگیا کہ ہم جی میل پہ اپنی ایک
عدد آئی ڈی بنانے میں کامیاب ہوگئے،اس دن اتنی خوشی ہوئی جیسے ہم نے آئی ڈی
نہیں بنائی بلکہ ہمیں اسپیشل برانچ کا آئی جی بنایا دیاگیا ہو...
اس خوشی میں تمام دوستوں اور رشتہ داروں کو بزریعہ ایس ایم ایس اور فون یہ
خبر پہنچا دی کہ ہم بقلم خود انٹرنیٹ کی دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں،اس میسیج
کو اپنے فون بک کے تمام نمبرز پہ سنڈ کردو اور ہوسکے تو محلے کی مسجد سے
اعلان بهی کروادو کہ آپ کے علاقے کا ایک شخص انٹرنیٹ فتح کرنے کے لیے میدان
عمل میں کود چکا ہے،بہت سے دوستوں نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ
فوری طور پر فیس اکاونٹ بنا ڈالو،کیونکہ آپ جیسے لوگوں کی فیس بک پہ سخت
کمی پائی جاتی ہے...
اب ہم بهی اس گناہ کو کر گزرنے کے لیے بے تاب تهے مگر کمپیوٹر لیب میں فیس
بک پہ پابندی کی وجہ سے فوری طور پر اس کار گناہ سے بچ کر رہے....
مگر کب تک....ایک دن کسی دوست کے دوست سے تعلقات لڑاتے ہوئے ہوئے ہم فیس بک
کے جنگل میں انٹری مارنے میں کامیاب ہوگئے.
اکائونٹ بنانے کے بعد ہم نے چار دانگ عالم میں ایسا شور مچایا جیسے ہم نے
قصر اقابلا کو فتح کر دیا ہو،ہم نے پوری کو شش کی کہ دنیا کے کے کسی بھی
کونے میں موجود اپنے جاننے والوں تک یہ بات پہنچادیں کہ اب ہم بهی گلوبل
ولیج کا حصہ بن چکے ہیں،اکائونٹ تو بن گیاتھا مگر چلانا کیسا ہے یہ اپنی
جگہ ایک مستقل سوال تھا، چنانچہ اس نازک مرحلے میں کچھ تجربار فیس بکیوں سے
مشورے کے بعد آو دیکھا نہ تاو،آستین چڑھا کے فیس بک پہ موجود ہر جنس اور ہر
عمر کے انسانوں کو فرینڈ ریکوسٹ داغنا شروع کردیا،کسی نے ہم کو بتایا تھا
کہ فیس بک پہ پانچ ہزار فرینڈ بنانے کی گنجایش موجود ہے،تو ہم نے پورا
ارادہ کیا کہ ایک نشست میں 5 ہزار لوگوں کو فرینڈ ریکوسٹ بھیج کر راتوں رات
پورے فیس بک پہ مشہور ہوجائیں گے،چنانچہ 180 کی اسپیڈ سے فرینڈ ریکوسٹ
بھیجتے رہے، اسی دوران فیس بک کی جانب سے عجیب و غریب میسیج بھی آتے رہے،ہم
نے سمجھا کہ شاید ہماری پھرتی کا داد دیا جارہا ہے کہ بندہ فیس بک آتے ہی
چهاگیا ہے،اس اہم مشن سے فارغ ہو کے دیکھ لیں گے کہ کن الفاظ میں ہماری
چستی کو سراہا گیا ہے،چنانچہ ہر نئے میسیج کے ساتھ اسپیڈ مزید بڑھادی،تھوڑٰ
دیر کے بعد میسیجز کا سلسلہ زیادہ ہوا تو ہم نے نے ایک میسیج پڑھا ،مسیج
پڑھتے ہی ہمیں مایوسی کا ایک شدید کرنٹ لگ گیا، کیوں کہ اس میں اس کار خیر
کی شدید مذمت کرتے ہوئے خطرناک قسم کی دھمکی دی گئی تھیں جو ہم مسلسل ایک
گھنٹے سے کر رہے تھے...
ہم نے سوچا آج کے لیے اتنا کافی ہے بقیہ صبح دیکھ لیں گے...
صبح معمولات سے فارغ ہو کر جب ہم نے فیس بک پہ لاگ ان ہونے کی کوشش کی تو
تو پتہ چلا کہ فیس بک کے وسیع تر مفاد میں ہمیں فیس بک سے آوٹ کرتے ہوئے
ہمارا اکاونٹ بند کر دیا گیا تھا,یہ صوت حال دیکھ کر ہم بھونچکے رہ گئےاور
اس جھٹکے سے اتنا سمجھ آیا کہ جلدی مشہور ہونے والا فارمولہ ناکام ہوچکا
ہے،اب تنکا تنکا آشیانہ والا فارمولہ اپنانا چاپیے،اس مقصد کی خاطر ہم ایک
عدد نئی آئی ڈی کے ساتھ ایک بار پهر جزیرہ فیس بک پہ نمودار ہوگئے،پیشگی
احتیاط اور خرابی نیت کی وجہ سے پروفائل پکچر 10سال پرانی لگادی،پلان گزشتہ
دن کے تلخ تجربے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ اس دفعہ اندھا دھند فرینڈ
ریکوسٹ فائر نہیں کریں گے،کافی سوچ و بچار کے بعد سب سے پہلے تو اپنے
دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑهایا،اس کے بعد ہم پورے
انہماک کے ساتھ قصر فیس بک کی حسین ماہ جبینائوں کی طرف متوجہ ہوگئے، اس
سلسلے میں تائے تانیث اور مردانہ لاحقے کے ساتھ زنانہ سابقے والے ناموں کی
تلاش شروع کردی،تو دوستو دیکھتے ہی دیکھتے ہم حسینوں کے جھرمٹ میں آگئے،
اپنی فرینڈ لسٹ میں خوبصورت زنانہ ناموں کے ساتھ پری صورت پروفائل پکچرز
دیکھ کر اندر ہی اندر ہم پھولے نہیں سما رہے تھے، بس ایک جنت تهی اس میں
حوریں تهیں خیالات کی دنیا میں ہر طرف شرابا طہورا کی نہریں بہتی تهیں،اس
خوشی میں ہم کئی ماہ تک رات کو سو نہ سکے مگر خوابوں میں حسینوں کی ٹولیوں
میں باغات کی سیر کرتے رہےاس دوران ایک تو دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف سے
مستقل تنقید کا سامنا رہا کہ مولوی صیب نے ساری لڑکیاں ایڈ کی ہوئی ہیں تو
دوسری جانب کئی دھمکتے چہرے اور لٹکتے زلفوں والی پروفائل پکچرز والی
نازنینوں کے ساتھ بلا زیارت وجوہ دوستی کا ایک تسلسل شروع ہوا،
پهر صورت حال یہاں تک پہنچی کہ صبح فیس بک،شام فیس بک،دن فیس بک رات فیس
بک،کلاس میں فیس بک کمرہ میں فیس بک،گویا کہ ہماری کل مصروفیت فیس بک تک
محدود ہو گئی.ایک دن ہم نے سوچا کہ فرینڈ لسٹ میں حوروں کی تعداد کچھ زیادہ
ہی ہوگئی ہے ،کچھ چھانٹی کرکے نئی حوروں کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہیے آخر
دوسروں کا بهی کوئی حق بنتا ہے،ابهی اس فیصلے پر عمل شروع نہیں ہوا تھا کہ
ایک دن ہم نے حالت بیداری میں کینیڈا کے ایک سفید ریش بزرگ کو خواب میں
دیکھا،اس نے نصیحت کی کہ اپنے ارد گرد موجود حوروں کا جنس معلوم کرلو،ایسا
نہ ہو کہ....اس کے ساتھ اس نےایک طریقہ بهی بتادیا.....
اس مشورے کے تناظر میں ہم نےاپنی فرینڈ لسٹ میں سے سب سے خوبصورت نام اور
خوبصورت پکچر والی سرتا پا قیامت ایک فرینڈ کو آزمانے کا قطعی فیصلہ
کرلیا،پروفائل پکچر اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ میرے سامنے تهی، اس
کی خوبصورتی بیان کرنا میرے بس کا روگ نہیں مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ اس کی
آنکھیں جیسی گہری نیلگوں جهیلیں،اس کے رخسار جیسے دہکتے ہوئے انگارے،اس کے
لب جیسے پھول کی پتیاں،اس کے دانت جیسے یمن کے موتی ،غرض خوبصورتی اور حسن
کی ہر تعریف کا مصداق بننے کی صلاحیت رکهنے والی اس ماہ جبیں سے تحقیق و
تفتیش کی ابتداء کرنے کا فیصلہ کر لیا....
اس مقصد کے لیے ایک خوبصورت زنانہ نام سے تیسری آئی ڈی بناڈالی ،اور اس آئی
ڈی میں اس مہہ جمال کو ایڈ کرکے اس کے ساتھ دوستی بڑهالی،دودن کی محنت کے
بعد میری فرینڈ لسٹ کی سب سے خوبصورت لڑکی نے اپنی جنس اصلی ظاہر کردی،نام
پوچها تو سرمد شاہ بتادیا.میری اصل آئی ڈی پہ میری اول درجے کی محبوبہ نے
اپنی اصلیت ظاہر کرنے کے بعد آسمان کے سارے ستارے ،چاند سورج یہاں تک کہ
بادل کے سارے ٹکرے لا کر میرے قدموں میں ڈالنے کی ان گنت قسمیں
کھائیں.....میرے پر زور اصرار کے بعد اس نے اپنی ایک تصویر ان باکس کی ،جب
ان باکس کھول کے دیکھا تو آثار قدیمہ کا ایک بت رکها ہوا تها..اس کو دیکھ
کر ہماری خیالی جنت ہوائوں میں تحلیل ہو گئ اور حوروں کی جگہ افریقہ کے
وحشی قبیلوں کے دزندہ صفت انسان نما جانور نظر آنے لگے......
جاری ہے.... |
|