صاحبو ! چینی صدر شی چن
پنگ کے تاریخی دورہ پاکستان ان کے عوامی سطح پر والہانہ استقبال اور اس
دورہ کے دوران 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اوراقتصادی رہداری کے 53معائدوں
پر دستخط جن میں 28ارب ڈ الرکے معائدوں پر فوری کام شروع کرنے کے اعلان نے
بھارت سمیت بہت سوؤں کے ماتھے پر شکنے ڈال دی ہیں حالانکہ امریکی صدر
اوباما کا پاکستان کو نظر انداز کر کے دورہ بھارت کے دوران سول ایٹمی
ٹیکنالوجی اور دیگر دفاعی واقتصادی معائدوں سمیت بھارت کو سلامتی کونسل کا
مستقل رکن بنانے کے لئے مکمل حمایت پر پاکستان نے بعض تحفظات کا ضرور اظہار
کیا لیکن وہ ہا ہا کار نہ مچائی جو آج بھارتی میڈیا اور اس کے سیاست دان
مچا رہے ہیں پاکستان کو تنہا کرنے کی اس سازش کو ناکام بناتے ہوئے اسی
دوران جہاں پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ چین کا اہتمام کیا
گیا اور چین میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا وہاں اوباما کے دورہ بھارت
کے اثرات کی شدت کو کم کرنے کے لئے چینی صدر کے مجوزہ دورہ پاکستان کو جلد
حتمی شکل دینے کا عندیہ بھی دیا گیا جو با لا آخر 20,21 اپریل کو پایہ
تکمیل کو پہنچا جو کہ چینیاور پاکستانی عوام کے درمیان دوستی اور محبت کا
یہ رشتہ ہمالیہ سے بلند ،سمندر سے گہرا ،شہد سے میٹھا اور فولاد سے زیادہ
مضبوط ہے پاکستان کے عوام ہر مشکل گھڑی میں چین کی حمایت و تعاون کو تو
ہمیشہ تشکر و استحسان کی نگاہ سے دیکھتے آئے ہیں لیکن پاکستان چین سے اتحاد
یگانگت کا جو مظاہرہ کرتا آیا ہے چینی بھی کھلے دل سے اس کا اعتراف کرتے
ہیں صدر شی نے اپنے خطاب میں برملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نئے چین
کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا وہ پہلا مسلمان ملک تھا جس نے چین کے ساتھ
سفارتی تعلقات قائم کئے پھر پاکستان ہی نے مشکل وقت میں چین کے لئے فضائی
راستہ کھولا چین کو تنہائی سے نکالنے کے لئے ساتھ دیا انھوں نے دنیا پر
واضح کیا کہ پاکستان کی سلامتی چین کی سلامتی ہے اور پاکستان کی مدد چین کی
مدد ہے دوستی کا یہ رشتہ آئندہ نسلوں کے لئے اثاثہ ہے جس کے جواب میں
وزیراعظم نواز شریف چین کو سٹرٹیجک پارٹنر قرار دیتے ہوئے چین کے ساتھ
دوستی کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو کہا ہے انھوں نے کہا دونوں
ملکوں کے عوام ایک خاندان کی مانندہیں اور ایک دوسرے کے لئے آئرن برادر ہیں
د وسری طرف پاکستان کو سب سے زیادہ فوجی اور اقتصادی امداد دینے والا ملک
امریکہ ہے جو 1950سے اب تک 40ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے لیکن اس سے کہیں
زیادہ پاکستان کی عوام اس سے نفرت کرتے ہیں ماسوائے ان لبرل فسادیوں کے جن
کے ذاتی مفادات امریکہ سے وابستہ ہیں قیام پاکستان کے فوراْ بعد روس کی د
عوت کو نظر انداز کر کے امریکہ سے دوستی کی پینگے بڑھانے والا پاکستان آج
67سال بعد بھی اس موڑ پر کھڑا یہ کیوں سوچ رہا ہے کہ امریکہ اس کا دوست ہے
یاد شمن تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس سوال کا جواب ڈھونڈنا مشکل
نہیں،پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے محمد جاویداپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ
امریکہ نے ہندوستان کی تقسیم کو کبھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا کیوں
کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ اس طرح اس کے مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں امریکی
انڈر سیکر ٹری ڈین ایچی سن نے برطانیوی حکومت کو ایک مراسلہ میں لکھا تھا
کہ امریکہ برصغیر کی یکجہتی پر یقین رکھتا ہے اور وہ امریکی سیاسی اور
معاشی مفادات کے پیش نظر اس تقسیم کے حق میں نہیں انگریز اگر مجبور نہ ہوتا
تو وہ بھی یہ مطالبہ کبھی نہ تسلیم کرتا امریکہ کو اپنی اس مخالفت کا احساس
تھا اس تاثر کو پاکستانیوں کے دل سے زائل کرنے کے لئے جب پاکستان کا قیام
عمل میں آیا تو امریکی صدر ٹرومین نے 15 اگست 1949 کو قائد اعظم محمد علی
جناح کے نام ایک تہنیتی پیغام کے ذریعے پاکستانی عوام کے لئے نیک خواہشات
کا اظہار کیا جس کے جواب 17اگست کو قائد اعظم نے شکریے کا پیغام ارسال کیا
جب کہ دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات اس وقت عمل میں آئے جب 19فروری 1948کو
امریکی سفیر نے گورنر جنرل آف پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح کی خدمت میں
اسناد سفارشات پیش کئے اس موقع پر قائد اعظم نے امریکہ کی نیک تمناؤں کے
جواب میں پاکستان کی طرف سے دوستی کا یقین دلاتے ہوئے اپنے موقف کی وضاحت
کی انھوں نے کہا کہ اہل پاکستان ڈیڈھ صدی تک گہنائے رہنے کے بعدروشنی میں
آئے ہیں وہ ایسی کسی چیز کے خواہان نہیں جو ان کی اپنی نہ ہو وہ تمام آزاد
اقوام عالم سے دوستی اور خیر سگالی کے سوا کسی چیز کے طالب نہیں لیکن یہ
بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات کے دو بڑی مقاصد تھے
ایک سالمیت اور دوسرا اقتصادی ترقی لیکن پاکستان میں امریکی سفیر اور قائد
اعظم کے خصوصی ایلچی میر لائق علی دونوں کی سفارت کاری ناکام رہی جو بھر
پور مساعی کے باوجود امریکی حکام کو پاکستان کی امدادکرنے پر آمادہ نہ کر
سکے لیکن بھارت اپنے بڑے سائز اور آبادی کی وجہ سے شروع ہی سے امریکہ کے
لئے کشش کا باعث رہا 1949میں جب ماوزے تنگ کی فوجوں نے چیانگ کائی شیک کی
قومی حکومت کو چین کے بڑے علاقے سے بھاگنے پر مجبور کیا تو امریکی صدر ہیری
ایس ٹرومین نے 1950میں اپنا ساتواں بحری بیڑہ آبنائے تائیوان میں گشت کرنے
کے لئے بھیج دیا ابتدا میں امریکہ کو یہ تشویش تھی کہ کہیں روس جنوبی ایشیا
میں اپنا اثر نفوذ نہ قائم کر لے لیکن اب اسے چین کی فکر بھی لاحق ہوگئی ان
دنوں امریکہ کے بھارت کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے امریکہ اس کوشش میں تھا
کہ بھارت ایشیا میں ایک بڑا ملک ہونے کے ناطے سے اگر اسے اڈے مہیا کر دے تو
وہ سویز سے سماٹرا تک دفاعی نظام قائم کر سکے گا تا کہ بعدازاں اس نظام کو
ناٹو اور بحر الکاہل کے دفاعی نظام سے ملا کرروس اور چین کی جنوبی ایشیا کی
جانب پیش قدمی روک سکے دریں اثنا امریکہ نے مئی 1949 میں بھارتی وزیر اعظم
پنڈت جوار لال نہرو کو امریکہ آنے کی دعوت دی امریکہ بھارتی وزیر اعظم بنڈت
جوار لال نہرو کو اپنے مقاصد یعنی روس اور امریکہ کے خلا ف استعمال کرنا
چاہتا تھا لیکن نہرو نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ادھر سویت یونین نے
باجود اس کے نہ تو پاکستان کو تسلیم کیا تھا اور نہ ہی دونون ممالک کے
درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے تھے اس کے باوجود تہران میں روس کے ناظم
الامور نے پاکستانی سفیر راجہ غضنفر علی کے ذریعے لیاقت علی خان کو ماسکو
کے دورے کی زبانی دعوت پہنچائی دعوتی پیغام کے موصول ہونے کے دوسرے دن ہی
امریکہ نے پاکستان پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کے لئے برطانیہ کو پاکستان کی
فرمائش کے مطابق کچھ گولہ بارود پاکستان کے حوالے کرنے کی اجازت دے دی
پاکستان نے دورے کی دعوت قبول کرنے کے باوجود وزیر اعظم پاکستان نے روس کا
دورہ نہ کیا روس اپنی یہ تحقیر فراموش نہ کر سکا ادھر امریکہ کی نہرو سے
وابستہ توقعات پوری نہ ہو سکیں نہرو کے دورہ امریکہ کی ناکامی اور روس کے
ایٹمی طاقت بن جانے کے واقعات نے امریکہ کو پاکستان کی طرف متوجہ کیا
امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے 23نومبر 1949کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم
لیاقت علی خان کو امریکہ آنے کی دعوت دی 4مئی 1950 کو وزیر اعظم پاکستان
امریکہ پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا لیکن اس دورے کی حقیقت بھی
اس وقت ایک رسمی سی رہ گئی جب پنڈت نہرو نے امریکہ کا دورہ کیا دسمبر
1950میں امریکہ اور بھارت کے مابین چار نکاتی سمجھوتے پر دستخط ہوئے 1951
میں دونوں کے درمیان باہمی دفاع کا معائدہ طے پایا اور بھارت کو اس کے
دوسرے پانچ سالہ منصوبے کی تکمیل کے لئے امداد کی پیش کش کی گئی لیکن
پاکستان کو غذائی بحران دور کرنے کے لئے 1952میں امریکہ کی طرف سے ڈیڑھ
کروڑ ڈالر کا قرضہ دینے کا اعلان کیا گیا1953 میں جب امریکہ میں ری پبلکن
پارٹی بر سر اقتدار آئی تو امریکی صدر آئزن ہاور نے ایک بار پھرحالات کی
نزاکت کا احساس کیا اور کمیونزم کی یلغار کو روکنے کے لئے پاکستان کو فوجی
اور اقتصادی امداد دینے کا فیصلہ کیاکہ پاکستان سے زیادہ اس کام کے لئے اور
کون سود مند ثابت ہو سکتا ہے 22فروری 1954میں پاکستان کے وزیر اعظم محمد
علی بوگرا نے امریکہ سے فوجی امداد کی باضابطہ درخواست کی 25 فروری کو نہ
صرف غیر مشروط منظور کرلی بلکہ مئی میں فوجی امداد کا معائدہ بھی طے پاگیا
اور اکتوبر میں پہلی کھیپ پاکستان روانہ کر دی گئی جس میں ٹینک اور گولہ
بارود شامل تھے لیکن یہاں بھی بھارت کو امریکہ نے فراموش نہ کیا اور چند
ماہ بعد ہی اسے ایک معائدہ کے تحت ایک کروڑ ڈالر کی امداد دینے کا اعلان
کیا گیا وزیر اعظم پاکستان محمد علی 1954چار اکتوبر کو نیویارک پہنچے اور
امریکی ہم منصب سے پاکستان کو دفاعی لحاط سے مضبوط بنانے پر زور دیا بات
چیت کے نتیجہ میں پاکستان کو 35کروڑ روپے کی اقتصادی امداد دینے کا اعلان
کیا گیا اسی دورہ کے نتیجے میں ہی 1955میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان
ایٹمی توانائی کے پر امن اسعمال کے لئے ایک معائدہ پر دستخط ہوئے جس کے تحت
پاکستان کو تحقیقاتی ری ایکٹر وں کے ڈیزائن ،تعمیر ،طریق عمل اور انجنیرنگ
کے آلات کی حثیت سے ان کے استعمال کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا اختیار
دیا گیا معائدے میں اس امر کی گنجائش رکھی گئی کہ امریکہ کا ایٹمی توانائی
کمیشن حکو مت پاکستان کو چھ کلو گرام تک یورینیم 235پٹے پر دے گا جس مین
یورینیم کا تناسب 30فیصد ہو گا لیکن 1957میں امریکہ نے بھارت کو بے پایا ں
اقتصادی امداد دے کر پاکستان کی پریشانی میں اضافہ کر دیا تو پاکستانی عوام
کی اکثریت نے کہنا شروع کر دیا کہ امریکہ پاکستان کا مخلص دوست نہیں روس سے
تعلقات بہتر بنائین جائیں اس ضمن میں ایک اعلیٰ سطح کا روسی دفد پاکستان کی
اقتصادی امداد کا جائزہ لینے پاکستان آیا اور اقتصادی امداد کے علاوہ فولاد
کے کارخانے کے قیام میں مدد دینے کی پیشکش کی لیکن حکومت پاکستان نے اس
پیشکش کو کوئی اہمیت نہ دی ادھر امریکہ نے 1958 میں عراقی انقلاب اور مشرق
وسطیٰ میں تبد یلیوں کو بھانپتے کے ساتھ ساتھ بھارت کو فراخدلانہ امداد پر
پاکستان کی تشویش کا سد باب کے طور پر پاکستان میں مارشل لا نفاذ کے فوراْ
بعد فیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے دفاعی معائدہ کر لیا جس کے تحت پاکستان پر
حملے کی صورت میں امریکہ پاکستان کا ساتھ دے گا جسے روس نے اپنے خلاف قرار
دیا7 سمبر1959میں صدر آئزن ہاور پاکستان کے دوروزہ دورے پر پاکستان آئے تو
انھیں افغانستان اور کشمیر کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا مشترکہ
اعلان میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ پاکستان کو اپنی سلامتی کے لئے خطیر
رقم صر ف کرنی پڑ رہی ہے پاکستان کا دورہ نکمل کرنے کے بعد امریکی صدر
بھارت پہنچ گئے نہرو نے ایک بار پھر چین کے خطرے کا پتہ استعمال کرتے ہوئے
امریکہ کو بھارت میں بھاری صنعتوں کی ترقی کے لئے امدا د کی اشد ضرورت کا
احساس دلایا جولائی 1961ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا اس وقت کے ہم منصب
صدر کینیڈی کے ساتھ جہاں پاکستان کے امدادی معائدوں کی تجدید کا اعلان کیا
گیا وہاں ایوب خان نے امریکہ کو باور کرایا کہ ایشیا میں پاکستان کے علاوہ
امریکہ کو کہیں پاؤں نکالنے کی جگہ نہیں مل سکتی ، اس دورے کا ایک فائدہ یہ
ہوا کہ امریکہ نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈیورڈ لائن کو بین
الاقوامی سرحد تسلیم کر لیا اسی سال بھارت اور چین کے درمیان جنگ کا آغاز
ہوا تو امریکہ نے بھارت کو حد سے زیادہ فوجی امداد دی جسے پاکستان نے پسند
نہیں کیا 1962میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اس وقت کشیدہ ہوگئے جب
کینیڈی نے ایوب خان کو چین کے مقابلے میں بھارت کی فوجی امداد کرنے کو کہا
جس کا ایوب خان نے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ امریکہ چین کے ساتھ اس جنگ کو
عالمی جنگ میں تبدیل کر کے ویت نام سے توجہ ہٹانا چاہتا تھا اس مدد کے
انکار پر چین نے پاکستان کی طر ف نہ صرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا بلکہ دونوں
ملکوں کے رمیان 1963 میں سرحدی معائدہ طے پاگیا 1965میں پاک بھارت جنگ کے
دوران امریکہ نے پاکستان کی اقتصادی اور فوجی امداد بند کر دی حالانکہ وہ
سینٹو اور سیٹو میں پاکستان کا حلیف تھا اور پاکستان کو جارحیت کی صورت میں
امداد دینے کا پابند تھا جس کے بعد پاکستان نے روس سے رجوع کیا جس کی
مصالحت کے نتیجہ میں جنگ بند ہوئی اگر یہ مصالحت امریکہ کروا دیتا تو بھارت
کا جھکاؤ روس کی جانب شائد اس قدر نہ ہوتا 1971میں پاکستان کی وساطت سے چین
اور امریکہ کے مابین تعلقات کا نیا باب قائم ہوا تو روس نے اس گٹھ جوڑ کو
اپنے خلاف قرار دیا روس نے بھارت کے ساتھ دوستی کا معائدہ کر لیا جو کسی
دفاعی معائدے سے کم نہ تھا یہی وجہ ہے کہ 1971کی پاک بھارت جنگ مین روس نے
بھارت کا مکمل طور پر ساتھ دیا لیکن امریکہ بحری بیڑے کی نوید سناتا رہ گیا
جب بیڑہ آگیا تو خلیج بنگال میں خاموش کھڑا رہا دوسری جانب روس نے اقوم
متحدہ کی اس قرار داد کو بھی ویٹو کر دیا جس کے تحت مشرقی بازو پاکستان سے
الگ ہونے سے بچ سکتا تھا سقوط ڈاکہ کے بعد پھر امریکہ کی محبت پاکستان کے
لئے جاگی 9فروری 1972کو امریکی صدر رچڑ نکسن نے کہا امریکہ پاکستان کی
سلامتی کو بڑی اہمیت دیتا ہے تعمیر نو کے لئے بھرپور امداد ی جائے گی بعد
ازاں ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم پاکستان کی کوششوں سے امریکہ نے نہ صرف
دس سال کے قرضوں میں واپسی میں مہلت دے دی بلکہ اقتصادی اور فوجی امداد کی
بھالی پر بھی رضا مند ہو گیا جب مئی 1974میں بھارت نے پوکھران (راجستھان )کے
مقام پر پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو جواب میں پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار
علی بھٹو نے اعلان کیا کہ وہ بھی ایٹم بم بنائیں گے چاہے ان کی عوام کو
گھاس ہی کیوں نہ کھانی پڑے 1976مارچ میں پاکستان نے فرانس سے ایٹمی ری
پراسسنگ پلانٹ خریدنے کا معائدہ کیا تاکہ پاکستان ایٹمی بجلی کی ضروریات
اور ایٹم بم بنا سکے امریکہ نے نہ صرف فرانس کو ایٹمی ری ایکٹر دینے سے منع
کیا بلکہ امریکی وزیر خارجہ کسنجر پاکستان کو دھمکی دینے پہنچ گئے کہ وہ
ایٹم بم نہ بنائے ورنہ اسے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن جب 1977میں
فوجی انقلاب کے نتیجہ میں جنرل ضیاء ا لحق بر سر اقتدار آئے تو انھوں نے
سپر طاقتوں اور بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کیں تاہم
پاکستان کے بارے میں امریکہ کا رویہ اور سخت ہو گیا اور اس نے فرانس پر
دباؤ ڈالا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ایٹمی پلانٹ کا معائدہ منسوخ کر دے معائدہ
تو منسوخ نہ ہوا لیکن فرانس نے ایٹمی پلانٹ بھی نہ دیا 1978میں روس کی مدد
سے افغانستان میں کمیونسٹوں کی حکومت قائم ہو گئی تو پاکستان کے لئے روسی
خطرے کی گھنٹی بج گئی اس وقت بھی امریکہ نے پاکستان کی کوئی مدد نہ کی لیکن
نو ماہ بعد ایران میں اسلامی انقلاب رونما ہوا تو امریکی مفادات کو سخت
دھچکا لگا ایشیا میں صرف پاکستان ہی امریکہ کا حلیف تھا لیکن اس کے باوجود
امریکہ نے بھارت اور مصر پر انحصار کیا لیکن 1979میں روس نے افغانستان پر
قبضہ کر کے گرم پانیوں تک پہنچنے اور واحد سپر طاقت ہونے کا تاثر دیا تو
امریکہ کے کان کھڑے ہو گئے اور اس نے محسوس کیا کہ اس پورے علاقہ کی آزادی
اور سلامتی پاکستان کی آزادی اور سلامتی سے جڑی ہوئی ہے چنانچہ امریکی صدر
کے مشیر برزنسکی کو 31دسمبر 1979کو واشنگٹن میں یہ کہنا پڑا کہ روسی حملے
کی صورت میں امریکہ پاکستان کو فوجی امداد ینے کا پابند ہے مجھے امریکی صدر
جمی کارٹر نے 1954کے معائدے کی کھلے عام تجدید کا اختیار دیا ہے بعد ازاں
وہ اسلام آباد پہنچے اور صدر ضیا ء الحق سے ملاقات کی اور امداد کی پیشکش
کی جسے ضیا ء الحق نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ہاتھی سے جنگ اور موم پھلی
جتنی امداد نہیں چائیے لیکن موقع غنیمت جانتے ہوئے پاکستان نے ایف سولہ
مانگ لئے جس پر امریکہ نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو جنرل ضیاء نے وہی حربہ
استعمال کیا جو بھارت فوائد حاصل کرنے کے لئے عام طور پر کرتا رہا ہے ایک
تو کابل رژیم کو خانہ جنگی ختم کرنے کے لئے نئی تجاویز پیش کیں دوسرا روس
کے نائب وزیر خارجہ پاکستان میں وارد ہوئے جن کا گرم جوشی سے استقبال کیا
گیا س کے بعد دو ہی ہفتوں میں امریکہ ایف سولہ دینے کے لئے تیار ہو گیا قبل
ازیں جمی کارٹر نے چار سو ملین ڈالر امداد دینے کے عوض پاکستان کی وفاداری
خریدنے کی کوشش کی تھی لیکن امریکی صدر ریگن کے دور میں سمنگٹن ترمیم کے
تحت عائد پابندیوں کو پاکستان کے حق میں معطل کر دیا گیا اور پاکستان کو
ایک 3.2 بلین ڈالر فوجی اور اقتصادی امداد کی پیش کش کی گئی تو پاکستان نے
اسے قبول کر لیا کیونکہ روسی خطرے سے نبٹنے کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ بھی
نہ تھا سو جنرل ضیا ء الحق نے افغان پالیسی کو اپنے مقا صد کے لئے بڑی چابک
دستی سے استعمال کیا اس سارے عرصہ میں امریکہ سے خوب فوجی اور اقتصادی
امداد سمیٹی اور مجاہدین کے ذریعے پاکستان کی سرحدوں کو نہ صرف محفوظ کر
لیا بلکہ روس کو واپسی کا راستہ بھی دکھایا جبکہ اس عرصہ میں بھارت کی شرسے
بھی مشرقی سرحد کوکسی نہ کسی طرح محفوظ رکھا سب سے بڑھ کر پاکستان کے ایٹمی
پروگرام کو بلا روک ٹوک جاری رکھنے اور مکمل کرنے کا موقع ضائع نہیں
کیالیکن جونہی جنیوا معائدہ کے تحت روسی کی واپسی ممکن ہوئی اور امریکہ اور
ضیاء الحق کے درمیان اختلا ف پیدا ہوگئے تو نہ صرف سانحہ اوجڑی کیمپ رونما
ہو گیا جس میں امریکہ سے حاصل کیا گیا سارا اسلحہ تباہ ہو گیا بلکہ بہت سی
انسانی جانیں بھی ضائع ہو گئیں جب کہ سانحہ بہاولپور میں جنرل ضیا ء الحق
کے طیا رہ سی ون تھرٹی کو فضا ہی میں اڑا دیا گیا جس میں جنرل ضیا ء الحق
اور دیگر جرنیلوں سمیت تیس افراد شہید ہوگئے الیکشن 1988کے نتیجہ میں بے
نظیر بھٹو کی حکومت بن گئی جس کا امریکہ نے خیر مقدم کیا ایشیا کے امور کی
کمیٹی کے چہرمین سٹیفن سولارز کا دورہ پاکستان دونوں ملکوں کے مابین بہتر
تعلقات کا سبب بنا بے نظیر بھٹو کے جون 1989 میں دورہ امریکہ کے دوران دیگر
امور پر بات چیت کے علاوہ چار اگست کو پاکستان کو مزید ساٹھ ایف سولہ طیارے
فروخت کرنے کی منظوری دی گئی اس معائدہ پر 28 دسمبر کو اسلام آباد میں
دستخط ہو ئے بے نظیر دور میں ایٹمی پروگرام ری کیپ کرانے کی کوشش بھی کی
گئی لیکن کامیابی نہ ہوئی چونکہ امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر
توجہ مرکوز کی ہوئی تھی سو پریسلر ترمیم کے تحت 1990 میں پابندیا عائد کر
دی گئیں اور ایف سولہ طیاروں کی رقم 685 ملین ڈالر یا طیارے بھی دینے سے
انکار کر دیا۔
گیارہ اور 13مئی کو جب بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو امریکہ اور مغرب
نے پہلے لالچ اور پھر دھمکیوں سے پاکستان کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کی
لیکن وزیر اعظم میاں نواز شریف نے عوام اور افواج پاکستان کے ا صرار پر
جواب میں 28۔29مئی کو مجموعی طور پر چھ دھماکے کر کے حساب برابر کر
دیاامریکہ اور مغرب نے بظاہر دونوں ممالک پر پابندیا عائد کر دیں لیکن
بھارت پر اس کے اثرات کم پڑے لیکن پاکستان کی معیشت کو سخت دھچکا لگا تا ہم
کشمیر کا مسئلہ اہمیت اختیار کر گیا امریکہ نے پاکستان اور بھارت کوسی ٹی
بی ٹی پر دستخط کرنے کے لئے ترغیب دینا شروع کر دی پاکستان نے بھارت کی شرط
پر اس معائدہ پر دستخط کرنے کی حامی بھر لی لیکن بھارت اس پر راضی نہ تھا
جس کا موقف تھا کہ جب تک اقوام متحدہ کے پانچ مستقل ارکان ایٹمی ہتھیار تلف
نہیں کر دیتے وہ دستخط نہیں کرے گا وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دسمبر 1998
میں امریکہ کا دورہ کیا امریکی صدر بل کلنٹن ے ملاقات کے دوران آئی ایم ایف
سے امداد ،کشمیر اور سی ٹی بی ٹی کا معاملہ زیر غور آیا بات چیت مفید رہی
جنوری 1999 میں میاں نواز شریف نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ
امریکہ نے ایف سولہ کی رقم میں سے 338 ملین ڈالر نقد واپس کر دی ہے جبکہ
باقی رقم گندم اور یگر اشیا ء کی خریداری کی مد میں کاٹ لی ہے اکتوبر
1999کو ایک فوجی انقلاب کے بعد جنرل پرویز مشر ف برسر اقتدار آگئے امریکہ
نے ایک بار پھر پابندیاں سخت کر دیں لیکن نائن الیون کے واقعہ نے ایک بار
پھر امریکہ کو جنوبی ایشیا کی طرف متوجہ کیا اسامہ کی تلاش کے بہانے امریکہ
افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کر کے آبیٹھا پاکستان سمیت ساری دنیا نے
بوجہ امریکہ کا ساتھ دیا دہشت گردی اور معیشت کی تباہی پاکستان کا مقدر بنا
بھارت امریکہ کا اسٹرٹیجک پارٹنر بنااور امریکہ کے ساتھ سول ایٹمی معائدے
کا اہل ٹھہرا ہم صر ف نان نیٹو اتحادی رہے اب جب کہ امریکہ افغانستان سے
شکست کھا کر واپس جا رہا ہے حال ہی میں اوبا ما نے پاکستان کو نظر انداز کر
کے بھارت کا دورہ کیا اور پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کی ایسے میں آزمودہ
دوست چین نے آکر ایک بار پھر پاکستان کو سنبھالا دیاہے اسی لئے پاکستانی
عوام امریکہ سے نفرت اور چین سے محبت کرتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں
اپنے دشمنوں کی چالوں سے ہوشیار رہنا ہے جو چین کے اس تعاون کو ہضم نہین کر
پا رہے اور اپنے گماشتوں کے ذریعے اقتصادی راہداری منصوبے کو متنازعہ بنانے
پر تل گئے ہیں حکومت کو چائیے کہ وہ تسائل سے کام لینے کے بجائے فوری طور
پر سیاسی پارٹیوں کے قائد ین کو اس معاملے میں اعتماد میں لے کر بریفنگ کا
اہتمام کرے تاکہ مخالفین کو کھل کھیلنے کا موقع نہ مل سکے۔
|