فراڈ سیریز کہانی نمبر 1
(شکیل اختر رانا, karachi)
نفسیاتی حملہ.!!
جوں جوں ٹیکنالوجی ترقی کی شاہراہوں پر تیز رفتار گھوڑے کی طرح دوڑ رہی
ہے،توں توں مارکیٹ میں نت نئے فراڈ کی قسمیں وجود میں آرہی ہیں،لوگوں کو
اپنی چکنی چُپڑی باتوں کے ذریعے شیشہ میں اتار کر ان کی کل جمع پونجی پر
ہاتھ صاف کرنے والے لوگ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مختلف شکلوں میں موجود
ہیں،یہ لوگ اس قدر چالاکی سے واردات کرتے ہیں کہ بعض اوقات بڑے سمجھدار
افراد بھی ان کے ہاتھ اپنا سرمایہ لٹاکر سر پیٹتے رہ جاتے ہیں،مارکیٹ میں
رائج فراڈ کی قسمیں دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہر کس وناکس کو
ٹوپی پہنانے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں،تاہم عرصہ دراز سے شہر میں رہنے والے
لوگ ایک حد تک ان سے بچ رہنے میں کامیاب رہتے ہیں،مگر جو لوگ تازہ تازہ
گاؤں سے شہر کا رخ کرتے ہیں،وہ بڑی آسانی کے ساتھ ان کے بچھائے ہوئے جال
میں پھنس جاتے ہیں اور بقیہ زندگی ندامت کے آنسو بہاتے گزارتے ہیں...
فراڈ سیریز کے عنوان سے ہماری کوشش ہوگی کہ بڑے شہروں میں رائج فراڈ کے
تمام طریقوں کو واقعاتی انداز میں بیان کریں، تاکہ جو لوگ فراڈ کا شکار
ہونے جارہے ہیں،وہ ان فراڈیوں کی اصلیت اور فراڈ کے لیے استعمال ہونے والے
مختلف طریقوں کو جاننے کے بعدہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جمع پوجی ان
فراڈیوں کے ہاتھوں لٹانے سے باز رہ سکیں,اس حوالے سے سب سے پہلے خود میرے
ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ پیش خدمت ہے،اور آئندہ قسطوں میں ہم فراڈ کی
مختلف قسموں کو کہانی کے انداز میں آپ کے سامنے پیش کریں گے...
یہ غالبا2007 کی بات ہے،میں کراچی کے ایک گنجان آباد علاقے میں اپنے ایک
دوست کے ساتھ ان کے میڈیکل اسٹور میں بیٹھا ہوا تها،ہم کل تین افراد وہاں
موجود تھے اور گپیں ہانکنے میں مشغول تھے،اتنے میں دو افراد ایک بیگ تهامے
وہاں وارد ہوئے،کاونٹر پہ بیگ رکھنے کے بعد ان میں سے ایک شخص نے اس بیگ سے
دو "ویڈیو کیمرے" نکال لیے اور ہم سے مخاطب ہو کے پوچها کہ آپ کیمرے خریدیں
گے؟
میں نے پوچھا قیمت کیا ہے ؟اس نے جواب دیا ایک15 ہزار اور دوسرا 20 ہزار کا
یعنی ٹوٹل 25 ہزار میں دونوں ملیں گے،میں نے بس مروتا پوچھا تھا،خریدنے کا
ارادہ تها نہ ضرورت تھی اور نہ ہی سکت،چنانچہ میں نے جواب دیا کہ میں آپ کے
کیمرے خریدنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں،اتنے میں اس کی نظر میرے موبائل پہ
پڑگئی جس کی قیمت اس وقت 9000 کے قریب تهی،اس نے جیسے ہی میرا موبائل دیکھا
فوراً ہی ایک نفسیاتی وار کرتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا کہ یہ موبائل آپ کا
اپنا نہیں ہے،میں نے جواب دیا کہ بهائی یہ میرا اپنا موبائل ہے آپ کو کو
کوئی غلط فہمی ہوئی ہے بتاو ابھی دور کرتا ہوں...
وہ اپنے دعویٰ برابر دہراتا رہا کہ یہ موبائل آپ کا ہو ہی نہیں سکتا،
بالآخر مجهے غصہ آیا تو میں نے کہا بهائی آپ کو میں کیسے یقین دلائوں کہ یہ
موبائل میرا اپنا ہی ہے اور کچھ دن پہلے میں نے 9 ہزار میں خریدا ہے؟یہ سن
کر اس نے کہا اگر یہ موبائل آپ کا اپنا ہے تو آپ یہ مجهے دو اور میں اپنے
25ہزار کے کیمرے آپ کو دیتا ہوں،میں نے غصے میں سم نکال کر موبائل اس کے
حوالے کرنے لگا تو اس کے دوسرے ساتھی نے اس کو یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کی
کہ یہ سودا سراسر نقصان ہے مت کرو،اس نے اپنے ساتھی کو جواب دیا کہ ایک
مرتبہ بس زبان ہوگئی ہے میں انکار نہیں کرسکتا....
چنانچہ وہ دونوں کیمرے میرے حوالے کر کے موبائل ساتھ لے کر وہاں سے چل
دیئے،تھوڑی دیر تک تو وہ آہستہ آہستہ چلتے رہے، کچھ دور جاکر ان کے قدم تیز
ہوگئے،ہم سب اس صورت حال سے مبہوت ہوکر خاموش کھڑے انہیں جاتے ہوئے دیکھ
رہے تھے،اسی دوران ہمارے کچھ اور دوست وہاں پہنچے اور ہم سے پوچھا معاملہ
کیا ہے، ہم نے کچھ دیر پہلے ہونے والی گفتگو سے انہیں آگاہ کیا تو انہوں نے
صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے ان کا پیچھا کیا اور پکڑ کے واپس لائے،کچھ دیر
تو وہ موبائل واپس کرنے مین پس و پیش سے کام لیتے رہے،مگر جب انہوں نے
ہمارے کچھ دوستوں کے چہرے پر ہٹو بچو کے آثار دیکھے تو انہوں نے جان چھڑانے
میں عافیت سمجھی اور کیمرے لے کر وہاں سے کھسک گئے،
شام تک اس موضوع پر ہم مذاق کا نشانہ بنتے رہے،اور پھر وہ بات معمولات
زندگی کے بوجھ تلے دب گئی،ابھی اسی واقعے کو 24 گھنٹے بھی پورے نہیں گزرے
تھے کہ ایک اڑتی ہوئی خبر ہماری سماعتوں تک پہنچ گئی کہ وہ اسی محلے کے ایک
دکاندار کے ساتھ یہی حربہ آزامامنے کامیاب ہوگئے ہیں،اور اس کا موبائل
ہتھیاکر راہ فرار اختیار کرچکے ہیں جس کی قیمت تقریبا 5 ہزار کے قریب تھی-
ان کے کیمرے دیکھنے میں تو بہت اچھے تهے مگر اندر سے بالکل کھوکھلے
تهے،بطور کھلونا دونوں کی کل قیمت بہ مشکل 5سو روپے سے زیادہ ہرگز نہیں
تھی... |
|