سرعام کسان کی خودکشی !
(Shams Tabraiz Qasmi, India)
ہندوستان میں کسانوں کی
خودکشی کا واقعہ کوئی حیرت ناک امر نہیں ہے ملک کے طول وعرض میں ہرروز کہیں
نہ کہیں سے کسانوں کے خودکشی کی خبریں آرہی ہیں ۔ نیشنل کرائم ریکاڈ بیورو
کی رپوٹ کے مطابق ہندوستان میں یومیہ 2000 کسانوں کی خودکشی کا واقعہ پیش
آتا ہے ۔ ایک دوسر ی رپورٹ کے مطابق یہاں ہر تیس منٹ میں اک کسان خودکشی
کرتا ہے ۔نریندر مودی کے زیر اقتدار حکومت میں کسانوں کی خودکشی کا واقعہ
مزید بڑھ گیا ہے ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جتر منتر پر ہزاروں کا مجمع تھا ۔
چھوٹے بڑے لیڈران تھے ۔ سیکوریٹی دستہ تھا ۔ پولس تھی ۔ تحفظ کے تمام تر
اسباب وہاں موجود تھے اس کے باجود ایک کسان درخت پر چڑھتا ہے، کپڑا باندھتا
ہے اور درخت سے لٹک کر خودکشی کی موت مرجاتا ہے۔اپنی خودکشی کی وجہ بتانے
کے لئے یہ نوٹ بھی لکھ جاتا ہے کہ’’ زالہ باری اور بے موسم بارش کی وجہ سے
اس کی زندگی سہارا ختم ہوگیا ہے وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھوکا رہنے پر
مجبور ہے اور اس کے لئے مرکزی اور ریاستی سرکار ذمہ دار ہے ‘‘۔
راجستھان سے تعلق رکھنے والا یہ بے بس کسان جس وقت خودکشی کررہاتھااس وقت
کسانوں کی مسیحائی کا دعوی کرنے والے اروندکجریوال کی ھواں دھار تقریر جاری
تھی ۔خودکشی کا علم ہوجانے کے بعد بھی کجریوال نے اپنی تقریر کا سلسلہ ختم
نہیں کیا ۔ ایک غریب اور ستم ر سیدہ کی موت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔تقریبا
ایک گھنٹہ بیس منٹ تک ان کی ریلی جاری رہی ۔بعد میں جب یہ پوچھا گیا کہ موت
کے بعد کجریوال نے تقریر بند کیوں نہیں کی تو ا س کے جواب میں عام آدمی
پارٹی نے یہ بے معنی دلیل دے کر کجریوال کا دفاع کیا کہ اچانک تقریر بند
کرلینے سے بھگڈر مچ جانے کا اندیشہ تھا ۔مزید کئی جانوں کے ضیاع کا خطرہ
تھا ۔ سچائی یہ ہے وزیر اعلی بننے کے بعد کجریوال نے کوئی ریلی منعقد نہیں
کی تھی جبکہ ریلی اور احتجاجی مظاہروں سے خطاب کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے
اس لئے وہ اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق پوری تقریر کرنے کا من پہلے ہی بنا
چکے تھے ۔انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہماری ریلی کسی کے موت کا سبب
بن گئی ہے ۔
ہندوستانی کا سیاست کا حالیہ سب سے اہم موضوع کسان ہے ۔ تحویل اراضی بل کو
لے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان مستقل جنگ جاری ہے ۔مودی حکومت
ہرحا ل میں تحویل اراضی بل پاس کرانے کی ضد پر اٹل ہے تو دوسر ی طرف پورا
اپوزیشن اس بل میں کی گئی ترمیم کے خلاف ہے ۔ ہندوستان کا کسان طبقہ بھی اس
بل کے خلاف ہے ۔کسانوں کے حوالے سے دوسر ا سب سے اہم موضوع اس وقت کسانوں
کے فصل کے ہونے والے نقصانات کا ہے ۔
ہندوستان کی 60 فی صد آباد ی زراعت سے وابستہ ہے ۔ کاشت کاری ہندوستانیوں
کا سب سے اہم اور پرانا پیشہ ہے ۔کسانوں کی زندگی کا سارا دار ومدار زراعت
پر ہوتا ہے۔ یہی ان کا ذریعہ معاش ہوتا ہے ۔ ایسے میں فصلوں کا تباہ وبرباد
ہوجانا کسانوں کے لئے سب سے دکھ بھرا معاملہ ہوتا ہے ۔ ان کی قوت برداشت
جواب دے جاتی ہے اور خودکشی کرلیتے ہیں ۔ خود کشی کرلینے کی وجہ صرف یہ
نہیں ہوتی ہے کہ فصلیں تباہ ہوجاتیں بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے آج کا زراعت
بہت زیادہ مہنگی ثابت ہورہی ہے ۔ کھاد کی قمیت آسمان چھورہی ہیں ۔ مزدوروں
کی اجرات بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ کھیتوں کی جتائی کام بھی اب مہنگا ہوگیا
ہے ۔ بڑے کسانوں کو زیادہ پریشانی نہیں ہوتی ہے لیکن چھوٹے کسانوں کے لئے
زراعت میں اس قدرسرمایہ کا لگانابہت ہی معنی رکھتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ
نہ ملے ۔ لگا یا گیا سرمایہ ڈوب جائے تو کسان یہ کیسے برداشت کرے گا۔ زندگی
کی گاڑی کیسے آگے بڑھائے گا ۔
حکومت ہندفصلوں کے نقصان ہونے کی صورت میں معاوضہ کا اعلان تو کرتی ہے لیکن
یہ معاوضہ بھی بڑے کسانوں تک ہی پہچ پاتا ہے چھوٹے کسانوں کو نہیں مل پاتا
ہے ۔ کسانوں کی بھلائی اور ان کے ساتھ ہمدردی اسی میں ہے کہ کھاد کی بڑھتی
ہوئی مہنگائی ختم کی جائے ۔ چھوٹے کسانوں کو کھیتی کے پر آنے والے خرچ کے
لئے کچھ رقم مہیا کرائی جائے ۔زراعت سے وابستہ تمام اسباب کی قیمت کم جائیں
۔ تب ہی جاکر خودکشی کا یہ سلسلہ رکے گا ۔ فصلوں کی تباہی پر کسانوں کو
زیادہ افسوس نہیں ہوگا ۔ |
|