سیاسی ایمانداری اور ایمان

دہلی میں نووارد عام آدمی پارٹی کا وجود بد عنوانی کیخلاف احتجاج درج کرانے سے ہوا۔دنیا شاہد ہے کہ جب بدعنوانی پر لگام لگانے کا مطالبہ اور لوک پال و سوراج کا مطالبہ کیا گیا تو خود سیاسی پارٹیوں نے کجریوال سے کہا کہ اگر آپ کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں اور لوک پال کے ذریعے سوراج لانا چاہتے ہیں تو انتخاب لڑیں اور پارلیمنٹ یا اسمبلی میں آکر از خود اس کام کو انجام دیجئے ۔تاریخ گواہ ہے کہ جب جب بدعنوانی کیخلاف کسی نے آواز اٹھائی کسی نہ کسی صورت میں اس کی سزا اسے ملی ۔یہ بات تمام سیاسی لیڈروں کے علم ہے اور اسی لئے انہوں نے کہا کہ ملک سے بدعنوانی ختم کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے ۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں کجریوال کی ٹیم نے دم خم دکھاتے ہوئے نا صرف ان کا جواب دیا بلکہ انہوں انا ہزارے کی مرضی کیخلاف پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا اور با ضابطہ اس کا اعلان بھی کیا ۔حالانکہ بدعنوانی کیخلاف تحریک کے روح رواں انا ہزارے سیاسی میدان کو گندگی سے تعبیر کرتے آئے ہیں اور انہوں نے کبھی بھی اس کی تائید نہیں کی لیکن حالات کے مطابق انہوں نے گاہے بگاہے کجریوال کی تائید اور حوصلہ افزائی کرتے رہے ۔بہر کیف بہت کم وقت میں کجریوال نے وہ کامیابی حاصل کی جس کی نظیر مشکل سے ملتی ہے ،خاص کر سیاسی میدان میں اتنی تیزی سے کوئی آگے پیش رفت نہیں کر سکتا ہے لیکن کجریوال نے یہ کر دکھا دیا ۔پہلی بار جب ان کا کوئی نام و نشان نہیں تھا انہوں نے ۲۸؍سیٹیں لاکر سب کی توجہ کا مرکز بنے اور جب انہیں احساس ہو گیا کہ جب کسی کو امید ہی نہیں تھی تب اتنی سیٹیں جیت کر حکومت بنا لی ہے تو اب جب ان کے کام اور فکر سے دنیا واقف ہو چکی ہے اور انہیں جتنی پذیرائی ملنی تھی مل گئی ہے تو انہوں نے لوک سبھا الیکشن میں حصہ لیا ۔یہ الگ بات ہے کہ پارٹی پورے ہندوستان میں چار سو سے زائد سیٹ جیتنے کے با وجود محض چار سیٹوں پر سمٹ گئی ۔لیکن سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ پارٹی کی شاخیں ہر ضلع میں قائم ہو گئی اور اس پارٹی کی پہچان قومی سطح پرہونے لگی ۔بہر کیف انہوں نے دہلی میں دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کیا اور پھر الیکشن ہوا جس کے نتائج سب کے سامنے ہے کہ عام آدمی پارٹی نا صرف اپنی جیت درج کرائی بلکہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور سب کو پچھاڑ دیا ۔اس غیر معمولی کامیابی سے جہاں عام آدمی پارٹی کے حوصلے بلند ہوئے ہیں وہیں فرقہ پرست اور وعدہ خلاف پارٹیوں کے ہوش اُڑگئے ۔

ان سب کامیابی کے پیچھے کون سی چیز کارفرما تھی وہ کیا بات تھی جس کے بل بوتے پر اتنی بڑی کامیابی ملی اور آج وہ پارٹی دنیا میں بھر میں مشہور و معروف ہو کر دہلی جیسے راجدھانی میں حکومت کر رہی ہے ۔یہ امت مسلمہ کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔جب ایک شخص ایماندار ی کی بات کہہ کر اتنی بڑی کامیابی حاصل کر سکتا ہے ۔جب ایمانداری کی دہائی دیکر کوئی شخص دہلی میں پرچم لہرا سکتا ہے تو وہ قوم جس کے پاس ایمان جیسی طاقت ہے وہ کیوں کر ناکام ہو سکتی ہے ۔جب ایک شخص جس کے پاس خوفِ خدا بھی نہیں ہے اور ناکوئی نظریہ حیات ہے اور نہ کوئی ایسی فکر ہے جو اس کو ابدی ابدی جنت اور دوذخ کی بشارت دے اس کے باوجود عوام اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ۔ٹھیک جب ماضی میں مسلمان اور علماء کرام ایمان کی دولت لیکر دنیا کے سامنے پیش کیا اور خود اﷲ کے رسول اﷲ نے ایسے زمانے میں ایمان کو پیش کیا جب ہر خیر ناممکنات میں شامل تھی ۔ظلم و جبر اور فحش کا بازار گرم تھا ہر جگہ ناک کی لڑائی چھڑی تھی کوئی کسی کو داماد بنانے کیلئے راضی نہ تھا بلکہ اس کے خوف سے ہی اپنی لاڈلی بیٹی کو زندہ درگور کر دیتا تھا ،ایسے حالات میں اﷲ کے رسول ؐ نے ایمان کی دولت سے پورے عرب معاشرہ کی کایا پلٹ دی ۔اس کے بعد دنیا نے وہ دن بھی دیکھا جب بنو امیہ کے ایک خلیفہ نے کہا تھا کہ’’ ائے بادل توجہاں بھی جائے گا وہاں کا خراج میرے پاس آئے گا ۔یعنی دنیا کا کوئی ایسا کونہ نہیں تھا جہاں اسلامی سلطنت میں سورج غروب ہوتا ہو پوری دنیا میں اسلامی حکومت قائم تھی ۔آخر وہ ایمان کی ہی دولت تو تھی جس کے سہارے مسلمانوں نے پوری دنیا میں بے مثال حکومت قائم کر کے دکھا دیا اور بڑی تعداد میں بندگان خدا اسلام کی آغوش میں آتے رہے اور اس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے چونکہ حق غالب ہونے کے لئے ہی آیا ہے اور وہ غالب ہو کر رہے گا ۔

ہندوستانی مسلمان ذرا ان پہلوؤں پر غوروفکر کریں آخر وہ کون سی بات تھی جس کی وجہ سے آج ہم پوری دنیا میں ذلت و رسوائی کا سامنا کر رہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا ایمان ختم ہو گیا ہو اور ہم آسمان سے زمین پر پٹخ دیئے گئے ہیں ۔سوچئے جو لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اب ایماندار ی سے ترقی نہیں کر سکتے یا پھر آج ایمان سے کیا ہوگا آج اس تیز رفتار دنیا میں ترقی کیلئے ایمان ہونا اور ایمان داری کی بات کرنا فضول ہی نہیں بلکہ اپنی ترقی کو تنزلی میں بدلنے کے مترادف ہے ۔

لیکن مسٹر کجریوال نے تو ایمانداری کی قسم کھا کر دہلی کی کرسی حاصل کر چکا ہے تو بتائے اگر دنیا کے سامنے ایمان پیش کی جائے تو کیا کیا حاصل ہو سکتا ہے ۔ایمان اور ایمانداری کی اہمیت کل بھی تھی اور آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے ایمان کی طاقت کو پہچان لیں اور دنیا کے سامنے ایمان پیش کریں تو وہ وقت دور نہیں کہ پھر سے اسلام کا سورج پوری دنیا میں چمکے گا اور دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں ہوگا جہاں سورج غروب ہو جائے ۔جب ایمانی فیصلہ ہوتا ہے تو دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے کہ انقلاب کیسے آتا ہے اور اسلام دشمن طاقتیں کیسے شکست سے دوچار ہو تی ہیں ۔اگر ہم کامیابی چاہتے ہیں اور فرقہ پرستی پر لگام لگانا چاہتے ہیں تو ہمیں برادران وطن کے سامنے حق کو پیش کرنا ہوگا اور اپنے ایمان کا جوہر دکھا کر ان کے دلوں میں خوف خدا پیدا کرنا ہوگا ،ان کے ساتھ معاشرہ میں معاملات ایمان کے ساتھ کریں ان سے محبت کریں اور فائدہ یا نقصان کا ذمہ صرف اس خدائے واحد پر چھوڑ دیں جس کے قبضہ قدر میں ساری دنیا ہے اور وہی سب کا نگہہ بان ہے ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 112523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.