بھارت میں انصاف کا قتل

بھارت نے ممبئی حملوں کو جواز بنا کر نہ صرف ان مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے انکار کیا۔ جو طویل عرصے کی جہدوجہد کے بعد دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لارہے تھے۔ ایک ممبئی حملے کو بنیاد بناکر پاکستان کے خلاف مسلسل بہتان تراشی کی جاتی رہی۔ ممبئی حملے کو اب تقریباً سوا سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ لیکن بھارت میں اس مقدمے میں بہت زیادہ پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ گزشتہ دنوں اس واقعے کے واحد زندہ ملزم اجمل قصاب نے یہ بیان دے کر واقعے کی پول کھول دی تھی کہ ان سے جو اعترافات کرائے گئے ہیں۔ وہ تشدد کا نتیجہ تھے۔ انہوں نے تمام الزامات سے انکار کردیا تھا۔ اس کیس میں ایک مزید پیش رفت یہ ہوئی تھی کہ ہندوستان کے وزیر داخلہ پی چدامبرم نے کہا تھا کہ 26 نومبر 2008 کو ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ کرنے والوں کو جو لوگ ہدایتیں دے رہے تھے ان میں سے ایک ہینڈیلر ہندوستانی ہو سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا تھا کہ اس مشتبہ شخص کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ جوں جوں یہ مقدمہ عدلیہ میں آگے بڑھ رہا تھا۔ اس سے اس بات کے شواہد مل رہے تھے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ تھا۔ جس کو پاکستان پر تھوپ کر بھارت امریکہ اور دنیا کی ہمدردیاں سمیٹ رہا تھا۔ اس حملے کے دوران بھارتی پولیس افسر ہیمنت کرکرے کو جس انداز سے قتل کیا گیا تھا۔ وہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ۱۱ فروری کو اس مقدمے کے وکیل شاہد اعظمی کو ان کے دفتر میں قتل کر کے اس مقدمے کو مزید پراسرار بنا دیا ہے۔ اور اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ یہ سب کھیل بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہے۔ جو اس کے تمام ثبوت مٹا رہی ہے۔ اس بات کا خدشہ بھی موجود ہے کہ مبینہ ملزم اجمل قصاب کو بھی قتل کردیا جائے۔ اس خطرے کا کئی بار ملزم بھی اظہار کرچکا ہے۔

ممتاز شاعر کیفی اعظمی اور اداکارہ شبانہ اعظمی کے رشتہ دار شاہد اعظمی ایک جواں ہمت وکیل تھے۔ جو بھارت میں ان مقدمات کو لینے کی شہرت رکھتے تھے۔ جو کوئی اور وکیل نہیں لیا کرتا تھا۔ وکیل شاہد اعظمی کو ان کے دفتر میں فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔ اعظمی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں اس سے پہلے کئی مرتبہ دھمکیاں بھی مل چکی تھیں۔ قتل کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ چار افراد ممبئی کے کرلا ٹیکسی مینس کالونی علاقے میں واقع شاہد اعظمی کے دفتر میں آئے۔ انہوں نے آفس سٹاف کو بتایا کہ وہ اپنے ایک مقدمہ کے سلسلہ میں اعظمی سے ملاقات کرنے آئے ہیں۔ اعظمی جب دفتر میں داخل ہوئے تب حملہ آوروں نے ان سے کچھ دیر بات کی اور پھر اچانک ریوالور نکال کر انتہائی قریب سے ان پر چار فائر کیے۔ فائرنگ کے بعد وہ چاروں فرار ہوگئے۔ اعظمی کو راجہ واڑی ہسپتال لے جایا گیا لیکن ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔ کرلا پولیس سٹیشن کے سینئر پولیس انسپکٹر باگوے تو ابھی تفتیش میں مصروف ہیں۔ لیکن پولیس کرائم برانچ کے ذرائع نے شاہد اعظمی کے قتل کے پیچھے مافیا سرغنہ چھوٹا راجن کا ہاتھ ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ چھوٹا راجن پر اس سے قبل ممبئی بم دھماکوں کے کئی ملزمین کو ہلاک کرنے کا الزام عائد ہو چکا ہے اور کئی مرتبہ قتل کرنے کے بعد انہوں نے قتل کا اعتراف بھی کیا تھا۔ شاہد اعظمی کو اس سے قبل چھوٹا راجن گینگ سے علیحدہ ہوئے گینگسٹر روی پجاری کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکی ملی تھی جس کی انہوں نے مقامی پولیس سٹیشن میں شکایت درج بھی کرائی تھی۔

ایڈوکیٹ اعظمی اس وقت ممبئی حملوں کے انڈین ملزم فہیم انصاری کے کیس کی پیروی کر رہے تھے۔ فہیم پر الزام ہے کہ انہوں نے ممبئی کی ریکی کر کے اور اس کا نقشہ بنا کر نیپال میں لشکر طیبہ کے اراکین کو دیا تھا۔ اعظمی اس کے علاوہ گیارہ جولائی سن دو ہزار چھ میں ہونے والے سلسلہ وار ٹرین دھماکوں کے ملزمین کے کیس کی بھی پیروی کر ہے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ممبئی سے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار دو کشمیریوں کا کیس بھی لڑ رہے تھے۔ اکتیس سالہ ایڈوکیٹ شاہد اعظمی کو بابری مسجد انہدام کے بعد ممبئی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادت کے دوران ملزم قرار دے کر پولیس نے ٹاڈا قانون کے تحت گرفتار کر کے جیل بھیج دیا تھا۔ سات برس انہیں ایک جھوٹے الزام میں جیل میں رکھا گیا۔ سن بانوے سے سن نناوے تک اعظمی جیل میں رہے لیکن پھر انہیں سپریم کورٹ نے بری کر دیا۔ جس کے بعد اعظمی نے قانون کی پڑھائی مکمل کی اور انہوں نے بحیثیت کریمنل وکیل کے ایسے مسلمان ملزمین کا کیس لینا شروع کیا جو خود کو بے قصور اور پولیس کی مبینہ زیادتی کا شکار بتاتے تھے۔

اعظمی ایسے انتہائی حساس کیس میں مسلم ملزمان کے کیس کی پیروی کے لیے مشہور تھے جن کے کیس کو اکثر وکلاء ہاتھ لگانے سے انکار کر دیا کرتے تھے۔ سن ترانوے بم دھماکے کی پیروی کرنے والی دفاعی وکیل فرحانہ شاہ نے شاہد اعظمی کی موت کو انصاف اور قانون کی موت قرار دیا۔ ممبئی حملہ کیس میں بھارتی وزیر داخلہ مسٹر چدامبرم نے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ممبئی حملوں میں بھارتی شہری کے ملوث ہونے کے بیان نے صورتحال کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ انہوں نے اس مشتبہ شخص کے بارے میں کہا : '' وہ کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے جس نے پاکستان سے یہاں آکر ایک لمبے عرصے تک رہ کر یہاں کا لب و لہجہ اور زبان کی خصوصیات حاصل کر لی ہوں۔ یا یہ کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے جو ہندوستان سے پاکستان گیا ہو اور وہاں کسی شدت پسند تنظیم میں شامل ہو گیا ہو۔''۔مسٹر چدامبرم نے کہا کہ 26 نومبر کے حملے میں ایک ہینڈلر کے بارے میں ایک عرصے سے شبہ ہے کہ وہ ہندوستانی ہو سکتا ہے۔ وہ ابو جندل کے نام سے بات کر رہا تھا جو اس کا اصل نام نہیں ہے۔ تاہم مسٹر چدامبرم نے کہا کہ وہ اس کے بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کر سکتے۔ '' ہم واضح طور پر اس شخص کی شناخت تب تک نہیں کر سکتے جب تک ہمیں اس کی آواز کا نمونہ نہیں مل جاتا۔''ابو جندل کا لب و لہجہ ہندوستانیوں سے ملتا تھا اور اس نے اپنی بات چیت کے دوران انتظامیہ کے لیے '' پرشاسن '' اور مثال کے لیے '' اودہرن '' جیسے خالص ہندی کے متعدد الفاظ استعمال کیے تھے۔ ہندوستان میں بی جے پی اور شیو سینا جیسی جماعتیں کئی بار یہ سوال اٹھا چکی ہیں کہ ممبئی حملے جیسا واقعہ مقامی شدت پسندوں کی مدد کے بغیر انجام نہیں دیا سکتا۔ پاکستانی حکام بھی کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان کو اس حملے میں مقامی شدت پسندوں کے ملوث ہونے کی گہرائی سے تفتیش کرنی چاہیے۔ بھارت میں شاہد اعظمی کا قتل انصاف کی موت ہے۔ بھارت کو مان لینا چاہئے کہ اب اس ٹوپی ڈرامے میں کوئی جان نہیں رہی ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418759 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More