آٹھ سالوں میں پاکستان کو 35 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے

موجودہ سیاسی انتشار سے ملک کے30ارب 74کروڑ بھی ڈوب گئے

ٓچلویہ ٹھیک ہے کہ پوری پاکستانی قوم یہ مان بھی لیتی ہے اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی یقین کرلیتی ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے ایک امریکی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے وہ من و عن درست ہے اور اِس کے ساتھ ہی کسی کو اِس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گزشتہ 8سالوں کے دوران بھاری جانی و مالی نقصان کے علاوہ 35ارب ڈالر کا خطیر نقصان بھی ہوا ہے جس کی وجہ سے قومی معیشت تقریباً مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور عالمی برادری کو پاکستان کے ساتھ اپنا ہر ممکن تعاون بھی کرنا چاہئے میرے نزدیک عالمی برادری کو پاکستان کے ساتھ ہر قسم کا تعاون یوں بھی کرنا چاہئے اور ضرور کرنا چاہئے کیوں کہ پاکستان کا اِس سارے عرصے میں جتنا جانی اور مالی نقصان ہوا ہے اتنا اِس دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آواز بلند کرنے والے امریکا کا بھی نہیں ہوا ہے اِس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو امریکا سمیت ہر اِس ملک کو جو 11/9 کے بعد کسی دہشت گردی کے خوف میں مبتلا ہے اُسے پاکستان کی ہر ممکن مدد بغیر پاکستان کی فریاد کے کرتے رہنا چاہئے کیوں کہ آج پاکستان اُن کی ہی جنگ لڑرہا ہے۔ اور سانپ کے بل میں اپنا ہاتھ دے کر اُن لوگوں کی زندگیاں بچا رہا ہے جو اِس دنیا کو ہی اپنی جنت تصور کرتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں کبھی بھی موت نہیں آئے گی اور وہ ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے پیدا ہوئے اُن لوگوں کی پاکستان جنگ لڑ کر اُن کے لئے زندگی کا سامان مہیا کرنے کے چکر میں اپنا آٹھ سالوں میں 35ارب ڈالر کا نقصان کروا چکا ہے اِس کا ازالہ تو ہونا چاہئے اور ضرور ہونا چاہئے ورنہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑے گا۔

بہرحال! چلیں یہ تو بات ہوئی 8 سالوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو جانی و مالی اور 35ارب ڈالر کے نقصان کی مگر صدر مملکت آصف علی زرداری صاحب! اِس خبر کا بھی تو کچھ کیجئے! اور اِس کا بھی سنجیدگی سے نوٹس لیجئے! جس کے مطابق”13فروی 2010 کو ججوں کے مسئلے پر عدلیہ و حکومت تنازع اور میاں نواز شریف کی جانب سے آپ (صدر زرداری) کی کھلی مخالفت نے ملک کے اقتصادی منظر نامے کو بُری طرح متاثر کیا ہے جس کا ثبوت گزشتہ دنوں یعنی 15فروری 2010 تک صرف 3ہی دن میں کراچی اسٹاک مارکیٹ میں دیکھا گیا کہ مارکیٹ انڈیکس میں 104پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی اور سرمایہ کاروں کے 30ارب 74کروڑ 45لاکھ روپے سے زائد ڈوب گئے جبکہ 69فیصد حصص کی قیمتیں گر گئیں اورمارکیٹ 139پوئنٹس تک گر گئی تھی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر صاحب ! ملک کی معاشی اور اقتصادی ڈھانچے کو ہونے والے اِس نقصان کا ازالہ کون کرے گا....؟ یہ وہ نقصان ہے جو صرف تین دن میں ہوا ہے اگر آئندہ بھی ملک میں ایسی ہی صورتِ حال پیدا ہوتی رہی جیسی 13 فروری کو سامنے آئی تھی تو یہ نقصان گزشتہ 8 سالوں میں پاکستان کو ہونے والے 35 ارب ڈالر کے نقصان سے بھی کہیں زیادہ ہوجائے گا۔ اَب ایسے حالات ملک میں نہ پیدا ہونے پائیں کہ ملک کی معیشت کو ہر بار اقتصادی نقصان سے دوچار ہونا پڑے۔ بہرحال قوم نواز شریف سے بھی اِس کا جواب ضرور چاہتی ہے کہ اُنہوں نے صدر مملکت کو جمہوریت کے لئے ایک بڑا خطرہ کیوں قرار دے کر ملک میں سیاسی عدم توازن کی فضا قائم کر کے ملک کو معاشی اور اقتصادی طور پر ایک بڑے نقصان سے دوچار کردیا ہے جس کا جواب میاں نواز شریف کو بھی ضرور دینا چاہئے تاکہ قوم مطمئن ہوسکے۔

بہرکیف!آج ملک کی موجودہ صورتِ حال کے منظر اور پس منظر میں ہر فرد یہ ضرور سوچ رہا ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی پل پل کی بدلتی ہوئیں سیاسی پینترے بازیاں آخر کیا رنگ لائیں گئیں؟اور یہ چور سپاہی کا کھیل کب تک یوں ہی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کھیلا جاتا رہے گا؟ جبکہ اَب یہ بھی سب کو خوب معلوم ہو چکا ہے کہ آج اِس پکڑم پکڑائی کے کھیل میں کون مظلوم بن کر سامنے آرہا ہے؟ اور کون کس کو کتنا مظلوم بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے؟ اور اِس کے ساتھ ہی اَب یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا کہ اِس سارے کھیل میں کسی کو بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا؟اور اگر کسی کو کوئی فائدہ حاصل ہوا بھی تو اُس تیسری بڑی قوت کو ہوگا جس نے ملک کی 62سالہ تاریخ میں36سال زبردستی کی ڈنکے کی چوٹ پر اپنی حکمرانی کی ہے مگر آج افسوس کی بات تو یہ ہے موجودہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی اتنا ضرور معلوم ہے کہ اِن دونوں کے اِس کھیل میں ملک کی تیسری بڑی قوت کی مداخلت سے سب سے زیادہ نقصان ملک اور عوام کا ہی ہوگا۔

اور جبکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ (حکمران اور سیاستدان) دونوں ہی اپنی اِس ضد پہ اڑے ہوئے ہیں کہ ہم ملک اور عوام کو نقصان پہنچانے کے باوجود بھی ملک اور ساری پاکستانی قوم کو جس طرح نقصان پہنچا سکتے ہیں ہم پہنچاتے رہیں گے اور ہماری اِس کارستانی میں بھلے سے ملک پر زیادہ عرصے حکمرانی کرنے والی قوت ہی کود پڑے مگر پھر بھی ہم اپنے اِس سارے گول گھومیوں کے کھیل میں نہ تو عوام کو کھلائیں گے ..... اور نہ اِسے اپنے اُوپر سوار ہو کر اپنا بھیجا کھانے دیں گے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ گزشتہ چند سالوں سے ہمارے ملک میں جو صورتِ حال چلی آرہی ہے اِس میں عوام دشمن سوچ کے حامل حکمرانوں اور سیاستدانوں کے اِس تمثیلِ سیاست میں عوام ہی پس رہے ہیں اور عوام ہی مر رہے ہیں اور اِس کا بھی اندازہ آج ہر ذی شعور کو ہوگیا ہے کہ ملک اور عوام کے لئے نہ تو آج حکمران ہی مخلص ہیں اور ناں ہی ہمارے سیاستدان ہی عوام اور ملک کی فلاح اور ترقی و خوشحالی کے لئے کچھ بہتر کر گزرنے کی سکت رکھتے ہیں اِن دونوں کی آج یہ ایک ہی سوچ بن چکی ہے کہ قوم کو بیوقوف بنا کر قومی خزانے کا منہ اپنی عیاشیوں کے لئے کھول دیا جائے اور عوام کو اپنی سیاسی پینترے بازیوں سے اِس طرح سے الجھا دیا جائے کہ عوام اِس سے نجات ہی نہ حاصل کرسکیں جیسی صورت حال آج ہمارے حکمرانوں نے 13فروری کی شام ایک نئے عدالتی بحران کو جنم دے کر ملک میں پیدا کردی ہے۔

اِس موقع پر میرا خیال یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اِس کی کوئی پراوہ نہیں کہ اِن کی اِس نورا کشتی میں سب سے زیادہ عوام ہی متاثر ہورہے ہیں اور عوام ہی اِس میں پس رہے ہیں جیسا اِس سے پہلے والی ایسی ہی صورتِ حال میں عوام کا ہی قیمہ بنا گیا اور عوام کا ہی ستیاناس کیا گیا تھا اور اِس مرتبہ بھی کوئی شک نہیں کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے عدلیہ کے ایشو پر عوام کو نہ بخشا جائے اِس صورتِ حال میں، میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ آج عوام حکمرانوں کی اِس نورا کشتی اور سلسلے وار تمثیل ِ سیاست سے تنگ آچکے ہیں جس کا کوئی نہ تو نتیجہ ہی نکل پا رہا ہے اور نہ یہ اختتام ہی ہونے کو آرہا ہے اور اَب اِس نازک صورت ِ حال میں جب حکمرانوں اور سیاستدانوں میں عدلیہ کے ایشو پر ایک دوسرے کے خلاف شدید قسم کی محاذ آرائی پیدا ہوگئی ہے اور اِس میں اتنی شدت محسوس کی جارہی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اَب دونوں ہی جانب سے اپنے اپنے میانوں سے تلواریں بھی نکال لی گئیں ہیں اور اَب کوئی فیصلہ کن معرکہ ہونے کو ہے جس سے کوئی اِدھر یا اُدھر اور تیسرا پیچ کے اندر..... تو اِس ساری صورت حال میں دال روٹی کی ترستی ہوئی ملک کی سترہ کروڑ پریشان حال عوام خود یہ چیخ چیخ کر ہاتھ جوڑے فریاد کرتی نظر آرہی ہے کہ خدارا ملک کی وہ تیسری بڑی قوت اَب فوری طور پر بغیر کسی ہچر مچر کے مداخلت کرے اور ہم ملک کی پریشان حال عوام کو اِن بے حس حکمرانوں، لڑتے جھگڑتے سیاستدانوں اور اِس منہ زور مہنگائی سے نجات دلائے یعنی یہ کہ ملک کے موجودہ سیاسی، اقتصادی اور معاشی حالات میں پوری پاکستانی قوم کی نظریں فوج پر جمی ہوئی ہیں اور اِس ساری صورتِ حال میں عوام کی نظریں اِس پر ٹکی ہوئیں ہیں کہ فوج اَب کب اپنے بیرکوں سے کلف لگی ہوئی وردی اور پالش لگے چمکتے ہوئے جوتوں کے ساتھ نکلتی ہے اور عوام کو ایسے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے نجات دلاتی ہے جن کی آپس کی نورا کشتی اور تمثیلِ سیاست کی وجہ سے عوامی مسائل نہ تو حل ہوسکے ہیں اور نہ ہی کسی نے اِنہیں حل کرنے کی کوشش ہی کی ہے۔

کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی عوام کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ آج ملک کے حالات موجودہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے آئے روز کے آپس کے لڑائی جھگڑوں اور کھینچا تانی کی وجہ سے اِن ہاتھوں سے نکل چکے ہیں اور اِن دونوں کی توجہ عوام کے مسائل کے حل کی جانب سے ہٹ کر اپنے آپس کے لڑائی جھگڑوں کی جانب لگ گئی ہے تو ایسے میں جب کوئی بھی ملک کی غریب عوام کی سننے والا نہ ہوتو پھر عوام کی نظریں ہر بار فوج کی طرف ہی اٹھی ہیں اور فوج نے ہر بار سول حکمرانوں اور سیاستدانوں کی صلاح خود کواِن کی لڑائی میں کود کر کروائی ہے اور دونوں سے اقتدار چھین کر اپنی ایسی حکومت قائم کی ہے کہ سول حکمران اور سیاستدان بڑے عرصے تک اقتدار کو ترستے رہے اور اِس بار بھی عوام فوج سے یہ اُمید رکھتی ہے کہ وہ اپنی فوری مداخلت سے موجودہ حالات کو سدھارنے میں اپنا اہم کردار اداکرے گی اور ایسے حکمرانوں اور سیاستدانوں کوایساسبق سیکھائے گی کہ یہ آئندہ ذراذراسی باتوں پر آپس میں لڑنا جھگڑنا بھی چھوڑ دیں گے۔
Muhammad Azam Azim Azam
About the Author: Muhammad Azam Azim Azam Read More Articles by Muhammad Azam Azim Azam: 3 Articles with 2877 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.