کس لئے آئے تھے اور کیا کر چلے

اس عالم میں نظر آنے والی ہر چیز معرض وجود میں آنے کا کوئی مقصد رکھتی ہے۔ مشاہدات اور تحقیق و جستجو سے کبھی تو وہ مقصد ہماری سمجھ میں آجاتا ہے اور کبھی کبھار فطری کمزوریوں کی بنا پر سمجھ سے بالا تر، خالق کائنات نے واشگاف ، الفاظ میں ارشاد فرمایا، زمین و آسمان اور ان کے مابین جو کچھ بھی ہے ہم نے لہو و لعب کے لئے پیدا نہیں کیا۔ (سورۃ الدخان آیت 38) اگر حضرت انسان کا موازانہ دیگر تخلیقات باری تعالیٰ سے کیا جائے تو عجیب صورتحال سامنے آتی ہے انسان کو خالق کائنات نے اپنی تخلیق کا شاہکار بنایا۔ خلافت ارضی کا سہرا اس کے سر پر سجایا، ابلیس جب عظمت آدمیت کا منکر ہوا ور حکم الٰہی کے باوجود سربسجود نہ ہوا تو اسے اس جرم کی پاداش میں بارگاہ قدس سے راندہ درگاہ ہونا پڑا۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ اولاد آدم کو شرف و کرامت سے نوازنے والے ہم ہیں، اور ہم نے ہی خشکی و تری کو س کے لئے مسختر کردیا ہے (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر70) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شجر وحجر نباتات، جمادات اور اجرام فلکی تو اپنے تخلیقی مقاصد سے آراستہ ہوں اور وہ انسان جس کی خدمت کے لئے ان مخلوقات کو وجود ملا وہ بے مقصد ہو، اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو کچھ بھی زمین میں ہے اسے انسانو تمہارے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے(سورۃ البقرۃ آیت 29)
کھیتیاں سرسبز ہیں تیری غذا کے واسطے
چاند سورج اور ستارے ہیں ضیاء کے واسطے
جانور پیدا کیے تیری وفا کے واسطے
سب جہاں تیرے لئے اور تو خدا کے واسطے

قرآن پاک نے تخلیق انسانیت کا یہ مقصد بیان کیا ہے کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت یعنی معرفت کیلئے پیدا کیا ہے۔ (سورۃ الزاریات، آیت 56) فلسفہ اخلاقیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی چیز کی خوبی اور حسن کا معیار کی ہے جس چیز کو جس مقصد کیلئے بنایا گیا ہو اگر وہ اپنا تخلیق مقصد پورا کر رہی ہے تو حسن و خوبی موجود ورنہ نہیں۔ مثلاً قلم لکھنے کے لئے بنایا گیا، بہت خوبصورت اور پرکشش ہو مگر لکھے نہ تو ہماری غیرت گوارہ نہیں کرتی پاس رکھیں۔ Dust Bin میں پھینک دیتے ہیں۔ ان مقاصد حیات کی بجا آوری کے لئے جن اسباب کی ضرورت تھی اس حیم و کرم نے بطریق احسن عنایت فرمادئیے، انسان کی جسمانی اور روحانی نشو ونما کے لئے محیر العقول اہتمام فرمایا گیا، انسانی وجود کی بقاء کیلئے آکسیجن کاربوہائیڈریٹس، وٹامنز، لحمیات، نمکیات اور پانی انتہائی ضروری تھے۔ انہیں بھی اسی مٹی میں پیدا ہونے والے پھول، سبزیاں اور اناج وغیرہ میں رکھ دیا دیا جس سے وجود آدم خاکی کی خلقت کا مرحلہ پایہ تکمیل تک پہنچا اور انسانی وجود کی بیماری کی صورت میں اسباب شفا کے طور پر بے شمار جڑی بوٹیاں اور پودے پیدا کردئیے جس سے تحقیق کرکے ادوایات تیار کرتی ہے گویا انسانی وجود کیبقاء ان خدادا نعمتوں کے بغیر ناممکن ہے، لیکن ہمیں اس حقیقت سے بھی پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے کہ انسان صرف مادی وجود کا نامنہیں بلکہ تعلیمات قرآنیہ کے مطابق جسم او ر روح دونوں کا حسین امتزاج انسان ہے۔

اس کی روحانی استعداد کو جلا بخشنے کے لئے روز اول سے انبیاء و رسل کی بعثت کا سلسلہ شروع فرمایا جو ہر دور میں انسانوں کو مقصد حیات سے آگاہ کرتے رہے اور گم کردہ راہ انسانوں کو ظلمت و گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر قرب الٰہی اور خدا شناسی کی منزل تک پہنچاتے رہے۔ اور پھر جب انسانیت عالم شباب کو پہنچی تو حضور کو خاتم النبین بنا کر زماں و مکاں کی حدوں کو توڑ دیا، گویا مذہب اور انسان لازم و ملزوم قرار پائے، جتنی انسان کی عمر ہے مذہب کی عمر ایک لمحی بھی کم نہیں ہے، کیونکہ مادی وجود مین انسان اول حضرت آدم علیہ السلام میں اور ان ہی کے سر پر تاج نبوت بھی سجا دیا گیا دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ زندگی کے جس دور میں بھی انسان مذہبی بیزار ہوتا تو نتیجتاً عظمت انسانیت کی خلعت فاخرہ سے اس حد تک محروم ہوئے کہ حیوانیت بھی شرمانے لگی۔ زندگی گزر جاتی ہے کسی کا انتظار نہیں کرتی، جو لمحہ گزر گیا ، زمانے بھر کی دولتیں لٹا کے بھی واپس نہیں لایاجاسکتا۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ان لمحات کی قدر کرتے ہیں، یقینا بامقصد زندگی کا شعور اور آگاہی نعمت غیر مترقبہ ہے۔
ہمارا کام تھا راتوں کو رونا یاد مولا میں
ہماری نیند تھی محو خیال یاد ہو جانا

رگوں میں خون دوڑنا حس و حرکت کرنا اور افزائش نسل ہونا حیوانوں اور انسانوں میں قدر مشترک ہے، انسانی امتیاز سینے میں دھڑکنے والے اس دل کی وجہ سے ہے معرفت الٰہی کے خزانوں کو جذب کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ (Medical Science) جسمانی طب اسے (Pamping Station) سے تعبیر کرتی ہے جو پورے وجود کو خون کا ایک ایک قطرہ Supplyکرتا ہے۔ وجود کے انگ انگ تک جانے والا قطرہ دل سے ہو کے جاتا ہے۔ جب وہ قطرہ خون ذکر الٰہی اور عشق رسول ﷺ کی لذت سے آشنا ہو کر آنکھ تک پہنچا تو وہ حیا دار بن گئی۔ دماغ کی شریانوں تک پہنچا تو سوچ اور فکر کا دھارا درست ہوگیا۔ ہاتھوں تک پہنچا تو غریب کا پنجہ مروڑنے کی بجائے غریب پرور بن گئے۔ ابھی وقت ہے تلافی مافات کا سامان ممکن ہے، اگر مہلت کے لمحات سمٹ گئے تو لاچارگی کے سوا کچھ بھی نہیں بقول کسے
وقت پر کافی ہے قطرہ آب خوش ہنگام کا
جل گیا جب کھیت مینہ برسا تو پھر کس کام کا

جب تک فطرت کے مقاصد کے مطابق رموز حیات سے آشنائی نصیب نہ ہو تو بسا اوقات ظاہری مطالعہ کتب کی مشق کر لینے کے باوجود انسان حقیقت ناآشنا رہتاہے۔ کشف المعجوب شریف میں داتا گنج بخش ؒ نے حضرت علی ؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہنچان لیا اس نے رب کو پہنچان لیا۔
ڈھونڈھنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
جس نے سورج کی شعاعوں کر گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
(علامہ اقبال)
(روزنامہ جنگ جمعہ 11اپریل، 2014)
 
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219610 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More