ظلم کی تاریکی چھٹنے والی ہے

مسلمانوں کے خلاف جہاں یہود و نصاری کی دشمنی ازلی ہے تو امت مسلمہ کے خلاف ہندو دشمنی بھی دائمی ہے۔اگر کوئی شخص یہ فریب نفس رکھتا ہے کہ امن کی آشا کے نام پر ہندو ، مسلم قربتیں بھائی چارے میں تبدیل ہوجائیں گی تو ہمیں ہندوستان کے وزیر دفاع مسٹر جون کا وہ بیان دوبارہ پڑھ لینا چاہیے جو ستمبر65ء کی جنگ میں پاکستان سے شکست کھانے کے بعد دیا گیا تھا ۔ مسٹر جون کا کہنا تھا کہ "پاکستان اور ہندستان کے درمیان اسی دن مخاصمت کی بنیاد رکھ دی گئی تھی جس دن پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان آئیڈلوجی کا اختلاف ہے ۔ اس کے سوا کوئی اختلاف نہیں اور یہ اختلاف اور دشمنی مہینے اور ہفتے بھر کی نہیں بلکہ سالہاسال تک رہے گی ، بھارت کو اس لئے ایک فیصلہ کن جنگ کیلئے تیار رہنا چاہیے۔"

کچھ پرانی بات نہیں ہے کہ ایسے یاد نہ کیا جاسکے ۔ لال بہادر شاستری نے این۔ سی۔ سی کے ایک اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ" پاکستان جو ہمیشہ اسلام کی اصطلاح میں سوچتا ہے اس دھوکے میں ہے کہ وہ کشمیر کو اس لئے ہڑپ کرلیگا کہ وہ مسلم اکثریت کا علاقہ ہے ۔ یہ پاکستان کی خام خیال ہے ، ہندوستان میں پانچ کروڑ مسلمان بستے ہیں اگر پاکستان یہ سوچتا ہے کہ وہ مسلم اکثریت کے بل پر کشمیر کو لے سکتا ہے تو اسے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ اس صورت میں ہندوستان کے پانچ کروڑ مسلمانوں کا کیا ہوگا۔"

آج جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہندو انتہا پسند حکومت کے خلاف کشمیری عوام کے دل کی آواز ہے کہ آج لاکھوں فوجی کشمیر میں قابض ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کا پرچم لہرادیا جاتا ہے۔ ہندوستان کی سر زمین ہوتو بھی پاکستانی قومی ترانے کی گونج ہندو انتہا پسند حکمرانوں پر بجلی بن کر گرتی ہے اور تلملا جاتے ہیں۔کشمیری مسلمان اپنا حق حاصل کرنے کیلئے کئی دہائیوں سے جد وجہد کر رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی کہ آخر یہ مظلوم عوام بار بار بھارتی فوجیوں کے تشدد اور فائرنگ کے سامنے آکر خود کو نشانہ کیوں بناتی ہیں ، اقوام متحدہ اپنے ہی قوانین و قرارداووں پر عمل کیوں نہیں کرتی۔

پاکستان کے حصول کیلئے مسلمانان ہند نے بڑی قربانیاں دیں ہیں 15اگست1947ء نظریاتی بنیاد پر ، دوقومی نظریئے کے تحت دو ممالک دنیا کے نقشے پر نمودارہوچکے تھے دو روز بعد مسلمانوں نے آزادی کی فضا میں پہلی عید منائی لیکن ہنوز نماز عید کی تکبیریں پوری بھی نہیں ہوئی تھیں کہ مشرقی پنجاب اور اس کی ریاستیں تابھ ، پٹیالہ ، کپورتھلہ، فرید کوٹ سے مسلمانوں کے منظم اور وسیع پیمانے پر قتل عام کی خبریں آنا شروع ہوگئیں، اس قتل و غارت گری میں ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ، عورتوں کو اغوا کرلیا گیا ، بچوں کو سنگینوں کی نوک پر اچھالا گیا ، عصمت دری کے واقعات ہونے لگے بعض شہروں میں مردوں کو ختم کرکے نوجوان عورتوں کے برہنہ جلوس نکالے گئے۔چند ہی ہفتوں کے اندر اندر تقریباََ پانچ لاکھ مسلمان قتل کردیئے گئے، اس کے بعد قتل و غارت گری کی اس آگ کا رخ دہلی کی طرف پھرا اور ہندستان کے دارالسطنت میں پورا ستمبر کا مہینہ اس قسم کے قتل عام میں گزرا جس کی مثال تاریخ کے اوراق میں کہیں نہیں ملتی ، ایک اندازہ کے مطابق اس خونی تماشے میں بھارت میں قریب دس لاکھ مسلمان قتل و غارت گری کے نذر ہوئے اور قریب ایک کروڑ مسلمان ، انتہائی کسمپرسی کے عالم میں، کسی نہ کسی طرح جان بچا کر پاکستان پہنچ گئے ، تارکین ِ وطن کے ساتھ راستے میں کیا گذری ، اس پر صفحہ قرطاس بھی کم پڑ جائے لیکن نوجوان نسل کوچند واقعات کا ذکر کرتا چلوں کہ نومبر1947ء میں ضلع انبالہ کے کرالیا کیمپ سے پانچ ہزار پناہ گزینوں کا قافلہ لائیپور کے قریب پہنچا ، ان میں سے دو ہزار مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے ، ان میں پیچش کا مرض عام تھا ، اس کیمپ میں انہیں جو کھانا کو دیا جاتا تھا جب اس کا کیمیاوی تجزیہ کیا گیا تو اس میں نیلاتھوتھا کا زہر ملا ہوا تھا ، ایک گاڑیٰ 11نومبر کو دہلی پہنچی تو اس میں سفر کرنے والی عورتوں اور لڑکیوں نے بتایا کہ حکومت ِ ہند نے جو سپاہی ان کے حفاظت کے لئے متعین کئے تھے انہوں نے کس طرح ان عصمت دری کی، ایک ٹرین میں قریب ڈیڑھ ہزار پناہ گزین دہلی سے آرہے تھے کہ امرتسر کے قریب ان سب کو ختم کردیا گیا۔یہ سب کچھ دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی لیکن مسلمانوں کی تباہی کو بچانے کے لئے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔

امن و عدم تشدد کے نام نہاد علمبردار مہاتما گاندھی نے 26ستمبر1947ء کی شام اپنی ایک پراتھنا کی میٹنگ میں کہا تھا کہ "اگرچہ میں نے جنگ کی ہمیشہ مخالفت کی ہے لیکن اس سلسلہ میں پاکستان سے انصاف حاصل کرنے کا کوئی اور طریق کار گر نہ ہوا تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ ہندوستان ، پاکستان کے خلاف جنگ کرے"۔

آج جو کچھ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ دراصل لال بہادر شاستری کی اُسی دہمکی کا عملی مظاہرہ ہے جو کشمیر کے حوالے سے دہمکی دی گئی تھی کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک میں جس قدر تیزی لائی جائے گی ہندوستان کے مسلمان اور کشمیر کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا جائے گا ۔ آج کشمیر میں بھی یہی ہو رہا ہے ۔ کشمیری نوجوانوں کو پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی جا رہی ہے بلکہ بھارت کی شہ پر اس کا دم چھلا بن جانے والی بنگلہ دیش کی حکومت پاکستان کیلئے جد وجہد کرنے والوں کو مسلسل تختہ دار پر لٹکا کر بھارت نوازی کا حق ادا کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش یہ نہیں سوچتا کہ اس کا وجود کسی لسانی اکائی کی بنیاد پر نہیں بنا تھا بلکہ متحدہ پاکستان کا مقصد دو قومی نظریہ تھا ، اگر بنگلہ دیش پاکستان کی اساس کو نہیں مانتا تو کیا اس نے اسلام کا نام استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے کہ وہ آج تک بنگلہ دیش بننے کے مخالفین ، متحدہ پاکستان کے حمایتوں کو پھانسی کی مسلسل سزا دے رہا ہے ، بنگلہ دیش کا وجود پاکستان کے دو قومی نظریہ کے مرہنون منت تھا اور ہے ، وقت ثابت کرے گا کہ لسانیت اور قوم پرستی پر جذبہ امت مسلمہ غالب آکر رہے گا ۔ آج کشمیر میں کشمیری اس لئے اپنی جان کی بازی نہیں لگا رہے کہ وہ کشمیری نسل کا احیا چاہتے ہیں بلکہ ان کے جسموں پر کفن کی جگہ پاکستان کا جھنڈا لپٹا ہوتا ہے ، ان کے سر پر کفن کی جگہ پاکستان کا جھنڈا بندھا ہوتا ہے ان کے سینوں پر جب گولی مار ی جاتی ہے تو پہلے پاکستان کا پرچم زخمی ہوتا ہے پھر کشمیری جسم چھلنی ہوتا ہے۔ہندوستان میں رہنے والے مسلمان کب تک بھارتی ہندو انتہا پسندوں کے مظالم کو برداشت کرتے رہیں گے ایک وقت یقینی جلد آئے گا کہ ہندوستان میں ایک نئے پاکستان کا جنم ہوگا ، ظلم کی کوکھ سے مظلوم نے اپنا حق حاصل کیا ہے۔ہر بڑھتے ظلم کو حساب دینا ہوتا ہے۔ پاکستان میں رہنے والے وہ لوگ جنھوں نے ظلم کے دریا عبور کرکے اس پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا آج چند عناصر کے ہاتھوں مشکلات کا شکار ضرور ہے لیکن انھیں اس بات کا یقین ہے کہ ظلم کی اندھیری رات کے بعد ایک خوبصورت صبح کا آغاز بھی ہوتا ہے، ہندوستان کے مسلمان بھی اسی صبح کیلئے تاریک گھپ اندھیرے میں کشمیری مسلمانوں اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلموں کو ایک وقت تک ہی برداشت کرسکتے ہیں ہمیشہ نہیں ۔ظلم کی تاریکی بہت جلد چھٹنے والی ہے۔ انشا اﷲ ۔۔۔۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744988 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.