ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانیؔ
سننے میں عجیب لگتاہے کہ مادروطن کو اب مسلم قیادت کی ضرورت ہے ایک طرف تو
امت مسلمہ ہندکی مجموعی حالت زار اور دوسری جانب دنیا بھر میں جاری دشمنان
اسلام کی ریشہ دوانیاں اور خود اندرون ملک مسلمانوں کے خلاف ایک سرگرم
ماحول۔ ایسے میں پورے ملک کے لئے مسلمانوں کی قیادت کی بات سوچنا ہی امر
محال ہے جب کہ خود امت مسلمہ کو ہی کوئی قائد میسر نہ ہو رہا ہو ۔مگر حالات
جو بھی ہوں ملک میں سماجی انصاف کے قیام ، امن وامان اور ترقی کی دوڑ میں
تمام اہل وطن کی شرکت بلا لحاظ تفریق مذہب و ملت ، زبان و علاقہ ہو یہ اب
تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب کہ سیاسی قیادت کے منصب پر ایماندار مخلص اور اپنی
بنیادوں پر کھڑے ہوئے خدا ترس مسلمان فائزہوں۔
آزادیٔ وطن کے بعد اب تک ملک میں سیکولرزم اور سوشلزم کا ڈھول خوب پیٹا گیا
۔ سماجی انصاف کے قیام کے نعرے بھی خوب لگے۔ سب کو مذہبی آزادی کے وعدے بھی
خوب ہوئے ، اظہاررائے کی آزادی ، قومی یکجہتی کی باتیں ، غریبی مٹاؤ کے
اعلانات ، ترقی کے منصوبے ، نئی نئی فلاحی اسکیموں کا اعلان سب کچھ ہوتا
رہا ۔ امیدیں بار بار ٹوٹیں مگر بار بار جگائی گئیں ایک سیاسی پارٹی لمبے
عرصے تک حکمرانی کرتی رہی انہیں سب نعروں اور دعوؤں کی فصلیں کاٹتی رہی ۔
مگر غریب اور غریب ، مالدار اور مالدار ہوتا چلا گیا۔ غریب اور امیر کے
طبقات اور سائز میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ حدیہ بالآخر پہلے سے موجود مذہبی
، ذات ، برادری، لسانی اور علاقائی طبقات کے علی الرغم ایک غریب طبقہ اور
ایک امیر طبقہ بھی وجود میں آگیا۔ ہرنئی فلاحی اسکیم ، ترقی کا ہر منصوبہ
امیروں کے ہی کام آتا رہا اور غریب محروم ہی رہا۔ ملک نے ترقی بہت کی ۔
مادروطن کی کا یا پلٹ گئی مگر اس ساری ترقی کا کوئی فائدہ غریبوں تک نہیں
پہنچا۔ اور آخر کا رملک کے 80فیصد عوام 20روپے یومیہ آمدنی تک محدود ہوکر
رہ گئے ۔ ایک طرف غربت کا یہ عالم دوسری طرف فرقہ وارانہ چقلشوں میں روزآنہ
اضافہ ، ہندومسلم، ہندو سکھ، ہندو عیسائی فسادات کا لامتناہی سلسلہ ،
ہزاروں انسانی جانوں کا اتلاف ، ہزاروں کروڑ کی جائیدادوں کا جلایا جانا ۔
اور دھیرے دھیرے سب برابر ہندوستانیوں کا نعرہ دینے والے خود توسیکولر کے
سیکولر ہی رہے مگر ملک کو فرقہ وارانہ خطو ط پر تقسیم کردیا۔ اور اب ملک کی
ہر پالیسی انہیں فرقہ وارانہ خطوط پر طے کی جاتی ہے ۔ فرقہ واریت کی یہ آگ
یہیں نہیں رکی بلکہ آگے بڑھ کر اسی آگ کے دوسرے شعلے بلند ہوئے تو ان کا
نام دہشت گرد ی رکھ دیا گیا اور اس کے مورد الزام بھی یا تو مسلمان ٹھہرے ،
یا سکھ ٹھہرے اور ذرا یہ دہشت گردی سیکولر بنی تو نکسلزم کا لبادہ اوڑھ کر
قبائلیوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں پر شعلہ برق بن کر گری اور ملک مزید
طبقاتی کشکمش کا شکار ہوا۔ جہاں کہیں فسادات ، دہشت گردی اور نکسلزم سے کام
نہ چلا وہاں وہاں علاقائیت کے نام پر تشدد کی لہر یں دوڑ یں اور دوڑ رہی
ہیں۔ غرض ہر طبقہ ، ہر علاقہ کسی نہ کسی طور پر ایک کشمکش میں مبتلا ہے اور
اہل اقتدار اپنے ان ہی فرسودہ نعروں کے گھوڑوں پر سوار دولتمندی کا سفر تیز
گامی سے طے کررہے ہیں ۔ ایسے میں یہ اربا ب اقتدار جو خود کو سیکولرظاہر
کرتے تھے ۔ اوراپنی پالیسی سوشلزم بتاتے تھے مگر درحقیقت ترجمان تھے اعلیٰ
ذات ہندوؤں کے ۔انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اس نظریے کی خوب خوب پرورش کی۔
یہ نظریہ آزادی سے بہت قبل ہندو نشاۃ ثانیہ کا نظریہ تھا۔ حتیٰ کہ دستور
ہند میں بھی انہیں مبینہ سیکولر لوگوں کے عمل دخل کے باوجود اسی ہندوتوا کے
نظریے کے مظاہر جگہ جگہ موجود ہیں ۔ ایسے میں جب نیچی ذاتوں کے ہندو اور
مسلمان ان جھوٹے سیکولر وادیوں سے تنگ آگئے تو ملک کی سیاست نے کروٹ لی اور
اب مختلف ذاتوں کے علمبرداروں نے اکھٹا ہو کر زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے
لی۔ اور اپنا نام جنتا پارٹی رکھ لیا۔ یہ پارٹی بھی گو کہ جنتا یا عوام
الناس کی فلاح و ترقی اور اسی سیکولر زم کے نا پر بپا ہوئی مگر حقیقتاً اسی
پارٹی نے ہندو نشاۃ ثانیہ کے نظریے کو بھی عملاً اعلان شدہ ترقی دی اور
انہیں پارٹی کا جز بنایا لیا۔ ان لوگوں نے تمام نچلی ذاتوں کے لیڈروں کو
بھی اکھٹا کیا اور اپنی رہنمائی میں ہندوتوا دی اعلیٰ ذاتوں کو ہی حکومت کی
کمان سونپی حتی کہ نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ایک قدآور لیڈر جگجیون رام
جو اس وقت اقتدار کے سب سے زیادہ مستحق تھے۔انہیں صرف اس بنیاد پر اقتدار
سے دور کردیا گیاکہ وہ دلت تھے اور ایک اعلیٰ ذات بنیئے کے ہاتھ میں وزات
عظمیٰ سونپ کر ہندوتوادی نظریے کی خوب آبیاری کی ۔ چنانچہ عوام الناس ایک
بار پھر سماجی انصاف کی دہلیز سے بھگا دیئے گئے اور مسلمانوں کا تو خیر ذکر
ہی کیا انہیں تو مطالبے کرنے کے لائق بھی نہیں سمجھا گیا ۔ بہت جلد عوام کے
صبر کا پیمانہ ان لوگوں کی اعلیٰ ذات سیاست کے ظلم سے لبریز ہوگیا تو دوسرا
تجربہ کیاگیا ۔ یہ خالصاً ذات برادری کی بنیا د پر تھا یعنی جنتا دل کا
تجربہ ۔ اس سے تجربے کی کمان بھی ہر چند تھی تو اعلیٰ ذات ہندوؤں کے ہاتھ
میں ہی لیکن اس کے اصل مخاطب پسماندہ ہندو برادریاں تھیں جن کے نام پر بہت
سے دلت ، پسماندہ جاٹ اور قبائل ،راجہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے جھنڈے تلے جمع
ہوگئے تھے اور ایک بار پھر مسلمانوں کو لگا یہی راجہ جو فقیر کا بھیس بدل
کر آیا ہے ملک کی تقدیر سنوارے گا اور ہندوستان جنت نشان میں شیر اور بکر
ایک گھاٹ پانی پینے لگیں گے ۔ یہ طاقت اقتدار پر قابض توہوئی مگر نظام کی
کسی تبدیلی کا مکلف نہ ہوسکی اور پسماندہ ذاتوں کو درج فہرست ذات و قبائل
کے براریزرویشن دے کر مزید ایک طبقاتی کشمکش میں ملک کو متبلا کر کے اشیائے
خوردو نوش کی قیامت خیز گرانی اور ہر چار سو تراہی تراہی کرتے ملک کے ایوان
زیریں میں اعتمادکا ووٹ ہار کر اقتدار سے بے دخل ہوگئے۔ اور پھر آزاد
ہندوستان کی سیاسی تاریخ نے جو ہوش ربا منظر دیکھا وہ یہ تھا کہ نیچی ذاتوں
کے اقتدار کے نام پر جو ایک پارٹی تشکیل ہوئی تھی اس کے اتنے ٹکڑے ہوئے کہ
اصل پارٹی کا تو لوگ نام ہی بھول گئے۔ اس سیاسی تحریک نے ملک کو نوخیز مگر
نچلی ذات کے بے شمار لیڈر پیدا کر کے دیئے جنہوں نے مختلف ریاستوں میں اپنے
اقتدار کے جھنڈے گاڑ دیئے ۔ اس ملک میں قومی سیاست کے منظرے نامے سے غائب
ہوکر پورے ملک کی سیاست کو علاقائیت کے زیر نگیں کردیا گیا۔ اب یہ ہونے لگا
کہ علاقائی سیاسی پارٹیاں مرکزی حکومت سے اپنا حصہ بزورقوت حاصل کرنے لگیں
اور وہ ملک کے پسماندہ طبقات اور مذہبی اکائیوں کی فلاح و بہبود پر خرچ
ہونے کے بجائے ان علاقائی لیڈروں کے خاندانوں کی پرورش پر خرچ ہونے لگا ۔
گویا نچلی ذاتوں کے لوگوں کو تو کوئی فائدہ پہنچا نہیں البتہ ان ذاتوں کے
چند لیڈر اگلی سات پشتوں کے لئے ارب پتی بھی بن گئے اور صاحبان اقتدار بھی
۔ اسی برادری واد کی سیاست کے چربے سے دلت سیاست نے بھی انگڑائی لی اور
اقتدار کا مزہ خوب خوب چکھا۔ مگردلتوں کو ملے ہوئے 65سالہ ریزرویشن اور اب
اقتدار کل حاصل ہوجانے کے بعد عام دلت گھرانوں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ ہاں
مگر چند دلت لیڈروں کے خاندانوں کے مقدر ضرور سنور گئے۔ قبائلیوں نے اپنے
اپنے علاقوں میں اپنے لیڈر بھی پیدا کئے اور انہوں نے بھی مخصوص علاقوں میں
اقتدار کا مزہ چکھا مگر آج ملک میں شاید بدترین حالت زندگی سے دورچاررہنے
والا طبقہ قبائلیوں کا ہی ہے جن کا کوئی پرسان حال بھی نہیں ہے اور وہ
ماؤوادیوں اورنکسلیوں کے رحم وکر م پر بھی ہیں اور ان کے ممدو مددگار بھی ،اور
اس ناطے سے ان کا سرکاری استحصال اور انکا قتل وغارت گری بھی خوب ہوتا ہے۔
اہم مذہبی اکائیوں میں مسلمانوں کے بعد سکھوں کا نمبر آتاہے تو جہاں ان کی
آبادی ہے وہاں ان کا اقتدار بھی ہے ۔ پنجاب ہمیشہ ہی سکھ لیڈر شپ کے ہاتھ
رہا ۔ مگر پنجاب کے سکھوں سے جا کر ان کا حال بھی پوچھ لیجئے ملک کا سب سے
زیادہ محنت کش کسان پنجاب میں ہے جس نے پورے ملک کو ہرے انقلاب سے روشناس
کرایا مگر یہ محنت کش کسان آج نشہ آور ادویہ کے مافیاؤں کے چنگل میں ہے ،
یا کینسر کا شکار، اس کی فصل کھلیانوں میں سڑ جاتی ہے مگر قیمت وصول نہیں
ہوتی۔ سکھوں کی اس لیڈر شپ سے سکھوں کو بھی کیا مل گیا۔
رہے عیسائی برادران تو شمال مشرقی ریاستوں میں ان کی آبادی زیاد ہے اور وہا
ں ان ہی کی پارٹیا ں اقتدار میں بھی رہتی ہیں اور اسی عیسائی طبقے کے لوگ
لیڈر بھی ہوتے ہیں ۔ مگر ترقی اور خوشحالی کے نام پر سب سے زیادہ پچھڑا
علاقہ شمال مشرق ہی ہے ۔ پانچوں ریاستوں میں آباد عیسائی آبادی بے روزگاری
، بھکمری کا شکار ہے ،نہ سڑکیں ،نہ بجلی ، نہ پانی ، نہ روزگار۔
اب 2014میں ایک نئی حکومت اس اعلان کے ساتھ مرکز میں اقتدار پر قابض ہے کہ
وہ 125کروڑ ہندوستانیوں کو ساتھ لے کر چلے گی ۔ سب کی ساتھ سب کا وکاس ہوگا۔
اس حکومت کے قیام کو بھی اب ایک سال ہونے کو ہے۔ اسکے اقتدار میں آتے ہی
نعرہ بلند ہوگیا کہ 800سال بعد ملک میں ہندوؤں کی سرکار بنی ہے۔ اس کے
لیڈروں نے کھلے عام اعلان کردیا ہے کہ جو انہیں ووٹ نہ دے وہ پاکستان چلا
جائے ۔ وکاس کے نا پر اس کے بھگوا دھاری لیڈر ہندوؤں کو ترغیب دیتے ہیں کہ
دس دس بچے پیدا کر کے ہندو آبادی کا وکاس کریں ، لوجہاد کے نام پر ہندو
لڑکے مسلم لڑکیوں سے زبردستی شادی کریں اور گائے کے ذبیحے پر پابندی لگادی
جائے اور دستور میں ترمیم کی جائے کہ تبدیلیٔ مذہب اختیاری نہ رہے وغیرہ
وغیرہ ۔ نہ کہیں کسی چیز کے دام کم ہوئے ،نہ نوکریوں کے مواقع پیدا ہوئے،
نہ عوامی فلاح و بہبود کے نئے پروگرام مرتب ہوئے ، نہ روٹی ، نہ کپڑا ، نہ
مکان بس سرمائے داروں کی فلاح و بہبود ان کا وکاس اس سرکار کے پیش نظر ہے
چاہے اس کے لئے غریب کسانوں کی قیمتی زمین اونے پونے خریدنی پڑیں۔ تمام
اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھا کر ، ٹھیکے بڑے سرمائے داروں کو دیئے جارہے
اور غریب سے غریب آدمی کو جیب سے بھی پیسہ نکال کے سرکاری تجوریاں بھری
جارہی ہیں ۔ 800سال بعد قائم ہوئے مبینہ ’’ہندو راشٹر‘‘ میں بھی عوام کے
ہاتھ ابھی تک کچھ نہیں لگا ۔ نہ مذہب نہ روٹی۔
ایسے میں سب کو آزمایا جا چکا ہے سیکولرزم کی سرکاریں بھی، فسطائیت کی
سرکاریں بھی ، اونچی ذات ہندوؤں کی بھی ،نیچی ذات ہندوؤں کی بھی ،حتی کے لا
مذہبی کمیونسٹوں کی بھی ، اپنے اپنے علاقوں میں سکھوں ، عیسائیوں اور
قبائلیوں کی بھی ،غرض آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے سوا ہر ایک کے راج کو
آزما کے دیکھا جا چکا ہے ۔( کشمیر اس تمام خلاصے کا حصہ نہیں ہے کیونکہ
کشمیر آزادی کے بعد سے مستقل جدو جہد کا شکار ڈسٹرب ریاست ہے)۔
جہانتک خود مسلمانوں کا تعلق ہے پچھلے 65سال میں وہ اپنی دینی ، ملی، سیاسی
، تعلیمی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور اقتصادی زوال کی آخری سیڑھی پر کھڑے
ہیں اور زوال یافتہ قوموں کی جومنفی نفسیات ہوتی ۔ وہ اس نفسیات کا بدرجہ
اتم شکار ہیں۔ چنانچہ نہ تو قیادت ہے نہ سیادت ہے، نہ شعور ، نہ فکر ، نہ
آگہی، نہ منصوبے وہ اپنے فرض منصبی سے بے خبر ، اپنے مقام اپنی حیثیت سے بے
پرواہ اور اپنی تاریخ سے بے نیاز ،خود سے کئے ہوئے الہی وعدہ سے بے خبر ایک
کاسۂ گدائی لئے دیگر اقوام ہند کے روبرو کھڑی ہے کہ شاید اقتدار اسے بھیک
میں مل جائے۔
ایک طرف یہ زوال آزماامت خود کو سمجھ ہی نہیں پارہی دوسری طرف دیگر اقوام
بخوبی سمجھ رہی ہیں کہ مسلمانوں نے اگر ایک دن بھی اقتدار کی جانب نظر بھر
کے دیکھ لیا تو غضب ہوجائے گا چنانچہ ملک کی تمام تر سیاسی قوتیں ہر وقت
اسی فکر میں غلطاں ہیں کہ مسلمانوں کی کوئی سیاسی قوت نہ ابھرنے پائے
چنانچہ جیسے ہی کوئی نئی سیاسی پارٹی مسلمانوں کی زیر قیادت اٹھتی ہے اسے
فرقہ پرست ہونے کا نام دے دیا جاتا ہے۔ گو کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آج
کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں سمیت ملک کی کسی بھی سیکولر کہی جانے والی
پارٹی کی قیادت نہ تو کسی مسلمان کے ہاتھ میں اور نہ ہی اس کا تصور کیا
جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں کوئی مسلمان ان پارٹیوں کی مسند صدارت تک
پہنچ پائے گا ۔ بی جے پی کی تو خیر بات چھوڑ ہی دیجئے۔ ایسے میں اگر مسلمان
پورے ملک کے خاکے کو پیش نظر رکھ کے خود کوئی سیاسی پہل کریں تو انہیں فرقہ
پرست کہہ کر حاشیے پر کھڑا کردیا جاتا ہے۔ گویا ملک میں مسلمانوں کے سوا
کوئی اور فرقہ پرست ہو ہی نہیں سکتا ۔ ہر چند کہ یہ مسلمانوں کے خلاف ایک
بڑی سیاسی سازش ہے مگر خو د مسلمان بھی اس کے قصوروار ہیں ان معنوں میں کہ
مسلمانوں کی قیادت والی اکثر پارٹیاں تو وجود ہی میں اس لئے آتی ہیں کہ
موجودہ جابرانہ سیاسی نظام کو تقویت پہنچا سکیں اور جو چند سیاسی جماعتیں
ان سے مختلف اور قدرے مخلص ہیں۔نیز سیاسی نظریے سے مزین ہیں ان پارٹیوں کے
پاس ان نظریا کی تنفیذ کرنے والے ہاتھ موجود نہیں ہیں ۔نگہ بلند، جان پرسوز
اور سخن دلنواز نہیں ہے قلوب میں وسعت نہیں ہے۔ اور ذاتی جاہ و مرتبت کے
مرض سے دوچار ہیں۔ محض تیس چالیس لوگوں کو اکٹھا کرنے کی استعداد رکھنے
والے یہ لیڈر اتنے مختصر سے مجمعے میں ’’قائد دوراں ۔زندہ باد‘‘ کے نعرے سن
کر ہی مگن ہوجاتے ہیں۔
ان حالات کا تقاضہ بہر حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے چند ذہین اور سیاسی افراد
موجود سیاسی نظام سے قطع نظر کرکے سر جوڑ کر بیٹھیں اور طے کریں کہ وہ اپنی
ذات کے لئے کسی سیاسی منصب برآری کی کوشش نہیں کریں گے اور پوے ملک یں گھو
م گھو م کے ریاستی مراکز اور شہروں کے غیور نوجوانوں کو سیاسی میدان سے
وابستہ کر کے ان کی ذہن سازی کریں ۔ اور جب تک ملک گیر سطح پر سیاسی لیڈر
اور تربیت کا انتظام نہیں ہوجاتا تب تک کوئی سیاسی جست و خیزنہیں کریں گے
صرف تربیت پر توجہ مرکوز رکھیں گے ۔
اور صرف مسلمانوں کے مسائل نہیں بلکہ ملک کے تمام مسائل سے مسلم نوجوانوں
کو روشناس کرائیں گے کہ ملک کے ہرسلگتے مسئلے پر وہ ایک سدھی ہوئی رائے
رکھتے ہوں گے اور مسئلے کا منصفانہ حل جانتے ہوں گے۔ جب ایسی کوئی قوت یہ
مخلص قیادت صبر و تحمل کے ساتھ پیدا کرلے تب وہ پورے ملک کی خدمت میں اپنے
بھر پور تشخص کے ساتھ اہل وطن کی دادرسی کے مقصد کو لے کر سامنے آئے ۔ جب
تک مسلمانوں کی قیادت والی ایسی تحریک سامنے نہیں آتی تب تک وطن عزیز کے
حالات میں کسی بھی تبدیلی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ |