مزا نہ آئے تو پیسے واپس

حاجی صاحب میرے پاس آئے تو بہت چپ چپ تھے، بلکہ اگر پریشان بھی کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ میں حاجی صاحب کا تعارف کروا دوں، حاجی محمد اشرف، پیشہ کے اعتبار سے انجینئر ہیں لیکن سیاسی معاملات پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔ اکثر ملاقات پر یا فون پر حکومتی اقدامات، عدلیہ اور دیگر قومی سیاسی مسائل پر کھل کر بولتے اور اپنی رائے کا ظہار کرتے ہیں۔ عمر تو اتنی زیادہ نہیں لیکن تجربہ بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ جب میں نے انہیں پریشان دیکھا تو سمجھ گیا کہ آج کسی کی شامت آگئی۔ میرے پوچھنے پر بولے کہ بھائی صاحب! ”آپ کو پتہ ہے کہ شہری سندھ میں کتنے گروہ ہیں جو لوگوں سے مختلف حیلوں، بہانوں، دھونس اور دھمکیوں سے ”بھتہ“ کی شکل میں رقوم وصول کرتے ہیں؟“ میں نے کہا سنا تو ہے لیکن حتمی طور پر نہیں بتا سکتا کہ کتنے گروہ ہیں، پھر کہنے لگے ”آپ کے علم میں ہے کہ سالانہ کتنی رقوم اس طرح ”بھتوں“ کی شکل میں عام شہری ہی نہیں بلکہ امراء اور انڈسٹری مالکان، بڑے بڑے کاروباری اشخاص ان گروہ کی بلیک میلنگ اور دھمکیوں سے تنگ آکر ان کو ادا کرتے ہیں؟“ میرا جواب دوبارہ نفی میں تھا اور میرا علم محدود تھا۔ حاجی صاحب کہنے لگے کہ ایک محتاط اندازے اور حساس اداروں کی رپورٹس کے مطابق صرف حیدر آباد اور کراچی میں تقریباً ایک سو سے زیادہ گروپ ایسے ہیں جو مختلف اشکال میں لوگوں سے کبھی چندے کے نام پر اور کبھی کسی اور بہانے سے ”بھتہ“ وصول کرتے ہیں۔ اور اسی طرح ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ اربوں روپے کے ”بھتے“دئے جاتے ہیں، یہ ایسی آمدنی ہے جس پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں ہے۔

حاجی صاحب سانس درست کر کے ایک بار پھر گویا ہوئے، اگر پچھلے تقریباً ایک سال میں بھتہ خوری کے جرائم کا جائزہ لیں تو صورتحال انتہائی بھیانک نظر آتی ہے۔ حاجی صاحب پوری تحقیق کر کے آئے تھے، انہوں نے کاغذات کا ایک پلندہ نکالا جو کم و بیش بیس پچیس صفحات پر مشتمل تھا اور بھتہ خوری کے بارے میں مختلف اخبارات کی خبروں کے پرنٹ نکالے ہوئے تھے۔ خبروں کے مطابق مارچ 2009 میں بھتہ خوروں کی جانب سے کراچی میں باقاعدہ طور پر دستی بموں سے حملے کئے گئے جس میں کئی تاجر زخمی ہوئے ۔اپریل میں تاجروں، ڈاکٹروں اور ٹرانسپورٹروں سے بھتہ کی وصولی کے لئے کاروائیاں کی گئیں، کئی ملزم گرفتار بھی ہوئے لیکن بھتہ خوری کا کام رک نہ سکا، یہاں تک کہ اپریل کے آخری دنوں میں لیاری میں بھتہ وصول کرنے پر دو گروہوں میں تصادم اور زوردار جنگ کی وجہ سے دو معصوم بچوں سمیت تقریباً دس افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ لیاری میں کاروباری ادارے، دکانیں، سکول بند رہے، لڑائی میں ہینڈ گرینیڈ اور راکٹ لانچر تک استعمال کئے گئے۔ کراچی کے شہریوں اور بھتہ خوری کے متاثرین نے ان کاروائیوں کے خلاف باقاعدہ ہڑتالیں اور دھرنے دئے، پولیس اور حکومت کو بیسیوں درخواستیں اور اپیلیں کی گئیں جس کے جواب میں مئی کے پہلے ہفتہ میں وزیر اعظم کو اپنی کراچی آمد پر ان کاروائیوں کا نوٹس لینا پڑا اور کہنا پڑا کہ لینڈ اور بھتہ مافیا کے خلاف کاروائی کی جائے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ مئی کی چودہ تاریخ کو حیدر آباد کے ایک علاقہ قاسم آباد میں بھتہ خوری اور قبضہ مافیا کے خلاف شٹر ڈاﺅن ہڑتال کی گئی، شہر کے اکثر علاقوں میں کاروبار زندگی مکمل طور پر معطل رہا۔ جون کے مہینے میں ایم اے جناح روڈ کراچی پر ریڈیو پاکستان کے سامنے واقع پاکستان کی سب سے بڑی موٹر سائیکل اسپیئر پارٹس ڈیلرز مارکیٹ کے تاجران گزشتہ 10 روز سے نامعلوم افراد کی جانب سے بھتے کے سلسلے میں ملنے والی دھمکیوں اور فائرنگ کے واقعات کے خلاف بالآخر سڑکوں پر آگئے اور انہوں نے مرکزی شاہراہ پر شدید احتجاج کیا۔ اس موقع پر اسپیئر پارٹس کی تمام دکانیں بند کردی گئیں۔ جون کے مہینے میں ہی سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں کے حوالے سے تاجروں کو لاحق مسائل کے ضمن میں کئے جانے والے احتجاج کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کو احکامات دیئے ہیں کہ صوبہ سندھ میں قائم تمام صنعتی زونز میں امن و امان کی صورتحال پر مؤثر کنٹرول اور تاجر برادری کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں اور بھتہ لینے میں ملوث عناصر کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ محکمہ داخلہ کے اعلامیے کے مطابق انہوں نے تاجروں کی جانب سے مال بردار گاڑیوں کی چھینا جھپٹی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، فیکٹریوں میں ڈکیتیوں، ایف آئی آر کے اندراج میں ایس ایچ اوز و عملے کے عدم تعاون اور سرکاری اہلکار بن کر تلاشی کے بہانے لوٹ مار و رہزنی کے واقعات پر تحفظات کا بھی نوٹس لیا ۔

اتنی کاروائیوں کی تفاصیل سن کر میں نے کہا حاجی صاحب چلیں بس کریں، اب تو مجھے ایسا لگنے لگا ہے کہ شائد اتنی خبریں سنا کر آپ مجھ سے بھی بھتہ طلب کرلیں گے۔ حاجی صاحب نے جواباً زیر لب مسکرا کر کہا کہ ابھی تو میں نے ایک چوتھائی خبروں کی تفصیل بھی بیان نہیں کی اور یہ خبریں تو ان کاروائیوں کی ہیں جو پولیس کو رپورٹ کی گئیں اور میڈیا کے علم میں آئیں اور یہ ان وارداتوں کا دس فیصد بھی نہیں جو اصل میں ہوتی ہیں۔ میں نے کہا کہ اب آپ اصل بات کی طرف آہی جائیں۔ پوچھنے لگے کہ کراچی اور حیدر آباد میں کس پارٹی کی حکومت ہے؟ میں نے کہا کہ ”ایم کیو ایم کی“! پھر کہنے لگے کہ سندھ کا گورنر کس پارٹی سے ہے، میرا جواب پھر وہی تھا، پھر کہا کہ حیدر آباد اور کراچی میں پولیس افسران کس کی مرضی سے لگتے ہیں؟ میرا جواب پھر وہی تھا، پھر اصل بات کی طرف آتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ ”کیا تم جانتے ہو جناب فاروق ستار نے چند دن پہلے کیا بیان دیا ہے؟ میں نے کہا کہ آپ ہی بتا دیں! تو انہوں نے کہا کہ فاروق ستار نے کسی پروگرام میں پنجاب کے عوام سے پنجابی میں مخاطب ہو کر کہا ہے کہ ”تسی اک واری سانوں وی آزما کر ویکھو اگر مزا نہ آوے تو پیسے واپس سوہنیو!“ یعنی آپ ایک بار ہمیں بھی آزما کر دیکھیں،اگر مزا نہ آئے تو پیسے واپس! میں نے کہا اس میں کیا مسئلہ ہے؟ ہر سیاسی جماعت کا حق ہے کہ وہ پورے پاکستان کے عوام سے رابطہ کرے اور ان کے ووٹوں کے ذریعہ طاقت حاصل کرکے پارلیمنٹ میں جائے اور حکومت بنائے۔ حاجی صاحب بڑے غمگین انداز میں اٹھتے ہوئے بولے، بھائی صاحب! یہی تو مسئلہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ پہلے کوئی ہم سے ووٹ لے لے، پھر بھتہ بھی لے لے اور اگر مزا نہ آیا تو پیسے بھی واپس نہ کرے! پھر ہم کیا کریں گے؟ سچ پوچھیں تو میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 209482 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.