پولیٹیکل میڈیم
پولیٹیکل میڈیم کسی بھی حکمران کا سایہ ہوا کرتا ہے۔ جیسے کسی بھی مادی شے
کا سایہ ہونا لازمی ہے اسی طرح ایک حکمران کا سایہ ہونا بھی لازم و ملزوم
ہے۔ اگر ہم پاکستان میں خلافت کے قیام کے بعد موجودہ سیاسی منظر کو تبدیل
کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلیے ہمیں درج ذیل نقاط کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ہو
گا۔
۱۔سیاسی جماعتوں اور عوام کے بیچ تعلقات کی نوعیت
۲۔سیاستدانوں کی سوچ اور سیاسی جماعتوں کے مقاصد
۳۔خلافت کے قیام سے پہلے سیاسی جماعتوں کے منشور
ُُُُُٓ ُپاکستان میں عوام اور سیاستدانوں کے تعلقات کی حقیقت
اگر ہم گہری نظر سے عوام اور سیاست دانوں کے تعلقات کا مشاہدہ کریں تو ہم
آسانی سے اس حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں کہ کوئی بھی جو عوام کے مسائل کو حل
کرے عوام اس کو اپنی سر آنکھوں پر بٹھانے کو تیار ہیں۔ ہم آسانی سے ماضی
میں اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں جب نواز شریف حکومت جو کہ پاکستانی تاریخ کی
مظبوط ترین حکومت تھی کو توڑا گیا تو عوام میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی۔ حتیٰ
کہ لاہور جیسے شہر میں جہاں مسلم لیگ نے ہمیشہ ساری سیٹوں پر مقابلہ جیتا
وہاں سے بھی کسی قسم کا عوامی رد عمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی بھی
دوسرے بڑے شہر مثال کے طور پر ملتان٬ فیصل آباد٬ شیخو پورہ٬ راولپنڈی وغیرہ
سے بھی کسی قسم کا عوامی ردعمل سامنے نہ آیا۔ بجائے اسکے عوام نے اس تبدیلی
کو خوش آمدید کہا اور اس سے امید لگائی کہ شاید اب ان کی بنیادی ضروریات کو
پورا کرنے کیلیے مشرف حکومت کچھ کرے گی۔ اگر ہم اس کمزور تعلق کا مزید ثبوت
چاہتے ہیں تو ماضی میں دو دفعہ اقتدار میں رہنے والی حکومت کو جب اقتدار سے
الگ کیا گیا تو عوام میں ایک خوشی کی لہر موجود تھی حتیٰ کہ سندھ سے بھی
عوامی ردعمل نہ آیا جبکہ اس جماعت کے دعویٰ کے مطابق ان کی جڑیں عوام میں
ہیں اسکے مقابلہ میں عوام نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ان کی جان ایک کرپٹ
حکومت سے چھوٹ گئی۔ اس وقت بھی عوام نے اس تبدیلی کو خوشی سے قبول کیا اور
امید لگائی کہ شاید اب ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی آجائے اور ان کی بنیادی
ضروریات کو پورا کر دیا جائے۔ اب ایک نظر ایم کیو ایم کی طرف دوڑاتے ہیں جو
کہ کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ اگر آپ کراچی کی گلیوں اور بازاروں میں
لوگوں سے ملیں اور ان سے ایم کیو ایم سے متعلق سوال کریں تو آپ کو اندازہ
ہوگا کہ لوگ ان کی بدمعاشی اور بھتہ سسٹم سے کتنے تنگ ہیں اور اس بات کا
ثبوت آپ کو ماضی میں ہونے والے فوجی آپریشن کے وقت سے لگا سکتے ہیں جب
کراچی اور سکھر کی عوام کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور اس کے
مقابلہ میں عوام کی طرف سے خوشی کے جذبات کا ثبوت ملتا ہے۔ الطاف حسین جو
کہ اپنے آپ کو کراچی سکھر اور حیدرآباد کی عوام کا آنکھ کا تارا سمجھتا ہے
اور اپنی ریلیوں اور جلسوں میں اپنی اداکاری سے پارٹی کی سربراہی سے استعفیٰ
دیتا ہے اور میڈیا پر اپنے کارکنوں کو روتا ہوا دکھاتا ہے اس کو اپنی لیڈر
شپ پر اتنا بھی اعتماد نہیں کہ وہ اس کیلیے رونے والی عوام کے بیچ میں آکر
رہے کیونکہ اس کو اندازہ ہے کہ بدمعاشی کے سر پر ووٹ تو لیا جا سکتا ہے
لیکن عوام کے دل نہیں جیتے جا سکتے۔ مشرف جو سات سال تک اس بات کو رٹتا رہا
کہ پاکستان کی سیاست میں اب بے نظیر اور نواز شریف جیسے کرپٹ سیاستدانوں کا
کوئی مستقبل نہیں ہے جب برطانیہ امریکہ اور مشرف کے بیچ معاہدہ طے پایا اور
اس معاہدہ کے تحت بے نظیر کی ملک میں واپسی ہوئی تو اسٹیبلشمنٹ کی پوری
مشینری نے اپنی انتھک محنت کیساتھ بے نظیر کے استقبال کا بندوبست کیا اور
بے نظیر کی واپسی کو ایک تبدیلی کیساتھ منسلک کیا جبکہ ہمیں اس بات کو نہیں
بھولنا چاہیے کہ اسی بے نظیر کی واپسی کیلیے پچھلے سات سالوں میں مشرف پر
کوئی عوامی دباؤ نہیں تھا اور وہ برملا اس بات کا اظہار بغیر کسی خوف کے
میڈیا کے سامنے کیا کرتا تھا کہ بے نظیر کا پاکستانی سیاست میں کوئی کردار
نہیں کیونکہ وہ ان کی سیاسی حیثیت سے اچھی طرح واقف تھا۔اس بے نظیر کے
استقبال میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد لازمی تھی کیونکہ امریکہ اور برطانیہ کے بیچ
یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ بے نظیر بطور وزیراعظم مشرف کو امریکہ اور
برطانیہ کے مقاصد کے حصول کیلیے اسسٹ کرے گی۔لیکن بے نظیر کو اپنی سیاسی
حیثیت کا اندازہ تھا جسکی وجہ سے اس نے آتے ہی سندھ اور پنجاب میں آنے والے
الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنی شروع کردی تھی تاکہ وہ مشرف کو ایک طاقتور
وزیراعظم کے طور پر ڈیل کرے۔ جبکہ یہ وہی بے نظیر تھی جس کی حکومت کے خاتمے
پر کوئی عوامی ردعمل نہیں آیا تھا بلکہ عوام نے خوشیاں منائیں تھی جسکے
استقبال میں اسٹیبلشمنٹ نے کوئی کسر نہ چھوڑی اور ایک تبدیلی لانے والی
لیڈر کے طور پر دکھایا گیا تاکہ مشرف سے تنگ عوام ایک دفعہ پھر اس کو قبول
کرلیں جو کہ امریکہ اور برطانیہ کی ضرورت تھی۔ اس پریشر کا ایک ثبوت یہ بھی
ہے کہ مشرف کو بے نظیر کی واپسی کیلیے این آر او جاری کرنا پڑتا کہ بے نظیر
اور زرداری کی کرپشن کو قانونی حفاظت دی جاسکے اور ان کے الیکشن لڑنے میں
کوئی رکاوٹ نہ آئے۔
اب ایک دفعہ پھر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی سب سے طاقتور جماعت
مسلم لیگ کے رہنما نواز شریف کی پانچ سالہ جلا وطنی کے بعد واپسی پر عوام
نے جس انداز میں اپنے اس رہنما کا استقبال کیا وہ ایک اور ثبوت مہیا کرتا
ہے کہ ان رہنماؤں کی عوام کیساتھ تعلق کی کیا نوعیت ہے۔ جب نواز شریف کی
واپسی پر اس کو دوبارہ دھکے دے کر جلا وطن کردیا گی جبکہ سپریم کورٹ آف
پاکستان نے اس کی واپسی کی اجازت دی تھی اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے
سے منع کیا تھا اس سب کے باوجود چند ورکرز کے علاوہ کوئی بھی اس عظیم رہنما
کا استقبال کرنے کو نہیں آیا بلکہ نوازشریف کو انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے
شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملا اور اس کے بعد بھی عوام کی طرف سے کوئی ردعمل
سامنے نہیں آیا جس سے عوام اور اس رہنما کے بیچ تعلق کا اندازہ آسانی سے
لگایا جاسکتا ہے۔
اب پاکستان میں موجود اسلامی جماعتوں اور عوام کے تعلق کا مشاہدہ کریں تاکہ
پاکستان میں ان کی سیاسی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہم یہ اچھی طرح
جانتے ہیں کہ ان جماعتوں میں کوئی بھی جماعت ایسی نہیں ہے جس نے پاکستان کی
تاریخ میں دس سے زیادہ سیٹیں جیتی ہوں اور یہ جماعتیں ہمیشہ کوشش کرتی ہیں
کہ الیکشن میں کسی بڑی پارٹی کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے جائیں تاکہ ایوان
میں یہ کچھ نہ کچھ سیٹیں جیت سکیں۔ ان میں جماعت اسلامی جمعیت علما اسلام
اور اس کے مختلف گروپس شامل ہیں جن میں جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام
فضل الرحمان گروپ سب سے نمایاں ہیں۔ایک وقت تھا جب جماعت اسلامی مسلم لیگ
کی بی ٹیم کے نام سے جانی جاتی تھی لیکن نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران
اسلامی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے اتحاد بنایا اور سرحد میں
حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے جس کی وجہ سے عوام میں ان کی رہی سہی ساکھ
بھی جاتی رہی جب سرحد حکومت کی موجودگی اور ان کی اجازت سے ۱مریکی افواج کو
لاجسٹک سپورٹ جاتی رہی جن جماعتوں نے کتاب کے انتخابی نشان کو قرآن سے
مشابہت دے کر ووٹ عوام سے مانگے تھے اور لوگوں کے اسلامی جذبات کو الیکشن
میں استعمال کیا تھا اور اسی متحدہ مجلس عمل کی بدولت مشرف کی مسلمانوں سے
غداری کو سترہویں ترمیم کے ذریعے قانونی حیثیت ملی جس کیوجہ سے عوام ان کے
مقاصد کو اچھی طرح جان گئے اور فروری کے الیکشن میں نہ صرف یہ اتحاد ٹوٹ
گیا بلکہ جماعت اسلامی نے راہ فرار حاصل کی کیونکہ وہ عوام کے غم و غصہ کا
مقابلہ کرنے سے قاصر تھے۔ اس ساری گفتگو سے عوام اور ان کے تعلقات کا
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام میں ان کی کیا حیثیت باقی ہے۔
اس کے علاوہ چاروں صوبوں میں موجود قومیتوں کی بنیاد پر قائم چھوٹی سیاسی
جماعتیں ہیں جو ہمیشہ عوام میں صوبائیت اور وطنیت کے جذبات کو ابھارتے رہتے
ہیں اور اپنی سیاست کہ زندہ رکھنے کیلیے صوبائی خود مختاری کا شوشہ اچھالتے
رہتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کی نیشنل لیول پر کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ
ہی ان جماعتوں نے کبھی بھی الیکشن میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کی جس سے
ان کا تعلق عوام میں جذباتی نوعیت کا ہے جو وقتی طور پر ابھرتا ہے اور ختم
ہو جاتا ہے۔
یہاں ایک سوال ہمارے ذہنوں میں ابھر سکتا ہے اور اس بات پر بحث کرسکتے ہیں
کہ پھر کیسے اتنی بڑی تعداد میں لوگ ان کہ ووٹ ڈالتے ہیں اور اگر لوگ ان کو
ووٹ ڈالتے ہیں تو یہ الیکشن جیتتے ہیں اور تبھی یہ لیڈر ہیں تو اس کا جواب
یہ ہے کہ اس معاملے کو سمجھنے کیلیے ہمیں پاکستان کی سیاست کی حقیقت کو
سمجھنا پڑے گا اور ہر سیٹ کی حقیقت لوگوں کے رہن سہن لوگوں کا تعلیمی لیول
شہری اور دیہی آبادی میں فرق کو سمجھنا پڑے گا تب اس تمام گفتگو کی حقیقت
کو جان پائیں گئے۔ اگر ہم دیہی علاقوں کا دورہ کریں اور عوام اور وہاں کے
سیاستدان کے بیچ تعلقات کی نوعیت کا مشاہدہ کریں تو ہم جان سکتے ہیں کہ
وہاں کی سیاست اس علاقے کا جاگیردار کر رہا ہوتا ہے اور اس کا عوام پراثر و
رسوخ اسکی جاگیر کی وجہ سے ہوتا ہے اور وہی ان کے سیاہ اور سفید کا مالک
ہوتا ہے۔ اس وجہ سے عوام اس کے حکم کے علاوہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور
ووٹ لینا تو وہ زمیندار اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور عوام اس کے علاوہ
کسی اور کو ووٹ دینے کا یا نہ دینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تو پاکستان کے
دیہی علاقوں میں سیاست کا کنٹرول ان جاگیرداروں کے پاس ہی ہے تو جس سیاسی
جماعت کے پاس جتنا تگڑا جاگیردار ہوگا اس علاقے میں وہ جماعت اتنی ہی مظبوط
ہوگی۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں ووٹ برادری کی بنیاد پر بھی ڈالا جاتا
ہے اور سیاسی جماعتیں اپنی ٹکٹ دینے سے پہلے ان تمام باتوں کا خیال رکھتی
ہیں۔ ایسی صورتحال میں سیاسی جماعت اور اسکا رہنما ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کے پاکستان کی ۸۰ فیصد آبادی ووٹ بغیر کسی سیاسی سمجھ بوجھ کے
ڈالتی ہے اور یہاں تک کہ ان کو ووٹ ڈالنے کا مطلب بھی نہیں معلوم اور یہ
بھی نہیں معلوم کہ ان کی اس طاقت کو کس مقصد کیلے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اب رہی بات اس ۲۰ فیصد شہری آبادی کی جہاں سے سیاسی جماعتیں ووٹ حاصل کرتی
ہیں تو ہمیں شہروں میں موجود ووٹرز کو دیکھنا پڑے گا کہ وہاں کا ووٹر ان کے
ہاتھوں کیسے استعمال ہوتا ہے۔شہری آبادی میں ووٹر تین اقسام کے پائے جاتے
ہیں۔ پہلی قسم کا شہری ووٹر وہ ہے جو اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کیلیے ان
سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں اور کونسلروں سے جڑے ہوتے ہیں اور اپنے گھریلو
جھگڑوں کے تصفیہ اور تھانہ کلچر سے بچنے کیلیے ان کو اپنا سہارا سمجھتے
ہیں۔ اگر کسی کا بجلی کا یا پانی اور گیس کے بل بھی ٹھیک کروانے ہیں تو وہ
ان کو مل کر اپنے کام کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسکی وجہ تعلیم کی کمی ہے
جس کیوجہ سے ان میں اعتماد کی کمی ہے اور یہ اپنے ان چھوٹے چھوٹے کاموں
کیلیے ان جماعتوں کے ہاتھوں گروی پڑے ہوئے ہیں۔
دوسری قسم کے ووٹر وہ ہیں جو ماحول سے اثر لے کر چلتی ہوا کے ساتھ اپنے
فیصلے کرتے ہیں اور انہی ووٹرز کو کیش کرنے کیلیے الیکشن کا ماحول بنایا
جاتا ہے اور ان کی سیاسی سمجھ بوجھ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اس میں زیادہ
تر کم پڑھے نوجوان شامل ہیں۔
تیسری قسم کے ووٹرز پڑھے لکھے مڈل کلاس اور چند امیر طبقہ سے تعلق رکھتے
ہیں۔ جب ان سے اس سیاستدانوں سے متعلق پوچھا جاتا ہے تو وہ برملا ان کی
کرپشن کا اقرار کرتے ہیں مگر کہتے ہیں ہم کیا کریں ان میں سے ایک چھوٹی
برائی ہے اور ایک بڑی تو اگر ہم نے ووٹ نہ ڈالا تو بڑی برائی جیت جائے گی
اس وجہ سے ہمارا ووٹ ڈالنا ضروری ہے اور اگر ہم نے ووٹ نہ ڈالا تو کوئی نہ
کوئی ہمارا ووٹ ڈال ہی لے گا کیونکہ وہ اس نظام کی کرپشن سے واقف ہیں اسی
وجہ سے ہم اپنا ووٹ ڈالتے ضرور ہیں اور اس کو ضائع نہیں ہونے دیتے تاکہ بڑی
برائی نہ جیت سکے اور ہر کسی نے اپنے لئے برائی کے معیار خود طے کیے ہوئے
ہیں۔اس کے علاوہ میڈیا ان کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہ
بھی اس بہاؤ میں بہہ جاتے ہیں جس بہاو کا دوسرے شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان سیاستدانوں کو اپنی سیاسی حیثیت منوانے کیلیے جب بھی عوام
کی ضرورت ہوتی ہے تو عوام ان کا ساتھ نہیں دیتی کیونکہ عوام ان کی کرپشن کو
اچھی طرح جانتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان کیلیے سڑک پر نکل کر ڈنڈے کھانا
بیکار ہے۔ اس کے مقابلہ میں عوام اپنے عقیدہ سے جڑے ہوئے ہیں اور جب بھی
کوئی استعماری قوت ان کے عقیدہ پر حملہ کرتی ہے تو و ہ سڑکوں پر متحرک نظر
آتے ہیں۔ چاہے وہ افغانستان عراق پر امریکی حملہ ہویا رسول اللہ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی ہو یا اسرائیل کی فلسطینیوں پر جارحیت ہو
آپ کو عوام سڑکوں پر متحرک نظر آئیں گئے۔ آج بھی دنیا بھر کی سروے رپورٹ
یہی بتاتی ہیں کہ پاکستان میں عوام اپنے مسائل کا حل نظام مصطفے صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلمکے نفاذ یعنی خلافت میں ہی دیکھتے ہیں۔
سیاستدانوں کی سوچ اور سیاسی جماعتوں کے مقاصد
انسان کے اعمال اس کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا
کوئی انکار نہیں کرسکتا اور ہر عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی محرک ہوتا ہے اور
اس عمل کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے جس کو حاصل کرنا ہوتا
ہے۔اگر ہم سیاست دانوں کی سوچ جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کی عملی سیاست پر
غور کرنا ہو گا جس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی سوچ انتہائی سطحی ہے
اور حکومت چلانے کے معاملات میں جس کا تعلق براہ راست عوام کے معاملات سے
ہے انہوں نے کبھی گہرائی سے دیکھا ہی نہیں اور سارے فیصلے بیوروکریسی کے
مرہون منت ہیں اور ان کا تعلق صرف دستخط کرنے کی حد تک ہے یہی وجہ ہے کہ
انگوٹھا چھاپ جاگیر دار وزارت تو لے لیتے ہیں مگر منصوبوں کی الف اور ب سے
واقف نہیں ہوتے اور ان کی دلچسپی اپنی کمیشن تک محدود ہوتی ہے جسکی وجہ سے
عوام کی سننے والا کوئی نظر نہیں آتا اور عوام چند گلیوں کے پکا ہوجانے پر
ہی ان کی کارکردگی کو جانچتے رہتے ہیں۔ اور اس سے آگے ان کا مقصد اپنے چند
ورکرز کو نوازنا ہوتا ہے جو ان کی سیاست کو گلی محلوں میں الیکشن ہونے کے
بعد بھی زندہ رکھتے ہیں۔ان سیاست دانوں نے سیاست کا مطلب سرمایہ داریت سے
سیکھا ہے جس میں ان کو صرف اپنا مفاد نظر آتا ہے۔ان سیاست دانوں میں فکری
انحطاط اتنا زیادہ ہے کہ ان کو اس کفریہ نظام کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور
ہمیشہ جمہوریت کی خوبیاں بیان کرتے تھکتے نہیں جبکہ عوام اس نظام سے اُکتا
چکے ہیں کیونکہ پچھلے ساٹھ سالوں میں یہ نظام عوام کی خوشحالی تو دور کی
بات ہے اُن کی بنیادی ضروریات کہ بھی پورا کرنے سے قاصر ہے۔ لوگوں کے
اسلامی جذبات کیوجہ سے یہ ہمیشہ جمہوریت کو اسلام سے ثابت کرنے کی کوشش
کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ جمہوریت کو اسلام سے ثابت کرتے ہیں۔عوام میں کون
نہیں جانتا کہ زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ ہے اور اس کی مرحوم بیوی ہیرے کے
نیکلس پہننے کی بہت شوقین تھی کون سرے محل کے مالکان نہیں جانتا اور یہ کن
کی دولت سے خریدے گئے۔ عوام میں کون نہیں جانتا کہ نواز شریف کو جب اپنی
مرسڈیز منگوانی ہوتی ہیں تو ایک دن کیلیے امپورٹ ڈیوٹی ہٹا لی جاتی ہے۔
مولانا کے کارناموں سے عوام بخوبی واقف ہے اور ان کو بڑی عزت سے مولانا
ڈیزل کے نام سے پکارتی ہے اور سترھویں ترمیم کی منظوری کیلیے ۲۰۰ روپے
سالانہ پر زمین مولانا ہی حاصل کرسکتے ہیں اور مسلمانوں کا خون اتنا سستا
مولانا ہی بیچ سکتے ہیں۔ عوام میں کون نہیں جانتا کہ جماعت اسلامی نے
اسلامی جمہوری اتحاد بنانے کیلیے آئی ایس آئی سے رقم وصولی اور اپنے آپ کو
حکومت میں رکھنے کیلیے مشرف حکومت کو مسلمانوں کے خون سے غداری کی کھلی
چھٹی دی بلکہ اس کے ہر اقدام کو سترہویں ترمیم کے ذریعے قانونی تحفظ دیا
اور عوام جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے قرآن کے نام پر ووٹ ڈالنے والوں کو
امریکی فوج کے آگے بیچ دیا اور ان ہی کی حکومت میں تمام اسلحہ افغانستان
جاتا رہا جو وانا وزیرستان میں ڈرون کے ذریعے ان پر برسایا جا رہا ہے۔ یہ
تمام اعمال ان کی سوچ اور ان کے مقاصد کی عکاسی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ
عوام ان کو اپنا لیڈر نہیں مانتی اور اب نواز شریف سمیت تمام پارٹیاں
عدالتی معاملے کو استعمال کر کے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کر
رہے ہیں۔
پاکستان میں خلافت کے قیام سے قبل سیاسی جماعتوں کے منشور
پاکستان مسلم لیگ (ن)
پاکستان پیپلز پارٹی
جماعت اسلامی
پاکستان مسلم لیگ (ق)
جمعیت علما اسلام (ف)
متحدہ قومی موومنٹ
اگر پاکستان مسلم لیگ کا منشور دیکھا جائے تو اس میں جن مقاصد کا ذکر کیا
گیا ہے ان میں سب سے نمایاں میثاق جمہوریت اور معزول ججوں کی بحالی ہے۔ اگر
پیپلز پارٹی کے منشور میں میثاق جمہوریت کیساتھ ججوں کی بحالی اور ان کے
منشور میں واضح طور پر معشیت کیساتھ سوشلزم کا نعرہ ہے اور مذہب اسلام کا
ذکر ہے۔ جماعت اسلامی عدلیہ کے نعرے کیساتھ اسلامی جمہوریت کی بات کرتی ہے۔
جمعیت علما اسلام بھی اسی قسم کا نعرہ لگاتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) جدید
پاکستان کیساتھ اسلامی اقدار کی بات کرتی ہے۔
خلافت کے قیام کے بعد اٹھائے جانے والے اقدامات
تمام سیاسی جماعتوں کی تین گروپوں میں تقسیم
اہم سیاستدانوں کو خلیفہ کو بعیت دینے کی دعوت
امریکہ اور مغرب کے پالتو ایسے سیاست دان جو مسلمانوں کے قتل میں ملوث ہیں
ان کا قتل
سیاسی جماعتوں کو قرآن و سنت کے مطابق سیاست کرنے کی دعوت
میڈیا پر ہائی لیول کی فکری نشستیں تاکہ ماضی کی کفریہ سیاست کا اثر ختم
کیا جاسکے۔
سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کے کردار اور کرپشن کو بے نقاب کیا جائے۔ |