پیپلز پارٹی نے کراچی کے ککری
گراؤنڈ میں جلسہ کرکے زندہ ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کی، مقررین میں بھی
ہلکی ہلکی زندگی کی رمق نظر آئی۔لیکن اس جلسہ سے ایک دن قبل ہونے والے
کنٹونمنٹ کے انتخابات تو پیپلز پارٹی کی آخری سسکیوں کا پتہ دے رہے
ہیں،سوال یہ ہے کہ کسی وقت میں ملک کی سب سے بڑی اور پاپولر مانی جانے والی
جماعت دوبارہ سانسیں لے سکے گی؟ اس سوال کا جواب ذرا ٹھہر کے پہلے یہ تو
دیکھیں ان کنٹونمنٹ بورڈ زکے انتخابات میں کس نے کیا پایا؟ کیا کھویا؟ اور
مستقبل قریب میں آنیوالے بلدیاتی انتخابات میں کیا ہوگا؟ تھوڑا سا جائزہ تو
بنتا ہے ناں!
اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر کے 18 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز کنٹونمنٹ
بورڈز کے بلدیاتی انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ان انتخابات
میں کل 18 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے
امیدواروں کی تعداد 541 تھی جبکہ آزاد امیدواروں کی تعداد تھی۔پاکستان مسلم
لیگ(ن)نے سب سے زیادہ 67 نشستیں حاصل کیں جبکہ اس کے 128امیدوار میدان میں
تھے،کامیابی کا تناسب ففٹی ففٹی رہا۔پاکستان تحریک انصاف 43 نشستوں کے ساتھ
تیسرے نمبر پر رہی ہے جبکہ اس کے سب سے زیادہ امیدوار میدان میں تھے۔ان کی
تعداد 137 تھی ۔تحریک انصاف کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد سے بھی کم بنتا
ہے۔ ایم کیوایم 18 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور اس کے امیدواروں
کی تعداد 27 تھی سب سے زیادہ کامیابی کا تناسب ایم کیو ایم کا ہے ۔ 57 آزاد
امیدوار بھی کامیاب قرار دیے گئے ہیں۔جن کے امیدواروں کی تعداد 610 تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے 89امیدواروں میں سے صرف سات کامیاب ہوسکے،جماعتِ
اسلامی کے 74امیدواروں میں سے سات کامیاب ہوئے ہیں ،جس کی کامیابی کا تناسب
پیپلز پارٹی سے قدرے بہتر ہے،،اے این پی کے 13 امیدواروں نے بلدیاتی
انتخابات میں حصہ لیاجن میں سے دو کامیاب ہوسکے ہیں۔
یہاں ستتر سالہ پرانی جماعت اسلامی کا سات نشستیں حاصل کرنا ہرگز قابل
اطمینان نہیں لیکن این اے 246 کے دھچکے کے بعد جماعت اسلامی کے کارکنوں کے
لئے ھوا کا تازہ جھونکا ضرور ہے،اس انتخابی معرکے میں جمعیت علمائے اسلام
نظر نہیں آئی،لاہور میں دھرنا باز پارٹی پاکستان عوامی تحریک کو تو عوام نے
ایسے مسترد کیا ہے کہ ان کی ضمانتیں بھی ضبط ہوگئیں ہیں۔باقی چھوٹی بڑی
دینی جماعتوں کا تو نام و نشان بھی کسی حلقے میں نظر نہیں آیا۔تمام دینی
جماعتیں سوچیں کہ آخر غلطی کہاں اورکس میں ھے کیونکہ اسلام کے نام پر تخلیق
پانے والے(جیس کہ ان کا خیال ہے) ملک میں سب سے کم اعتماد مذہبی جماعتوں پر
کیا جارہا ہے ۔اسکے برعکس عام عوام کی تائید مسلم لیگ،تحریک انصاف اور ایم
کیو ایم کیساتھ ہے۔آخر میں پشتونوں کے خود ساختہ ٹھیکدارمیپ اوراے این پی
بھی یاد آگئے تو دونوں کو ملنے والی سیٹوں کی مجموعی تعداد 3 ہے لگ یہ رہا
ہے کہ پشتونوں نے قوم پرستی کی سیاست کوتقریباً ترک کردیا۔ہاں! یاد آیا اس
الیکشن میں سابق فوجی صد رپرویز مشرف کو سو بار وردی میں منخب کروانے کا
اعلان کرنیوالی ق لیگ نظر نہیں آئی،کہیں کوئی امیدوار ایسا نہیں پایا گیا
کہ جس نے کہا ہو کہ میرا ق لیگ سے تعلق ہے۔
کوئی سمجھے تو یہ الیکشن نہیں مستقبل میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات کیلئے
وارننگ ہے،نتائج سے صاف نظر آ رہا ہے کہ اگلی جیت بھی ن لیگ کی ہی
ہوگی،تحریک انصاف غلطیوں سے بعض نہ آئی تو آئندہ الیکشن اس کیلئے موت بن
جائینگے،پیپلزپارٹی کے اتحادی تو مٹ گئے،اب خود زندگی کی جنگ لڑرہی ہے،خود
کو زندہ رکھنے کیلئے جلسے کررہی ہے،زرداری صاحب تو سب پہ بھاری ہیں اور یہ
بھی جانتے ہیں کہ جلسوں سے الیکشن نہیں جیتے جاتے تو پھر ڈوبتے کو تنکے کا
سہارا کیوں؟ بلاول کے بغیر بات نہیں بنے گی اور زرداری صاحب کرسی نہیں
چھوڑیں گئے۔پیپلز پارٹی نے یہ نہ کیا تو انجام سب کے سامنے ہے۔ پوچھنے والے
پوچھتے ہیں کہ کیا بھٹو مزید زندہ رہے گا؟
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
مٹ گئے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے |