یمن پر سعودی فضائی حملے بند ، اب آپریشن کا دوسرا مرحلہ امید کی تجدید شروع ہوگا

امن کے لئے جنگجو یمنی کو ایک میز پر لانا ہوگا۔ اور انھیں اپنے معاملات خود طے کرنے کا موقع دینا ہوگا۔

یمن کے شہریوں نے بدھ کی رات اس وقت سکھ کا سانس لیا جب ان اطلاعات کی باقاعدہ تصدیق ہوگئی کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے یمن میں ہونے والا ،، فیصلہ کن طوفان،، نامی آپریشن ختم دیا ہے، چار ہفتے سے جاری اس فضائی آپریشن نے یمن کے باشندوں کی نیند اڑا دی تھی، سارے ایر پورٹ بند تھے، خوراک کی قلت کے آثار پیدا ہوچکے تھے، اور عملا پورا ملک بند تھا۔لوگ گھروں میں محصور تھے۔دو کروڑ بیس لاکھ آبادی کے اس ملک میں خوف کے سائے گہرے تھے۔ ان فضائی حملوں میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فوجی آپریشن ختم کرنے کے اعلان کے فورا بعد ہی ایران نے لڑائی سے متاثرہ افراد کو فوری امداد فراہم کرنے، اور نئی حکومت کے قیام کے لیئے مذاکرات پر زور دینا شروع کردیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے سعودی عرب اور اتحادی ممالک کے فضائی حملے بند کرنے کے فیصلے کو ’مثبت‘ قرار دیا ہے۔ لیکن دوسری جانب سعودی عرب کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ فضائی حملوں کی بندش کے بعد اب باغیوں کے خلاف آپریشن کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا، جسے ،، امید کی تجدید ،، کا نام دیا گیا ہے۔ اس دوسرے مرحلے میں حوثی باغیوں کو کاروائی سے روکا جائے گا، اور ان سے ہتھیار ڈالنے کو کہا جائے گا۔ سعودی عرب کی جانب سے بمباری بند کرنے کے اعلان سے پہلے خلیج کی صورتحال خاصی کشیدہ تھی، ایک طرف ایران کی اسلحے سے لیس کشتیاں یمن کی جانب جا رہی تھیں تو دوسری جانب امریکی بحری بیڑہ بھی حرکت میں آگیا تھا۔ اس سے قبل ایران کی بری افوج کے سربارہ برگیڈیر احمد رضا بوردستان نے ایک ٹی وی ٹاک میں دھمکی دی تھی کہ اگر سعودی عرب نے یمن میں بمباری نہ روکی تو ایران سعودی عرب کے خلاف فوجی کاروائی سے گریز نہیں کرے گا۔سعودی عرب ایران پرحوثی باغیوں کی مدد کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے، جبکہ تہران ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔یمن میں اس وقت خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے، اس وقت جاری لڑائی میں شیعہ حوثی باغیوں، سنی قبائل، سعودی عرب، ایران، خلیجی ممالک، القاعدہ، دولتِ اسلامیہ سب شامل ہیں۔ مفادات کی اس جنگ نے ملک کی صورتحال کو انتہائی سنگین کردیا ہے ۔حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ نے ملک میں اپنے سفارت خانے بند کر دیے ہیں جبکہ خلیجی ممالک نے اپنے سفارت خانے جنوبی شہر عدن منتقل کر دیے ہیں۔ یمن کی اہمیت یہ ہے کہ بحیرہ احمر کی آبنائے باب المندب جہاں سے سالانہ 20 ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں کے داخلے کا راستہ عدن سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔حالیہ فوجی آپریشن کا بنیادی مقصداقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پائے سمجھوتے پر عمل درآمد کرانا ہے۔جس سے باغیوں نے خود اتفاق کیا تھا اور دستخط کیے تھے لیکن بعد میں انھوں نے بغاوت برپا کردی تھی۔ سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالکً یہ نہیں چاہتے ہیں کہ یمن میں زمینی لڑائی ہو۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یمن میں جنگ لڑنا مہنگا اور پیچیدہ عمل ہے۔ سعودی عرب یمن میں ایران کو ایک فریق کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا ہے، اس لئے وہ ایران کی جانب سے مذاکراتی عمل کا بھی مخالف ہے۔ سعودی عرب کا خیال ہے کہ ایران کی جانب سے حوثیوں کی امداد کا بڑا مقصد یہ ہے کہ وہ یمن کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک موثر اور فعال شراکت دار بننا چاہتا ہے۔سعودی عرب یمن کے ساتھ اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگا رہا ہے اور اس کے ساتھ بحیرہ احمر کی بندر گاہ جزان میں واقع اپنے بحری اڈے کو بھی مضبوط بنا رہا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی فوجی تیاریوں اور سفارتی بھاگ دوڑ سے لگتا ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں آبنائے باب المندب پر حوثیوں کا قبضہ ہونے سے روکنا چاہتا ہے۔‘یمن میں بیرونی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ساٹھ کی دہائی کی خانہ جنگی میں مصر کے صدر جمال عبد الناصر نے جمہوریت پسندوں کی حمایت میں اپنی فضائیہ بھیجی تھی جس نے بادشاہت کے حامیوں پر کیمائی بم گرائے تھے۔سنہ 1967 تک عدن اور اس سے محلقہ صوبوں کا انتظام برطانیہ کے پاس تھا۔ جنوبی یمن پر روس کے حمایت یافتہ کمیونسٹوں کی حکومت تھی اور روس کا وہاں فوجی اڈا بھی تھا۔سنہ 1994 کی شمالی اور جنوبی یمن کی خانہ جنگی میں سعودی عرب نے شمالی یمن کا ساتھ دیا تھا۔گزشتہ 20 برسوں سے امریکی فوجی انسداد دہشت گردی میں مدد دینے کے بہانے یہاں موجود رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اگر حقیقی معنوں میں اس جنگ کا حل تلاش کرنا ہے تو تمام جنگجو یمنی کو ایک میز پر لانا ہوگا۔ اور انھیں اپنے معاملات خود طے کرنے کا موقع دینا چاہیئے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418583 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More