بلدیاتی انتخابات کاعمل کنٹونمنٹ بورڈزانتخابات سے شروع

پوری دنیا میں جمہوری ممالک جمہوری سسٹم کو تسلسل اور مضبوط کرنے کیلئے بلدیاتی نظام کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں، بلدیاتی نظام عام لوگوں کے مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔مقامی حکومتوں سے گلی۔۔محلے اوریونین کونسل کے مسائل مقامی سطع پر ہی حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جس سے گلی ۔۔محلے میں تعمیر و ترقی کا عمل شروع ہوجاتا ہے، عوامی نمائندے ووٹروں کی خوشی وغمی میں شامل ہوتے ہیں۔ مقامی حکومت کے اداروں کی ابتدا 306 سال قبل مسیح یونان میں شروع ہوئی، اس وقت حکومت کی طرف سے پرائیر مقرر کیے جاتے تھے، جنہیں بعد میں عدالتی اختیارات بھی سونپ دیئے گئے، پھر آہستہ آہستہ یہ ادارے ترقی کرتے کرتے خود مختار ادارے بن گئے۔بعد ازاں جولیس سیزر 49-04 قبل مسیح نے ان اداروں کو مزید ترقی عطا کی۔ رومن نوآبادیوں کے قیام کے بعد یہ ادارے فرانس، اسپین اور افریقہ میں بھی قائم ہوگئے۔ مکہ (سعودی عرب ) میں اسلام کی آمد سے قبل ایک ایسی جماعت موجود تھی جس کی ذمہ داریوں میں شہر کیلئے پانی کا انتظام کرنا، زائرین کیلئے آرام و آسائش کا انتظام کرنا، کعبہ کی حفاظت اور ایسے ہی ضروری امور انجام دینا تھے۔ ہر امور کی انجام دہی کیلئے علیحدہ علیحدہ محکمے بنا رکھے تھے، جن کو وزیر چلاتا تھا۔ جب بھی کوئی مسلہ آتا وہ مشاورت سے حل نکالتے تھے۔ اسے ہم مقامی حکومت کا نام دے سکتے ہیں۔

برصغیر میں مقامی حکومتوں کے نظام کی ابتداء تقریبا300 سال قبل مسیح میں ہوئی، بقول سریندر ناتھ بزجیـ ـ'' ہمارا پنچائیتی نظام اتنا قدیم ہے جتنے ہمارے پہاڑ ہیں" ۔برصغیر میں بلدیاتی نظام کی سب سے چھوٹی اکائی گرام (مکھیا) کرتا تھا ، 5-10گراموں کا عامل گوپ کہلاتا تھا، اور اس کے اوپراستھانک ہوتا تھا، جس کے ماتحت 1/4 ضلع ہوتا تھا اور یہ ناگرک کی نگرانی میں کام کرتا تھا۔

قارئین مقامی حکومتوں سے مراد ایسی حکومتیں ہیں جو کسی مخصوص رقبے میں قانونا قائم کی گئی ہو۔اقوام متحدہ کے مطابق، مقامی حکومت سے مراد" ایک ایسی تنظیم جو قانون کے ذریعے وضع ہوتی ہے ، جسے مقامی امور پر خاصی دسترس حاصل ہوتی ہے۔اسے محصول عائد کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے اور متعینہ مقاصد کیلئے وہ محنت بھی لے سکتی ہو"، وہ تنظیم مقامی چناؤ یا انتخابات کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکاکے مطابق مقامی حکومت سے مراد ایسا ادارہ ہے جو ایک محدود علاقے میں اپنے اختیارات کے تعین اور انہیں استعمال میں لانے کے سلسلے میں حکومت کے مقابلے میں کم اختیارات رکھتا ہو۔

مقامی حکومت کیلئے لفظ" بلدیہ" بھی استعمال ہوتا ہے۔بلدیہ کی اصطلاح عربی زبان کے لفظ بلد سے نکلی ہے۔ بلد کے معنی شہر کے ہیں اور بلدیہ کا لفظ "منتخبہ شہری ادارہ" کیلئے استعمال ہوتا ہے جو شہر کی صفائی اور روشنی کا انتظام کرتا ہے۔ مقامی حکومت کیلئے انگریزی لفظ MUNICIPALITY (میونسپلٹی) بھی استعمال ہوتا ہے۔ جو یونانی زبان کے لفظ" میونی سپس" کا مرکب ہے۔ میونس کے معنی " خدمت"کے ہیں ا ور سپس ـ'' حصہ لینے والے " کو کہتے ہیں۔اسطرح میونی سپس کا مطلب ''خدمت میں شریک ہونا ــ''ہے۔ یونانی میونی سپس کا لفظ اداروں کیلئے استعمال کرتے تھے جو عوامی بہبود کیلئے قائم کیے جاتے تھے۔

پاکستان حکمران عالمی سطع پر پاکستان کی پہچان ایک جمہوری ملک کے کرواتے ہیں، لیکن یہاں جمہوری سسٹم کا بنیادی ادارہ یا اکائی لوکل بلدیاتی سسٹم تاحال پروان نہیں چڑھ سکئی۔ آمرانہ دور اقتدار میں تو باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن جمہوری حکومتوں میں یہ سسٹم سٹاپ کردیا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں 18 سال بعد کنٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات ہوئے، جس میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے میدان مار لیا جبکہ دوسرے نمبر پر آزاد امیدوار رہے،مسلم لیگ (ن) نے 68 جبکہ آزاد امیدواروں نے 55 نشستیں حاصل کیں، تیسرے نمبر پر تحریک انصاف 42 سیٹوں کے ساتھ رہی، دیگر جماعتوں میں ایم کیو ایم 19، پیپلز پارٹی 7، جماعت اسلامی کو 6 اور عوامی نیشنل پار ٹی کو 2 نشستیں ملیں۔ الیکشن نتائج کے بعد جیتنے والے امیدواروں کے ڈیروں پر جشن منایا جاتا رہا جبکہ ہارنے والے امیدواروں کے دفاتر ویران ہو گئے۔ جیتنے والے امیدوار مبارکبادیں وصول کرتے رہے۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کیلئے پولنگ کا عمل صبح 8 بجے شروع ہوا جو شام 5 بجے تک بلاتعطل جاری رہا۔ کچھ شہروں میں الیکشن کمشن اور پولنگ ایجنٹس کے وقت پر نہ پہنچنے کے باعث پولنگ تھوڑا تاخیر سے شروع ہوئی۔

٭کنٹونمنٹ بورڈ
پاکستان بھر میں ٹوٹل42 کنٹونمنٹ بورڈ ہیں جن میں سے پنجاب میں20،سندھ8،خیبرپختونخواہ11 جبکہ بلوچستان میں 4 کینٹ بورڈ ہیں،ملک بھر کے14 (راولپنڈی ،چکلالہ،واہ کینٹ،لاہور کینٹ، والٹن، سرگودھا، گوجرانوالہ،ملتان،بہاول پور،پنو عاقل، حیدر آباد،فیصل آباد اور فیصل کراچی)کینٹ بورڈز میں10،دس وارڈ ہیں جبکہ اوکاڑہ، سیالکوٹ، کوئٹہ،پشاور،ایبٹ آباد میں 5،پانچ وارڈز ہیں ، نوشہرہ میں4، کراچی، ملیر، رسالپورکوہاٹ میں3,3جبکہ ٹیکسلا،مری،اٹک، سنجوال، کامرہ،جہلم، منگلا، کھاریاں ، منوڑا ،لورالائی، کورنگی، چراٹ،مردان،بنوں،ڈی آئی خان،حویلیاں اور مری گلاز میں2,2 کنٹونمنٹ بورڈ و وارڈز ہیں ، پنجاب کے 12 اضلاع میں 20 کنٹونمنٹ بورڈز میں 13 لاکھ 13 ہزار 720 ووٹرز اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں گے جن میں 7 لاکھ 12 ہزار 271 مرد اور 6 لاکھ ایک ہزار 449 خواتین کے ووٹ ہیں،صوبہ پنجاب کے دارالخلافہ لاہور میں والٹن کینٹ کے کل ووٹ 3 لاکھ 7 ہزار 482 ہیں جن میں ایک لاکھ 70 ہزار 745 مردانہ اور ایک لاکھ 36 ہزار 731 خواتین کے ووٹ ہیں۔

لاہور کینٹ بورڈ میں کل ووٹ ایک لاکھ 53 ہزار 510 ہیں جن میں 85 ہزار 947 ووٹ مردانہ اور 67 ہزار 563 ووٹ خواتین کے ہیں۔

٭امیدوار
42 کنٹونمنٹ بورڈ کی 199 وارڈز میں 1151 امیدوار مدمقابل تھے، جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں 610 آزاد امیدوار جبکہ18سیاسی جماعتوں کے 541 امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا، تحریک انصاف نے سب سے زیادہ 137 (صوبہ پنجاب میں 93، صوبہ سندھ میں 18، صوبہ خیبر پختونخواہ میں 22 اور صوبہ بلوچستان میں 04 )امیدوار میدان میں اتارے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے 128 (صوبہ پنجاب میں 99، صوبہ سندھ میں 12، صوبہ خیبر پختونخواہ میں13 اور صوبہ بلوچستان میں 04 ) امیدوار ، جماعت اسلامی کے 74(صوبہ پنجاب میں 41، صوبہ سندھ میں 26، صوبہ خیبر پختونخواہ میں 07اور صوبہ بلوچستان میں 00 ) امیدوار، پاکستان عوامی تحریک کے 27(صوبہ پنجاب میں 23، صوبہ سندھ میں 03، صوبہ خیبر پختونخواہ میں 00 اور صوبہ بلوچستان میں 00 ) امیدوار، عوامی نیشنل پارٹی کے 13 امیدوار صوبہ خیبر پختونخواہ سے کھڑے تھے، جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے 27امیدوار صوبہسندھسے کھڑے تھے۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور جمعیت علماء پاکستان (ف) نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا۔

٭ پولنگ سٹیشنز
ووٹنگ کیلئے ایک ہزار 225 پولنگ سٹیشنز بنائے گئے جن میں سے 130 کو انتہائی حساس اور 310 کو حساس قرار دیا گیا، صوبہ پنجاب کے 12 اضلاع میں 20 کنٹونمنٹ بورڈز میں کل 924 پولنگ سٹیشن بنائے گئے ہیں جن میں 435 مردانہ پولنگ سٹیشن، 416 زنانہ پولنگ سٹیشن اور 73 مخلوط پولنگ سٹیشن ہیں جبکہ ان پولنگ سٹیشنوں میں پولنگ بوتھ کی کل تعداد 2712 ہے۔ لاہور کینٹ بورڈ میں کل پولنگ سٹیشن 97 ہیں جن میں 39 مردانہ، 39 زنانہ اور 19 مخلوط ہیں۔ والٹن کنٹونمنٹ بورڈ میں پولنگ سٹیشنوں کی تعداد 202 ہے جن میں 104 مردانہ اور 98 زنانہ پولنگ سٹیشن ہیں۔صوبہ سندھ میں کل164 پولنگ سٹیشن, صوبہ خیبر پختونخواہ میں کل112 پولنگ سٹیشن اور صوبہ بلوچستانمیں کل25 پولنگ سٹیشن بنائے گئے تھے۔ کراچی، سیالکوٹ، ملتان، چکلالہ اور شورکوٹ کینٹ میں بعض پولنگ سٹیشنز پر ووٹنگ کا عمل وقت پر شروع نہ ہو سکا جبکہ متعدد مقامات پر ووٹرز کی کمی کے باعث پولنگ سست روی کا شکار بھی رہی۔ الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے دوران فوج طلب کی تھی جس پر پاک فوج کے 12400 جوان سکیورٹی ڈیوٹی پر مامور کئے گئے تھے۔کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں گرمی اور عام تعطیل نہ ہونے کے باعث ٹرن آوٹ انتہائی کم رہا، انتخابات کیلئے سکیورٹی کے فول پروف بندوبست کیے گئے تھے۔ صبح سے ہی لوگوں کی تعداد پولنگ سٹیشنز پہنچنا شروع ہو گئی تھی، مگر اس کے باوجود لوگوں کا رش توقع کے برعکس انتہائی کم رہا، امیدواروں کے کیمپس میں بھی جوش خروش نہ ہونے کے برابر تھا۔ لاہور کنٹونمنٹ بورڈ میں بلدیاتی انتخابات فوج کی کڑی نگرانی میں ہوئے۔ ہر پولنگ سٹیشن کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی جو شناختی کارڈ اور ووٹ کی سلپ دیکھنے کے بعد ’’واک تھرو‘‘ گیٹ سے گزرنے کی اجازت دیتے تھے۔ پولنگ سٹیشنوں کے اندر فوج موجود تھی۔ پولنگ سٹیشن کے ہر پولنگ بوتھ میں ایک فوجی جوان کمرے کے اندر اور ایک کمرے میں داخل ہونے کے راستے پر موجود تھا۔ ہر پولنگ سٹیشن پر میجر اور کیپٹن عہدہ کے افسر خود موجود تھے۔

٭ضابطہ اخلاق
انتخابات کے لئے میڈیا اور حصہ لینے والے امیدواروں کے لئے ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق پولنگ سٹیشنز کے احاطہ میں کوئی بھی غیر متعلقہ شخص داخل نہیں ہو سکے گا۔ میڈیا صرف ریٹرننگ افسر کی جانب سے جاری شدہ نتائج دکھا سکے گا۔ واپڈا حکام کو بجلی بند نہ کرنیکی ہدائت کی گئی ہے۔ پولنگ سٹیشنز کے نزدیک کسی گاڑی یا موٹر سائیکل کو 400 گز کے ایریا میں پارک نہیں ہونے دیا جائے گا۔ بیلٹ پیپرز کا رنگ سفید ہوگا جس پر امیدوار کی بجائے اس کا انتخابی نشان ہوگا۔

٭بلامقابلہ
42 کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں 14 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے جن میں پی ٹی آئی کے03، ایم کیو ایم کے 02اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کا 01 امیدوار شامل ہے جبکہ 8 آزاد امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے۔

٭صوبہ پنجاب کے کنٹونمنٹ بورڈ کا نتیجہ
پنجاب کے کنٹونمنٹ بورڈ میں الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے 59 نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کرلی جبکہ تحریک انصاف کو 28 نشستیں مل سکیں، 26 آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے جبکہ جماعت اسلامی ایک سیٹ حاصل کرسکی۔لاہور کینٹ اور والٹن کی 20 نشستوں میں سے 15 مسلم لیگ ن اور 5 تحریک انصاف نے جیتیں ،راولپنڈی اور چکلالہ کی 20 نشستوں میں سے 19 مسلم لیگ ن نے حاصل کرلیں ، چکلالہ ایک سیٹ جماعت اسلامی کو ملی۔ تحریک انصاف کے تیرہ اور شیخ رشید گروپ کے چار امیدوار میدان میں تھے لیکن سب کو شکست ہوئی۔ملتان کی 10 سیٹوں میں سے مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف نے تین ، تین جبکہ آزاد امیدواروں نے چار پر کامیابی حاصل کی ، سیالکوٹ کی 5 میں سے 4 سیٹیں نون لیگ لے گئی ، تحریک انصاف کو ایک سیٹ ملی ، گوجرانوالہ کی 10 نشستوں میں سے مسلم لیگ نون نے 5 ، تحریک انصاف نے 3 اور 2 آزاد امیدوار جیتے۔ سرگودھا کی 10 نشستوں میں سے مسلم لیگ ن کو 4 ، اور تحریک انصاف کو 2 ملیں ، 4 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ شور کوٹ کینٹ میں پانچوں سیٹوں پر آزاد امیدوار جیت گئے۔ منگلا میں مسلم لیگ ن اور آزاد امیدوار نے ایک ایک سیٹ جیتی۔ مری میں تحریک انصاف اور نون لیگ نے ایک ایک سیٹ جیتی۔ جہلم کی 2 نشستیں مسلم لیگ نون جیت گئی ، ٹیکسلا کی دونوں سیٹیں تحریک انصاف کے حصے میں آئیں۔ واہ کینٹ میں تحریک انصاف کو 6 اور مسلم لیگ ن کو چار سیٹیں ملیں۔ حویلیاں میں ایک سیٹ مسلم لیگ ن اور دوسری آزاد امیدوار نے جیتی۔ کھاریاں میں تحریک انصاف نے ایک سیٹ اور ایک آزاد امیدوار کو ملی۔ بہاولپور کی تینوں نشستیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں۔ اٹک کی دونوں نشستوں پر بھی آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ اوکاڑہ کی پانچ سیٹیں تھیں ساری آزاد امیدوار لے گئے۔

٭ صوبہ سندھ کے کنٹونمنٹ بورڈکا نتیجہ
صوبہ سندھ کے کنٹونمنٹ بورڈکراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم نے میدان مار لیا ، پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر رہی ،ایم کیو ایم نے کراچی میں 13 اور حیدر آباد میں چھے سیٹیں جیتیں ، نون لیگ نے کراچی سے پانچ جبکہ تحریک انصاف نے چار سیٹیں حاصل کیں۔ کراچی کنٹونمنٹ کی 5 نشستوں میں 3 سیٹوں پر ایم کیو ایم کامیاب ہو گئی، دو نشستیں آزاد امیدواروں نے حاصل کرلیں۔ گورنگی کنٹونمنٹ کی ایک سیٹ پر الیکشن ہوا جس میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی۔ کلفٹن کی دس سیٹوں میں سے چار تحریک انصاف ، تین پیپلز پارٹی ، دو ایم کیو ایم اور ایک جماعت اسلامی نے حاصل کی ، منوڑہ کنٹونمنٹ کی دونوں نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ، فیصل کنٹونمنٹ میں ایم کیو ایم نے میدان مار لیا۔ دس میں سے سات نشستیں متحدہ نے جیت لیں ، نون لیگ کو تین سیٹیں ملیں ، ملیر کنٹونمنٹ کی تین میں سے ایک ایم کیو ایم ، ایک مسلم لیگ نون اور ایک آزاد امیدوار نے جیتی۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں نے کامیابی کے بعد جشن منایا۔ حیدر آباد کنٹونمنٹ کی دس نشستوں میں سے ایم کیو ایم نے 6 جیت لیں ، پیپلز پارٹی کو 3 سیٹیں ملیں ، ایک نشست پر آزاد امیدوار کامیاب رہا۔ پنوں عاقل کی دونوں سیٹیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں -

٭صوبہ خیبر پختونخواہ کے کنٹونمنٹ بورڈکا نتیجہ
خیبر پی کے کے کنٹونمنٹس کے بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدواروں نے برتری حاصل کر لی‘ خیبر پی کے میں تحریک انصاف کے 11‘ جماعت اسلامی 3‘ مسلم لیگ ن اور اے این پی نے 2,2 پیپلزپارٹی نے ایک جبکہ 13آزاد امیدوار کامیاب ہوئے‘ پولنگ کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے ۔ایبٹ آباد کی 5 نشستوں میں سے ایک پر تحریک انصاف‘ ایک پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ رسالپور کی تین نشستوں پر تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی اور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ پنوعاقل اور لورالائی کے 22 وارڈز پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ حویلیاں‘ پشاور کے 5 وارڈز میں پی ٹی آئی کے 2 امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ آزاد‘ پی پی اور جماعت اسلامی کا ایک ایک امیدوار کامیاب ہوئے۔ مردان کے 2 وارڈز پر اے این پی اور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ کوہاٹ کی 3 میں سے 2 نشستوں پر آزاد اور ایک پر تحریک انصاف کا امیدوار کامیاب ہوا۔

٭صوبہ بلوچستان کے کنٹونمنٹ بورڈکا نتیجہ
بلوچستان میں 8 آزاد امیدوار جیتے جبکہ مسلم لیگ (ن) ایک سیٹ پر کامیاب رہی۔
٭ لڑائی جھگڑا
18سال بعد ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن میں کہیں دنگا فساد ہوا، کہیں تو تو، میں میں نے حالات کشیدہ کر دیئے۔ لاہور کے علاقے چونگی امر سدھو کے قریب تحریک انصاف اور(ن)لیگی کارکنوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں9افراد زخمی ہو گئے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے وارڈ نمبر ایک میں بھی دونوں جماعتوں کے حامیوں کا تصادم ہوا۔ سیالکوٹ میں پولنگ کے بعد وفاقی وزیر خواجہ آصف کینٹ پہنچے تو تحریک انصاف کے کارکنوں نے ان کی گاڑی کا گھیرا کرکے نعرہ بازی کی۔ صورتحال دیکھ کر(ن)لیگی کارکن پہنچے تو تصادم ہو گیا۔ کشیدگی کے باعث فوج طلب کرلی گئی۔ حیدر آباد میں سیاسی مخالفین کے درمیان بھی ڈنڈے چل گئے۔حیدر آباد میں آزاد امیدوار عبدالرحمان پٹھان کی جیت کا جشن مناتے ہوئے پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے جھڑپ ہو گئی، فریقین نے ایک دوسرے پر دھاوا بول دیا، لاتوں، مکوں اور ڈنڈوں کا آزادنہ استعمال بھی ہوا۔ فوج نے موقع پر پہنچ کر حالات پر قابو پایا۔ گوجرانوالہ کنٹونمنٹ کے تمام وارڈز میں ماحول کشیدہ رہا، کئی پولنگ سٹیشنز پر مخالفین کی جھڑپیں بھی ہوئیں، کئی سیاسی کارکنوں کے کپڑے بھی پھٹ گئے، پولیس نے جعلی ووٹ ڈالنے کے الزام میں سات افراد کو حراست میں لے لیا۔ سرگودھا میں وارڈ نمبر ایک سے(ن)لیگی امیدوار ملک اشرف نے ایک بزرگ کو لے جا کر خود انگوٹھا لگایا تو پی ٹی آئی کے پولنگ ایجنٹ نے پولنگ بند کرا دی۔ رینجرز اور پولیس نے موقع پرپہنچ کر صورتحال پر قابو پایا۔
Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 89341 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.