کے پی میں مزدوروں کے مشکلات
(Hafiz Abdur Rahim, Karachi)
خیبر پختونخواہ میں جب سے
پی ٹی آئی کی حکومت برسراِقتدار آئی ہے۔مزدور طبقہ کے لئے آئے روز نت نئے
مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔یہ طبقہ دِن بھر کارخانوں اور فیکٹریوں میں اپنا خون
پسینہ ایک کرکے اپنی نئی نسل کی بہترین تعلیمی تربیت کیلئے کوشاں رہتا
ہے۔اِس طبقہ میں اکثریت اَن پڑھ یازیادہ سے زیادہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ تک
پڑھے ہوتے ہیں ۔یہ لوگ جب اپنے بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں اور قلم دیکھتے
ہیں ۔تو اُن کے دلوں میں خوشی کا احساس اور چہروں پر طمانیت جھلکتی ہے۔ جب
اپنے بچوں کی بہتر تعلیمی کارکردگی اور جماعت یا سکول میں بہتر پوزیشن اور
اعزاز سے باخبر ہو جاتے ہیں۔تو ان بچاروں کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی۔بچوں
کی بہترین کارکردگی اُن کے ذہنوں میں ایک بہتر مستقبل کی امید دلاتی ہے۔ایک
طرف یہ ملک اور خصوصاََ یہ صوبہ صنعتی لحاظ سے بدامنی یا لوڈشیڈنگ کی وجہ
سے پہلے سے زبو حالی کا شکار ہے۔دوسری طرف اگر اِن کارخانوں اور صنعتوں میں
مزدوروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہو۔اُن کی نئی نسل کو بہترطریقے سے
پھلنے پھولنے کے مواقع نہیں ملتے ۔ تو پھر صنعتی زوال کو کوئی روکنے نہیں
پائے گا۔
خیبرپختونخواہ کے مزدوروں کو پاکستان تحریک انصاف سے کیا شکایات ہیں ۔ جو
کہ فی الوقت ھر مزدور اور ان کے بچوں کیلئے کام کرنے والا ھر ملازم حیران و
پریشان ہیں۔مزدوروں کے بچوں کی تعلیمی حصول میں کئی رُکاوٹیں حائل ہیں ۔
اِن رُکاوٹوں کے پیدا کرنے والے باالواسطہ یا تو خود وزیراعلی پرویز خٹک ہے
یا بلاواسطہ صوبائی وزیر شاہ فرمان ہے۔ جنہوں نے اس محکمہ کی اصلاح کے نام
پر اتنا بگاڑ پیدا کیا ہے۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے مسئلہ کی شکل
دھار گئی ہے۔
مزدوروں کے بچوں کیلئے قائم کیے گئے ورکِنگ فوکس سکولز اور کالجز میں ھر
سال اِن بچوں کیلئے کتابیں ، یونیفارم اور کھیلوں کے آلات وغیرہ مہیا کیے
جاتے تھے۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے۔ تو سکولوں ،کالجوں اور پولی
ٹیکنیک اداروں کو اِن اشیاء کی فراہمی بند کردی گئی ہے۔ مزدور بھی کتابوں
کی عدم فراہمی پر حیران و پریشان ہیں۔ صوبائی حکومت اِن اشیاء کی فراہمی
کیلئے پچھلے دور میں کی گئی مالی بے ضابطگیوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اِس
کے ساتھ ساتھ اس سسٹم کیلئے جو ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کی گئی تھی۔ معلوم
ہوا ہے۔ کہ وہ بھی ٹرانسپورٹروں اور ٹھیکیدارحضرات کو پچھلے تین چار ماہ کے
بِلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے احتجاجاََ بند کر دیا گیا ہے۔اب اگر صوبائی
حکومت کرپشن اور بے ضابطگیوں کا واویلہ مچا رہا ہے۔اور اِس کی خاطر پورا
سسٹم روکا ہوا ہے۔ ایک مزدور اگراپنے پیسوں سے بچوں کیلئے کتابیں اور
یونیفارم خرید سکتا تو پھر اِن سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرح اپنے بچوں
کو بہترین تعلیمی اداروں میں داخل کرواتے ۔ حیرانگی کی بات یہ ہے۔ کہ نئی
تعلیمی سال کے آغاز سے قبل سارے مزدوروں کو یہ کہا گیا۔کہ آپ بینکوں میں
اپنے کھاتے کھولے۔اور یہ اس لئے کہ نئے سال کیلئے کتابوں اور یونیفارم کے
پیسے سب کو بینک اکاونٹ کے ذریعے بھجوائے جائیں گے۔جن سے یہ مزدور اپنے
بچوں کیلئے یہ اشیاء خریدیں گے۔تا دمِ تحریر نہ تو ان کے اکاونٹس میں اِن
اشیاء کو خریدنے کیلئے پیسے بھیجے گئے۔اورنہ اب تک ان بچوں کو کتابیں دی
گئی۔ یہ دو عوامل تو بچوں اور اِن کے والدین کیلئے سال کے شروع سے پریشانی
کا باعث بن رہے ہیں ۔لیکن اس سے بڑا مسئلہ اساتذہ اور دیگر ملازمین کے
کنٹریکٹ کے خاتمے کا ہے۔ بچوں کا پچھلا سال بھی اِس اونچ نیچ یعنی برطرفیوں
اور بحالیوں کا نذر ہو گیا۔جہاں تک میری معلومات ہیں ۔ اِس وقت اگر کوئی
گروہ سب سے زیادہ اس ملک میں مظلوم اور پریشان ہے۔ تو وہ خیبر پختونخواہ
میں ورکرز ویلفیئر بورڈ کے تحت کام کرنے والے اساتذہ اور دیگر ملازمین
ہیں۔کبھی تنخواہوں کی فکر ہوتی ہے۔تو کبھی نوکری کی بحالی اور کنٹریکٹ کی
تجدید کیلئے وزاراء کے سامنے جھولیاں پھیلانے پڑتے ہیں۔ اب مثلث کے تینوں
زاویے متاثر ہورہے ہیں ۔والدین پریشان، بچوں کے وقت کا ضیاع اوراساتذہ اپنے
مطالبات کے ساتھ منصف کے در پر خیمہ زن ہیں۔ہماری بدقسمتی یہ ہے۔کہ معمارانِ
قوم انصاف کیلئے سڑکوں پر ہیں ۔اور نااہل و جعلی لوگ رہنمائی کرتے ہیں ۔صوبائی
حکومت نے پچھلے سال تو اربوں کے ترقیاتی فنڈز کو ضائع کر دیا۔ورنہ خیبر
پختونخواہ میں ایسے صنعتی علاقے آباد ہیں ۔اِن میں نئے نئے سکولز اور کالجز
بنوائیں۔ان مزدوروں کے بچوں کیلئے یونیورسٹیاں بنائیں۔جن کیلئے صوبائی
حکومت کے پاس ریگی للمہ میں وسیع اراضی بھی موجود ہیں۔ایک تو یہ کہ موجودہ
سکولزان کے بچوں کیلئے ناکافی ہیں ۔ مزید یہ کہ اِن سے روزگار کے نئے مواقع
پیدا ہونگے۔ترقی صرف بگڑتی اصلاح سے نہیں لائی جا سکتی ۔ بلکہ اس کیلئے کچھ
عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہیں ۔یہاں پر اس بات کو بھی شامل ِتحریر
کرتا چلوں ۔کہ مزدوروں کو حقوق دینے کی بجائے اُن کا استحصال ہو رہا ہے۔اِن
مزدوروں کو خدشہ ہے۔ کہ کہیں ہمارے بچوں کا تعلیمی سال ضائع نہ ہو
جائے۔ایسا نہ ہو کہ زیادہ دیر ہونے کی وجہ سے سرکاری سکولوں میں بھی کتابیں
کم نہ ہو جائیں ۔اس غرض سے غالب امکان یہ بھی ہے۔کہ کارخانوں اور صنعتوں
میں کام کرنے والے مزدور اپنے بچوں سمیت صوبے کے سارے شہروں میں سڑکوں پر
احتجاج کیلئے نکلیں گے۔جس سے مزید نقصان کا اندیشہ ہے۔ |
|