سعودی عرب صرف ایک عام ملک یا
پاکستان کا ’’دوست مْلک‘‘ ہی نہیں بلکہ دْنیا بھر کے مسلمانوں کی مقدس
سرزمین بھی ہے۔ اس سرزمین پر مسلمانوں کی دل و جان سے عزیز مقدس عبادت گاہ
بیت اﷲ اور روضہ رسول موجود ہے۔ یہ مقدس دھرتی مسلمانوں کے لئے مرکزِ ایمان
کا درجہ رکھتی ہے ۔دنیا کاکوئی بھی مسلمان ایسا نہ ہو گا جوروضہ رسول اور
بیت اﷲ کی حفاظت پر اپنا سب کچھ قربان کرنا اپنے لئے باعث فخر نہ سمجھتا
ہو۔ مکہ و مدینہ کی زیارت تو ہر ایک مسلمان کے لئے دْنیا کی سب سے عظیم
سعادت ہے۔ جنہوں نے زیارت نہیں کی وہ زیارت کے لئے ترستے رہتے ہیں اور جو
کر چکے ہیں وہ پھر زیارت کرنے کو تڑپتے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ سعودی عرب اور
پاکستان کے تعلقات بہت گہرے اور مضبوط ہیں۔ زندگی کے نشیب وفراز میں ایک
دوسرے کے شانہ بشانہ رہتے ہیں۔ برے دنوں میں ایک دوسرے کا مداوا کرناانکی
عادت بن چکی ہے ۔ عالم اسلام کے تنازعات کے حل میں پاکستان کے ثالثی کے
کردار نے بھی سعودی حکمرانوں کی نظروں میں اس کے قد کاٹھ میں اضافہ
کیا۔قدرتی وسائل سے مالا مال سعودی عرب نے پاکستان کی ہر مشکل میں بھرپور
مدد کی۔ پاکستان کو جب بھی کسی قدرتی آفت نے گھیراتو سعودی عرب نے مصیبت
زدہ پاکستانیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ 1965 کی پاک ، بھارت جنگ ہو یا افغان
پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے امداد۔ سیلاب زدگان ہوں یا زلزلے جیسی آفت ۔
سعودی عرب نے کسی محاذ پر بھی پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا۔
حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے، حرمین کے تحفظ کے
سلسلہ میں اگر کوئی کوتاہی ہوئی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ کفار کی
شہ پر مسلم ممالک کے اندر فساد اور انارکی پیدا کرنے والے منافقین امت
مسلمہ کے لئے شدید خطرہ بن چکے ہیں۔ یمن میں بغاوت ایران اور سعودی عرب کا
مسئلہ نہیں اور نہ ہی یہ شیعہ سنی لڑائی ہے۔ صلیبی و یہودی سازش کے تحت اس
مسئلہ کو الجھانے کی خوفناک سازشیں کر رہے ہیں۔
یمن مغربی ایشیاء میں واقع مشرق وسطیٰ کا ایک مسلم ملک ہے۔ اس کے شمال اور
مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب ہے اور مغرب میں بحیرہ
احمر واقع ہے۔ یمن کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیشتر عربی بولتے
ہیں۔اسلامی ملک یمن کے حالات ہر مسلمان کیلئے انتہائی پریشانی کا باعث ہیں۔
یمن جزیرہ نما عرب اور اسلامی دْنیا کا ایک انتہائی اہم ملک ہے جسکی تاریخی
لحاظ سے اپنی اہمیت ہے۔ یہاں کی ثقافت نہ صرف انتہائی قدیم ہے بلکہ اسلامی
تاریخ کے حوالے سے بہت اہمیت کی حامل بھی۔ یمن کی سعودی عرب کے ساتھ ایک
طویل سرحد ہے جسکی بنا پر دونوں ممالک کے قدیم سماجی اور ثقافتی تعلقات بھی
ہیں۔ یمن رقبے کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہے مگر آبادی اتنی زیادہ نہیں ہے۔
ذرائع آمدو رفت اور ترقی کے لحاظ سے یہ ایک نہایت پسماندہ ملک ہے جسکی بنا
پر غربت پسماندگی اور جہالت بھی عروج پر ہے۔ ان دنوں حوثی باغیوں نے یمن
میں بغاوت کاعلم بلند کیا ہوا ہے۔جس کے خلاف سعودی حکومت نے آپریشن شروع
کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس آپریشن میں سو سعودی جنگی جہازوں نے حصہ لے
رہے ہیں۔ اس آپریشن کانام دبے (Dubbe) ہے۔ جس کا مفہوم ہے ’’فیصلہ کن
طوفان‘‘۔اس آپریشن میں متحدہ عرب امارات، بحرین ، مراکش اور اردن کے جنگی
جہازوں نے حصہ لیا۔ اسکے علاوہ سوڈان اور اردن نے حملوں میں براہ راست حصہ
لیاہے۔
اس تناظر میں پاکستان نے بھی پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس بلایااس اجلاس میں
فیصلہ کرنا تھا کہ ہم سعودی حکومت کا ساتھ دیں یا غیر جانبدار رہیں؟ فیصلہ
یہ آیا کہ ہمیں اس جنگ میں غیر جانبداررہنا چاہیے۔پاکستان کی سعودی عرب سے
غیرجانبداری سمجھ سے بالا تر ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کھلم کھلا
اعلان کرتا کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ ہیں مگر یمن بھی ہمارا سلامی ملک ہے اس
لیے اس مسئلے کوپہلے ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر یمن کے
باغی ڈائیلاگ سے باز نہ آئے تو پھر ہم سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے
مگر حکومت کی جانب سے غیر جانبداری کا اعلان سب کے لیے حیران کن تھا۔ حقیت
میں یہ لڑائی یمن اور سعودی عرب کی نہیں بلکہ یہ لڑائی تو باغیوں کے خلاف
ہے۔ جس طرح پاکستان میں طالبان، افغانستان میں القاعدہ اور عراق میں داعیش
نے حکومت وقت کووقت ڈالا ہوا ہے ۔ افغانستان میں امریکہ جو آکرلڑ رہا ہے تو
کیا وہ افغانستان سے جنگ کررہا ہے؟ اسی طرح سعودی عرب بھی باغیوں کے خلاف
یمنی حکومت کی مدد کررہا ہے۔
افسو س کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں اس سنگین مسئلے کوکو فرقہ
واریت کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ شیعہ سنی کا نام دیکر اس مسئلے کو پاکستان
میں بھڑکایا جارہا ہے ۔ کچھ لوگوں کو یہاں تک کہتے سنا ہے کہ ہمارے ملک کو
دوسروں کی جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی ان لوگوں سے پوچھے کہ کیا یہ
دوسروں کی لڑائی ہے۔ کیا عراق ، کویت اور افغانستان کی طرح یمن اور سعودی
عرب میں بھی امریکہ کو لاکر بٹھا دیں تاکہ وہ سعودی عرب کے قدرتی وسائل پر
قابض ہوجائے۔ آخر ہم مسلمان اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی بجائے دوسروں کے
سہارے کب زندہ رہیں گے؟
ذرا سوچئے!کیا سعودی عرب جب ایٹمی دھماکوں کے ردعمل میں ہم پر پابندیاں
لگائی جا رہی تھیں تو غیر جانبدار رہا۔ ہمیں مہنگائی سے بچانے اور ڈالر کے
مقابلے میں ہماری کرنسی کو اوپر لانے کے لیے ڈیرھ ارب ڈالر کسی شرط کے بنا
ہمارے خزانے میں جمع کروانے والا ملک غیر جانبدار رہا؟جب بھی ہم پر مشکل
وقت آیا یہ رفیق غیر جانب دار نہیں رہا۔ پھرآج جب اس کو مدد کی ضروت پڑی تو
ہم کس طرح غیر جانبداری کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ ہمارے سیاسی حالات جب بھی
خراب ہوئے تو ہم فوراً ادھر کا رخ کرتے ہیں تو اس وقت ہم اپنی لڑائی
خودکیوں نہیں لڑتے؟ سوچئے اورغورکیجئے کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا۔بحرحال
اس وقت جب سعود ی عرب نے حملے نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو یہ ہم سب
مسلمانوں کے لیے خوش آئندہ بات ہے مگر اس سلسلے کو پایہ تکمیل پہچانے کے
لیے تمام مسلمان ممالک کو ملک کر کردارادا کرنا ہوگا۔
|