ایک روپیہ پرچی اور تھوڑی سی ذلت

کان میں کئی دنوں سے عجیب سی جلن تھی۔ قریب ترین ہسپتال شریف میڈیکل کمپلیکس ہے۔ بلاشبہ انتہائی صاف ستھرا اور بہترین ہسپتال ہے۔ وہاں پہنچ کر پچاس (۵۰) روپے کی پرچی بنوائی اور ناک، کان، گلے کے سپیشلسٹ کو کان چیک کروایا۔ دیکھ کر اس نے کہا کہ سوائے میل کے جو کان میں جم گئی ہے اور کچھ بھی نہیں۔ کانوں کے لیے دستیاب Wax ڈالیں۔ باہر نکلا تو بہت مطمئن تھا۔ پرچی کے پچاس روپے دیے تھے۔ پارکنگ مفت تھی۔ مگر ڈاکٹر کے روّیے اور ہسپتال کے معیار کے حوالے سے یوں لگا کہ یہ تمام خرچ مفت سے بھی شاید کم ہے۔ اچانک نظر پڑی سامنے بورڈ پر ایک سپیشلسٹ کا نام لکھا تھا۔ پرانی شناسائی کے حوالے سے اُن سے ملنے چلا گیا۔ جب بتایا کہ کان کے سپیشلسٹ سے مل کر آیا ہوں توکہنے لگے وہ ابھی نوجوان ہے، پورا تجربہ بھی نہیں۔ تم کسی وقت آنا میں کسی سپیشلسٹ سے بات کر لوں گا اُسے مل لینا۔ان کے وہم ڈالنے پر میں نے نوجوان ڈاکٹر کا بتایا نسخہ استعمال نہیں کیا او ردرد یا بے چینی شدید ہوتی گئی۔

صبح کو یونیورسٹی میں فرصت نہیں ہوتی اور شام کو لاہور کے مضافات میں اپنے گھر پہنچ کر کہیں نکلنے کو دل نہیں کرتا۔ ایک ہفتے سے زیادہ اسی کشمکش میں گزرا کہ کب کسی ڈاکٹر کے پاس جایا جائے۔ دو دن پہلے اتفاق سے فرصت ملی تو یونیورسٹی سے کسی کام کے لیے نکلا۔ جناح ہسپتال کو دیکھ کر کان کی درد بھی مچلنے لگی۔ فیصلہ کیا کہ جناح ہسپتال میں کسی ناک، کان اور گلے کے ماہر سے مشورہ کر لیا جائے۔ جناح ہسپتال کے گیٹ پر باہر نکلنے کا راستہ لکھا تھا۔ دوسرے اندر جانے والے راستے کی تلاش میں ارد گرد گھوما۔ جہاں اندر جانے کا راستہ لکھا تھا وہ گیٹ بند تھا۔صرف پیدل لوگ جا سکتے تھے۔ میڈیکل کالج کے گیٹ پر موجود ایک شخص نے اس گیٹ پر جانے کا کہا جہاں باہر نکلنے کا راستہ لکھا تھا۔ میں نے کہا بھائی وہ تو باہر نکلنے کا راستہ ہے، باہر لکھا ہے۔ جواب ملا کہ اندر اور باہر دونوں کاموں کے لیے اب وہی گیٹ ہے۔ لکھا ہوا اس لیے نہیں بدلا کہانتظامیہ میں نئے آنے والے سفارشی او رنا اہل ہیں۔ اُن میں کوئی سوچ ہی نہیں۔ کوئی ڈھنگ کا کام کرتے ہی نہیں۔ پتہ پوچھتے پوچھتے ناک، کان اور گلے کی آؤٹ ڈور میں پہنچ گیا۔ فقط ایک روپے کی پرچی اور مجھے بتیس (۳۲) نمبر کمرے میں جانے کا کہا گیا۔ ۳۲ نمبر کمرے میں تین ڈاکٹر بیٹھے تھے اور مریض تو لاتعداد تھے۔ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ باری ابھی کافی دور ہے۔ مڑا، باہر آکر ایک اہلکار سے پوچھاکہ بھائی اس کمرے میں بہت رش ہے۔ کہیں کوئی سینئر بیٹھا ہو تو بتاؤ اُس سے درخواست کر لوں۔

اس نے پینتیس (۳۵) نمبر کمرے کا راستہ دکھا دیا۔ پینتیس (۳۵) نمبر کمرے میں ایک ڈاکٹر صاحب اور دو بزرگ خواتین موجود تھیں۔ کھلے دروازے سے میں اندر جا کر ڈاکٹر صاحب کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ ڈاکٹر صاحب چھوٹے شیشے کی مدد سے بزرگ عورت کے گلے میں کچھ دیکھ رہے تھے۔ یہ وہ چھوٹا سا شیشہ وہ تھا جو دانتوں کے ڈاکٹر عام طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نے دو دفعہ کوشش کی مگر شیشہ انتہائی گندہ تھا۔ ڈاکٹر اپنی جگہ سے اُٹھا، قریب ہی میز پر (Sterlize)کرنے والی مشین پڑی تھی جو شاید مہینوں کبھی استعمال نہیں کی گئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے مشین کا ڈھکن اٹھایا، ٹھنڈا اور گدلا پانی جس میں چند اوزار بھی پڑے تھے دیکھ کر کراہت ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے شیشہ پانی میں زور زور سے ہلایا کہ تھوڑا صاف ہو جائے اور اُسی گندے شیشے سے اُس عورت کے گلے کو دیکھا۔ نسخہ لکھا اور چل دیے۔ میں نے اپنی بات کی تو اشارہ کیا کہ رجسٹرار سے ملیں۔ میرا کوئی تعلق نہیں۔ سامنے رجسٹرار کا کمرہ تھا جس کا دروازہ بند تھا۔ میں نے پہلے دروازہ کھٹکھٹایا اورپھر آہستہ سے کھولا۔ رجسٹرار صاحب کمرے میں ایک نوجوان لڑکی سے گپ شپ میں مصروف تھے۔ انہیں میرا اندر آنا کچھ ناگوار گزرا۔ بڑا گھور کر میری طرف دیکھا۔ میں نے عرض کیا کہ میں ایک بوڑھا آدمی ہوں، بزرگ شہری کی حیثیت سے مدد کا طالب ہوں۔ بتیس (۳۲) نمبر میں جائیں۔ میں صرف شکایات سنتا ہوں۔ شکایت ہے تو بتائیں ورنہ ادھرچلے جائیں۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میں اُن کی خوبصورت گفتگو میں مخل ہوا ہوں جو اُنہیں ناگوار گزرا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ فوراً کمرے سے نکل جاؤں اور انہیں تنہا چھوڑ دوں۔ اُن کی خوفناک نظروں سے ڈر کر میں واپس مڑا، دروازہ اُسی طرح بند کیا اور مریضوں کے ہجوم میں لوٹ کر باری کا انتظا رکرنے لگا۔

تھوڑی دیر میں باری آئی۔ ڈاکٹر اچھا تھا۔ اچھی طرح پیش آیا، کان کا پوری طرح معائنہ کیا۔مگر آلات کی حالت کچھ اچھی نہیں تھی۔ ایک زنگ آلود سا آلہ میرے کان سے لگا کر اپنے موبائل سے اُس نے روشنی حاصل کی اور نسخہ لکھ دیا۔ وہی نسخہ تھا جو چند دن پہلے شریف میڈیکل کمپلیکس کے ڈاکٹر نے لکھا تھا۔ وہ پرائیویٹ ہسپتال تھا۔ جہاں پرچی کے پاس روپے اور پارکنگ فری تھی۔ ڈاکٹر اور عملے کا روّیہ بہترین تھا۔ آپ کو انسان سمجھ کر اچھا حسنِ سلوک اور باوقار انداز میں علاج کا اہتمام تھا۔ یہ جناح ہسپتال ایک سرکاری ہسپتال جس میں پرچی کا صرف ایک روپیہ تھا۔ پارکنگ کے بیس روپے تھے اور سلوک جانوروں کی طرح تھا۔ انسانوں اور انسانیت کی تذلیل ہو رہی تھی۔ سٹاف کا روّیہ بھی بس ٹھیک ہی تھا۔ اُسے بہت اچھا تو کیا اچھا بھی نہیں کہہ سکتے۔اُن لوگوں کی مجبوریاں ہیں کہ جن کے پاس علاج کے لیے معقول پیسے نہیں ہوتے وہ اُس ہسپتال میں علاج کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ۵۰ روپے خرچ کرتے ہوئے مجھے خوشی ہوئی کہ اتنے کم پیسوں میں وی آئی پی کی نظر مجھے دیکھا بھالا گیا۔ اور ایک سرکاری ہسپتال میں ڈرامہ نما ایک روپیہ پرچی اور ۲۰ روپے پارکنگ دینے کے بعد جس ذلت اور مذاق کا سامنا کرنا پڑا اُس کے نتیجے میں وہ ۲۱ روپے مجھے بہت بھاری محسوس ہوئے۔ صحت جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور جسے مہیا کرنا حکومت کا فرض ہے اُس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ کاش حکومت کو سمجھ آجائے کہ لوگ جو پرائیویٹ ہسپتالوں کی فیس نہیں دے سکتے انسان ہیں ۔ اور کچھ نہیں صرف وہاں کا نظم و نسق بہتر کر دے تو لوگوں کو کچھ تو بہتری کا احساس ملے۔ ایک روپے پرچی والا ڈرامہ ختم کر کے پانچ روپے بھی کر دیے جائیں تو کوئی حرج نہیں مگر پارکنگ کے نام پر لوٹ مار تو ختم کی جائے۔ پانچ، دس روپے ہر شخص بخوشی دے گا مگر اُس کی عزت اور احترام کو بحال کرنا حکومت کا فرض ہے۔ جو علاج سے بھی زیادہ ضروری ہے۔حقیقت میں ایک روپے پرچی اور تھوڑی سے ذلت اب سرکاری ہسپتالوں کی فیس ہے۔ یہ ذلت والا حصہ ختم کرنا حکومت کا فرض ہے۔ اگر پرائیویٹ ہسپتال کے ڈاکٹر اور عملہ لوگوں سے بہتر حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں تو سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹراور عملے کے لوگ اس کا اظہار کیوں نہیں کر سکتے۔اس کی وجہ فقط سیاسی طور پر سفارشی اور نااہل لوگوں کی انتظامی عہدوں پر تعیناتی ہے جو نظم و ضبط سے واقف ہی نہیں ہوتے اور انہی کمزور انتظامی صلاحیت والے لوگوں کی وجہ سے عوام کو یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔
 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500401 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More