گری راج سنگھ نے تو اِس
بار حد کردی۔گوکہ انہوں نے سونیا گاندھی اورکانگریس کامضحکہ اُڑایا
مگراندازتمسخرکچھ ایساسامنے آگیاجوکروڑوں ہندوستانیوں کیلئے ہی نہیں بلکہ
افریقہ کے سیاہ فام شہریوں کامذاق اُڑانے یا ان کی دانستہ طور پر توہین
کرنے کا بھی موجب بن گیا۔واقعی مودی کے نور نظر گری راج کی ’گندی گندی
باتیں‘ اِس باراخلاقی حدود و قیودسے آزاد بن کر کچھ اس طرح سامنے
آگئیں،جوعام ہندوستانیوں کے چہرے پر زور داراندازمیں ایک غیراخلاقی طمانچہ
رسیدکرنے کے مترادف ہے۔نہ صرف یہ کہ’ وزیربے لگام‘کا مکروہ تبصرہ ’کالی
چمڑی‘والے کروڑوں ہندوستانی عوام کیلئے شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے
کامقام ہے بلکہ افریقی ملک نائجیریا کے سیاہ فام لوگوں کی اس سے بڑی بے
عزتی اورتوہین بھی ہوئی ہے لیکن داد دی جانی چاہئے ان ’موٹی چمڑی ‘والے
لوگوں کی جرأت کوجنہوں نے غیرمعمولی جرأت کامظاہرہ کیااور ’وزیربے لگام‘کی
’’جرأتِ بے شرمی‘‘ کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرلیا۔کیا بھی کیا جاسکتاہے ،وہ
بھی تب جبکہ گری راج سنگھ کوسرکاربہادر کی مکمل سرپرستی اور خاموش حمایت
بھی حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ موصوف نے صورتحال کو سنبھالنے کی ایک ناکام کوشش
کے تحت توہین آمیز بیان کو’ آف دی ریکارڈ‘ بتایا۔دفاع کا یہ واقعی عجیب و
غریب طریقہ تھااور تو اورمعذرت خواہی کا یہ اندازبھی دیکھئے کہ وہ کچھ یوں
گویا ہوئے کہ ’’ اگر سونیا گاندھی کو اس سے دکھ پہنچا ہے تو وہ اپنے بیان
کیلئے ان سے معافی مانگنے کو تیار ہیں‘‘۔گویا وزیر نے یہ نہیں قبول کیا کہ
انہوں نے جو کہا تھا وہ غلط تھا۔اس سے بھی بڑی بے شرمی کی بات یہ ہے کہ
نائجریاسے اِس تبصرہ کیلئے کوئی معافی نہیں مانگی گئی اور نہ ہی افسوس کو
لازم سمجھا گیا۔اُس نائجیریا سے جس کے ساتھ ہندوستان کے دیرینہ تعلقات ہیں
اور یہ بھی کہ نئی دہلی میں متعین نائجیریائی سفیر کی جانب سے گری راج سنگھ
کے نسلی تبصرہ پر سخت اعتراض بھی سامنے آچکاہے۔ایسے میں نائجیریاکے ساتھ
بالخصوص اور افریقی ممالک کے ساتھ بالعموم آئندہ دنوں میں ہندوستان کے
تعلقات کیسے رہیں گے،یہ کہا نہیں جاسکتا۔البتہ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ
اس سال کے آخر میں ہندوستان افریقی ممالک کی کانفرنس کی میزبانی کرنے والا
ہے اور اس کانفرنس میں حصہ لینے کیلئے تمام 54 افریقی ممالک کے لیڈروں کو
مدعو بھی کیا گیا ہے۔سال 2006 میں چین کی راجدھانی بیجنگ میں منعقد چین
افریقہ تعاون پر منعقدتقریب کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا جب افریقی لیڈران کا
افریقی براعظم کے باہرکہیں مجمع دیکھنے کوملے گا۔ چنانچہ اس پس منظرمیں گری
راج سنگھ کی ’بکواس‘کا افریقہ کے ساتھ ہندوستان کے دیرینہ مراسم پر کیا اثر
پڑے گا،یہ بھی دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ویسے برسوں اور دہائیوں سے افریقی ممالک
میں مقیم ہندوستانیوں کو مودی کے’نورنظر‘ نے جس طرح کا صدمہ پہنچایا ہے ،وہ
بھی اپنے آپ میں ناقابل بیان ہے۔ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ غیرمقیم
ہندوستانیوں کاایک بڑا طبقہ جو نائجیریا اور دیگر افریقی ممالک میں سکونت
پذیر ہے،وہ امکانی رد عمل کے خوف کا نفسیاتی طورپرشکارہوگیاہے۔
ہر چند کہ برطانیہ سے افریقہ تک گری راج سنگھ کے غیر اخلاقی طمانچہ کی گونج
سنی جارہی ہے مگریہ بھی سچ ہے کہ گری راج سنگھ کی بد اخلاقیوں سے نہ
بھارتیہ جنتاپارٹی شرمسارہے اور نہ ہی نریندر مودی کو کسی طرح کی خفت کا
احساس ہو رہاہے۔یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے بھی خاموشی اختیار کررکھی ہے اور
وزیر اعظم بھی اِس معاملہ میں معنی خیز انداز میں تجاہل عارفانہ سے کام لے
رہے ہیں۔
گری راج نے سوال کیا تھا کہ’’ اگر راجیو گاندھی گوری چمڑی والی سونیا
گاندھی کے بجائے کالی چمڑی والی کسی نائجیریائی خاتون سے شادی کرتے تب بھی
کیا کانگریس پارٹی اُس عورت کو اپنا لیڈر تسلیم کرتی‘‘؟بہ ظاہرمودی سرکارکے
’’وزیر بے لگام‘‘نے یہ سوال کانگریسیوں سے کیا مگربہ نظر غائر ان کے اس دو
سطری جملہ کا جائزہ لینے والے لوگوں کاعام خیال ہے کہ گری راج سنگھ کا یہ
ریمارکس صاف طورپر نسلی تعصب کابھی آئینہ دار ہے اور ساتھ ہی ساتھ کروڑوں
سیاہ رنگت والی خاتون کیلئے بھی یہ تبصرہ توہین آمیزہے۔ایسے میں یہ ایک
فطری سوال کھڑا ہوجاتا ہے کہ جس رکیک تبصرہ کوایک وسیع تر حلقہ میں توہین
آمیزیانسلی امتیازات پر مبنی کہا جارہاہے ،اُسے بھارتیہ جنتاپارٹی کس نگاہ
سے دیکھتی ہے۔بھارتیہ جنتاپارٹی کا طرزعمل بجا طورپر اس خیال کو تقویت
پہنچانے کا باعث ہے کہ اس طرح کی ’’گندی گندی باتیں‘‘پارٹی کو بہت اچھی
لگتی ہیں۔صرف اس وجہ سے نہیں کہ اس سے پارٹی سرخیوں میں آجاتی ہے یا پارٹی
کے شدت پسندانہ فکروخیال کو ایسے بیانات سے مہمیز حاصل ہواکرتا ہے،بلکہ اِس
وجہ سے بھی کہ بھارتیہ جنتاپارٹی میں ایسی ’’گندی گندی‘‘ باتیں کہنے یااِن
باتوں کو جائز ٹھہرانے کی ایک پختہ روایت بھی رہی ہے۔
گری راج سنگھ کے بیان پر وزیر اعظم نریندرمودی کی خاموشی فطری بھی ہے اور
روایتی بھی۔اُن سے جو لوگ یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ایسے بیانات کو پسند نہیں
فرمائیں گے اور اعلانیہ طورپر ایسے مکروہ قول کی مذمت کے ذریعہ’’راشٹریہ
دھرم‘‘نبھائیں گے،اُنہیں چاہئے کہ وزیر اعظم کی سابقہ کارگزاریوں پر ایک
طائرانہ نگاہ دوڑائیں اور سنجیدگی سے غور کریں کہ کب انہوں نے کس معاملہ
میں عملی لحاظ سے ’’اعلیٰ ظرفی ‘‘کا مظاہرہ کیا ہے؟بات نکلے گی تو دور تلک
جائے گی……مودی مہاراج جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے،اُس وقت انہوں نے ’’راج
دھرم‘‘ کیسے نبھانے کی کوشش کی ،یہ جگ ظاہر ہے۔آج وہ اور ان کی سرکار اٹل
بہاری باجپئی کی عظمت کے گن بھی گارہی ہے اور انہیں ملک کااعلیٰ ترین
ایوارڈ’’بھارت رتن‘‘دے کر اُنہیں خراج تحسین پیش کرناواجب بھی سمجھتی ہے
مگر کیا اِس سچائی کو جھٹلایا جاسکتا ہے کہ جب گجرات میں مسلمانوں کا قتل
عام ہورہا تھا اور بے گناہ و معصوم مسلمانوں کی حفاظت میں ریاست کی مودی
سرکار ناکام تھی تو اُس موقع سے یہی باجپئی تھے،جنہوں نے مودی کو ’’راج
دھرم‘‘ نبھانے کا مشورہ دیا تھا۔برسبیل تذکرہ اِ س وجہ سے ماضی سے روشنی
حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ جولوگ وزیر اعظم نریندر مودی سے یہ امید
لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اب ’’راشٹردھرم‘‘نبھائیں گے اور بے لگام وزراء پر
لگام بھی کسیں گے،اُن کی خوش فہمیوں کی حقیقت کو سمجھنا آسان ہو سکے۔
یوں بھی وزیر اعظم نریندر مودی کی کارگزاریوں کا تذکرہ ہواور گجرات کے
مسلمانوں کی نسل کشی موضوع گفتگو نہ بنے،یہ ممکن ہی نہیں۔اس وجہ سے کہ
گجرات کا مسلم کش فساد اورنریندر مودی کی شخصیت کے درمیان ایک ایسا ہی
خاموش قسم کا رشتہ موجود ہے،جسے ہنوز کوئی نام نہیں دیاجاسکاہے۔ آج
اگر’’کالی چمڑی ‘‘والے کروڑوں ہندوستانیوں اور افریقی ممالک کے شہریوں کو
گری راج سنگھ کے متعصبانہ تبصرہ سے دکھ پہنچ رہا ہے تو اُنہیں یہ سب کچھ
برداشت کرنا ہی پڑے گاکیونکہ جب بھارتیہ جنتاپارٹی اور سرکار کا موقف بالکل
ہی واضح ہو تو ایسے میں ہائے توبہ سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔گری
راج سنگھ یوں بھی نریندرمودی کے خصوصی انعام یافتہ وزیر ہیں اور انہیں
اکرام سے نوازنے کی وجہ بھی غالباًیہی رہی کہ موصوف نے مودی کے سیاسی
مخالفین کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیا تھا۔گزشتہ سال لوک سبھا انتخابات
کے دوران حاجی پور میں ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے گری راج سنگھ نے
یہ اعلان کیا تھا کہ نریندر مودی کے مخالفین کیلئے ہندوستان میں کوئی جگہ
نہیں ہے اور انہیں پاکستان چلے جانا پڑے گا۔جب گری راج سنگھ یہ کہہ رہے
تھے، تب بی جے پی کے سابق صدر نتن گڈکری بھی اسٹیج پر جلوہ افرازتھے مگر
گڈکری کوبھی گری راج کا یہ بیان اُن معنوں میں پسند آیاکہ جمہوری تقاضوں کا
گلا گھونٹ کر رکھ دینے والے اس بیان کے خلاف انہیں بھی لب کشائی کی جرأت نہ
ہوئی۔معاملہ صرف گڈکری کی خاموشی کا نہیں ہے بلکہ دلچسپ حقیقت تو یہ بھی ہے
کہ پارٹی کے فورم سے بھی گری راج کے متذکرہ بیان کی نہ تو کھل کر مذمت کی
گئی اور نہ ہی کوئی ایسی تنقید جس سے یہ پیغام عوام تک پہنچ سکے پارٹی کا
وہ مزاج نہیں،جس کی عکاسی گری راج کے خیالات سے ہوتی ہے۔البتہ سیاسی
مخالفین کے شور مچانے پر ایک دو سیاسی لیڈروں کی زبانی یہ کہہ کر معاملہ کو
دفن کرنے کی کوشش کر لی گئی کہ ایسا گری راج کو نہیں کہنا چاہئے۔کوئی
بڑاسیاسی طوفان نہ آجائے،اس لئے شخصی طورپر چند لوگوں کے ذریعہ یہ تو
بتادیا گیا کہ جو نظریہ گری راج سنگھ کا ہے،وہ مزاج پارٹی کا نہیں ہے مگر
نریندر مودی کوخود گری راج کی یہ ’’گندی گندی ‘‘اور’’بہکی بہکی ‘‘ باتیں
اچھی ہی نہیں لگ گئیں،بلکہ وہ گری راج سے اتنے متاثر بھی ہوگئے کہ
نتیجتاًانہوں نے وزیر کی ایک عدد کرسی بھی تفویض کردی۔ یقیناکسی بھی وزیر
اعظم کیلئے اپنے پسندیدہ چہروں کو وزارتی کونسل میں جگہ دینے کی مکمل آزادی
ہے اور یہی وہ آزادی تھی،جس کا استعمال کرتے ہوئے مودی نے بھی گری راج
کااقبال بلند کیا۔صرف گری راج ہی کیوں،مظفر نگر کے فساد کے ایک ملزم کو بھی
اس سرکارمیں نوازا گیااور یہ سب کچھ اس نعرہ کو سامنے رکھ کرہواکہ مودی
سرکار’سبھوں کا ساتھ اورسب کا وکاس‘ کرنے والی سرکارہوگی۔گویا دوسرے لفظوں
میں یہ سمجھ لینا ہماری مجبوری ہوسکتی ہے کہ ’اچھے دن ‘ ان سبھوں کے آنے لگ
گئے جنہوں نے کسی نہ کسی شکل میں محبت کی جگہ’نفرت‘کو اپنانے کی کوشش کی۔
اچھی باتوں کوپسندنہ کرنا،صحتمندقدروں کو فروغ نہ دینا،بقائے باہم کے
فلسفوں میں یقین نہ رکھنااور فرقہ وارانہ یکجہتی کو تقویت پہنچانے کی بجائے
مذہبی خطوط پر معاشرہ میں تقسیم کی لکیریں کھینچنااگرواقعی بھارتیہ
جنتاپارٹی کو پسند نہ ہوتا اور خود نریندر مودی ایسے نظریہ کو بری نظر سے
دیکھنے میں یقین رکھتے توآج ملک کی وہ تصویر ہرگز نہیں اُبھرتی،جو دیکھنے
کو مل رہی ہے۔حقیقت تو یہ بھی ہے کہ بی جے پی کی سرکار آنے کے بعد ایسے ’بے
لگام‘ رہنماؤں کو سزا دینے کے بجائے اعزاز و اکرام سے نوازنے یاان کی پیٹھ
تھپتھپانے کی ہی کوشش کی گئی ہے، جو اس خیال کو تقویت پہنچانے کا باعث بھی
بن رہاہے کہ پارٹی اور سرکار دونوں غیر شائستہ اور غیر مہذب لب و لہجہ
اختیار کرنے والوں کے ساتھ صاف طورپر کھڑی ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو دہلی کے
اسمبلی انتخابات سے عین قبل’رام زادی‘ وزیر سادھوی نرنجن جیوتی کے’حرام
زادہ ‘والے بیان کی خبر لی گئی ہوتی یا تب نہیں تو اب گری راج کے’ کالی
چمڑی‘ والے تبصرہ پرپارٹی یا سرکار غنودگی سے جاگ اُٹھتی۔
سونیا گاندھی کے خلاف نسلی تبصرہ کے بہانے تمام ’کالی چمڑی‘ والوں کا مضحکہ
اُڑانے کے باوجود اگر پارٹی،سرکاراورخود وزیر اعظم نریندر مودی خاموش ہیں
توکوئی حیرت انگیزسانحہ نہیں ہے۔گجرات سے دہلی تک کا خود مودی کا سیاسی سفر
اور ان کے ’کارناموں‘کو سامنے رکھ کریہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ سلسلے رکیں گے
نہیں بلکہ بہ غرض ضرورت مزید اشتعال انگیزی کا کمال دکھانے کی کوشش کی جائے
گی۔جہاں تک نریندر مودی کے ذریعہ بعض مواقع پر’اناپ شناپ‘بکنے والوں کو
نصیحت کئے جانے کا تعلق ہے،تو یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ بہ حیثیت
وزیر اُن کی یہ مجبوری کا حصہ قرار پاتا ہے کہ وہ اُس موقع پر زبانی جمع
خرچ سے کام لے کر معاملہ کی سنگینی کو رفع کرنے کی کوشش کریں،جب جب یہ
محسوس ہو کہ پانی اب سر سے اونچا ہورہا ہے۔یعنی’’ہاتھی کے دانت دکھانے کے
اور کھانے کے اور‘‘والامعاملہ ہے کہ ہندوستانی قوم کو مطمئن کرانے کی بہ
غرض ضرورت کوشش کر لی جائے مگر سرکار،پارٹی اور خود مودی اُسی لائن پر چلیں
گے،جو آر ایس ایس کی مخصوص لائن رہی ہے۔کل ملا کر یہ کہاجاسکتا ہے کہ دنیا
کی عظیم طاقت کے طورپر خود کو متعارف کرانے کی کوشش کرنے والے ہندوستان
کواب اگر عالمی افق پر ایک ’انتہائی تنگ نظر‘مملکت کے طورپرخدانخواستہ کوئی
نئی شناخت مل جاتی ہے توہمیں سرجھکاکراسے قبول کرلینے کیلئے بھی تیار
رہناچاہئے۔
|