مزاحمتی سیاست کے نتیجے میں قام
ہونے والا جوڈیشیل کمیشن 2013کے انتخابات میں’’منظم دھاندلی اور سازش ‘‘کے
ذریعے عوامی مینڈیٹ چرانے کے عمران خان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی
تحقیقات کر رہا ہے ۔مگر گزشتہ دو ہفتے گزرنے کے باوجود تحریک انصاف اس
مبینہ دھاندلی کے کوئی کافی ٹھوس شواہد پیش نہیں کرسکی ،بلکہ حیرت انگیز
پہلو تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کا موقف اور بیانات ہی بدل چکے ہیں وہ جن
ہستیوں کو قریباً دوسال سے مورد الزام ٹھہراتے رہے اور واشگاف الفاظ میں
مذکورہ مبینہ دھاندلی میں شریک جرم قرار دیتے رہے اس دوران تمام سیاسی
جماعتوں اور اہم عہدے داران کی سر عام پگڑیاں اچھالتے رہے آج اپنے دیرینہ
مطالبہ کی منظوری کے بعد ایسے رام نظر آرہے ہیں کہ جیسے گزشتہ بیتے ایام
میں انھیں کوئی شدید اختلاف ہی نہ تھا ۔یہ تو وہ بات ہو گئی کہ
بہت شور سنتے تھے ‘ پہلو میں دل کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو چیرا تو ‘اک قطرہء خوں
نہ نکلا
اگر یہ کہا جائے کہ 2013 کے انتخابات شفاف تھے تو یہ سراسر غلط بات ہوگی
کیونکہ2013 کا انتخاب وہ تھا کہ جس کے بارے میں تما م سیاسی جماعتوں نے
بشمول حکمران جماعت بھی کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے ،دھاندلی ہونا کوئی نئی بات
نہیں کیونکہ پاکستان میں انتخابات ہمیشہ سے متنازع رہے ہیں دکھ کی بات تو
یہ ہے کہ اس معاملہ میں آج تک کسی بھی حکومت یا ریاست نے ایسی قسم کے کوئی
شفاف اور یقینی انتظامات نہیں کئے کہ جن سے دھاندلیوں کا مکمل طور پر قلع
قمع ہو سکے کیونکہ اس سارے نظام کا تانا بانا انہی سیاسی جماعتوں کے اصل
ذاتی مفادات سے جڑا ہوا ہے جو اس ملک کو جونک کی طرح چمٹی ہوئی ہیں اور اس
نظام کے شفاف بن جانے سے ان کا بوریا بستر گول ہو جاتا ہے اس لیے ہر انتخاب
متنازعہ ہونے کے باوجود قابل قبول ٹھہرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ 2013 کے
انتخابات کو بھی تمام سیاسی جماعتوں نے قبول کر لیا اور اسے جمہوریت کے
تسلسل کے لیے ضروری قرار دیا مگر عمران خان نے پہلے ڈھکے چھپے الفاظ میں اس
دھاندلی زدہ نظام کے خلاف آوازہ بلند کیا اور پھر بیچ چوراہے اس ساجھے کی
ہنڈیا کو پھوڑ ڈالا ۔ہمارے سیاسی نظام کی ایسی ایسی گرہیں اور سیاسی
فنکاروں کی کار گزاریاں عوام کے سامنے آئیں کہ پاکستانی عوام ہی نہیں پوری
دنیا انگشت بد انداں ہوگئی ۔اور حکومت طولا ً کراہاً اس جوڈیشیل کمیشن کے
قیام کے لیے رضامند ہوگئی ،مگر اب تحریک انصاف کی چپ مزحکہ خیز صورت اختیار
کر رہی ہے اور اب جب جوڈیشیل کمیشن نے عمران خان سے کہا کہ کافی اور وافر
ثبوت فراہم کریں تو انھوں نے کہا کہ تھیلے کھلوائیں ثبوت مل جائیں گے ۔اس
بارے میاں صاحب نے کہا اگر ثبوت تھیلوں میں ہیں تو آپ کے پاس کیا ہے ،میاں
صاحب ایک سیانے سیاست دان ہیں اور سیاسی داؤ پیچ لگانے کے مکمل ماہر ہیں
انھوں نے یہ بازی یوں جیتی ہے کہ بساط بچھانے والے بھی ششدر رہ گئے ہیں
۔ویسے اگر عمیق نظری سے دیکھا جائے تو عمران خان کو جتنا نقصان ان کے
حامیوں نے پہنچایا ہے اتنا کسی نے نہیں پہنچایا دھرنا سیاست سے لیکر قومی
اسمبلی میں واپسی تک ہر بیان اور ہر فیصلہ ہی ان کی سیاسی سمجھ بوجھ پر
سوالیہ نشان بن چکا ہے ۔اور اب دلچسپ بات تو یہ ہے کہ عمران خان کا کہنا ہے
کہ وہ جوڈیشیل کمیشن کا فیصلہ تسلیم کر لیں گے چاہے کمیشن ان کے الزامات کو
ردی کی ٹوکری میں ہی کیوں نہ پھینک دے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ نتائج سے پہلے
پسپائی اختیار کرنا کیا اپنی ناکامی کا کھلا اعتراف نہیں ہے ؟ ویسے موجودہ
سیاست دانوں کی مکرنیاں بھی اپنی جگہ ایک بہت بڑا ہتھیار ہیں جس کی وجہ سے
موجودہ ملکی اور سیاسی منظر نامہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا عندیہ دے رہا
ہے جس بنا پر ملک میں لاقانونیت انتہا کو پہنچ چکی ہے یہی وجہ ہے ہر ادارہ
مفاہمت اور ڈھنگ ٹپاؤ کا وطیرہ اپنائے ہوئے ہے ۔ایسے میں ایک شفاف نظام
ممکن ہونے کے خواب دیکھنے سراسر سراب کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ایسے میں یہ کس
قدر افسوسناک بات ہے یعنی ایسا شخص کہ جس کا دعوی تھا کہ وہ ایک نیا
پاکستان تشکیل دے گا اور اس گھسے پٹے فرسودہ ، منافقانہ اورغیر منصفانہ
نظام کو بدل کر ایک آزاد اور شفاف جمہوری دور کا آغاز کرے گا وہ اپنے تمام
بلند و بانگ دعوے بھلا کر مفادات اور روایتی سیاست کا چوغہ پہننے جا رہا ہے
اور اپنی پارٹی میں رفتہ رفتہ ایسے تمام ماضی کے آزمائے ہوئے سیاسی فنکاروں
کو اکٹھا کر رہا ہے جن کی تاریخ میں مفادات کے لیے وفا داریاں تبدیل
کرناعام سی بات رہی ہے مگر اس کا نقصان بھی ہوا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت
کے گراف پر ایک سوالیہ نشان آنے لگا ہے جس کی تازہ مثالیں کراچی کا ضمنی
الیکشن اور دوسرے کنٹومنٹ بورڈ کے انتخابات ہیں حالنکہ اس یقین کا اظہار
تھا کہ تحریک انصاف بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی اور دوسری جماعتوں کو
یقینا شکست ہوگی ۔مگر ان نتائج کے بعد ان کی مقبولیت میں واضح تبدیلی دیکھی
جا سکتی ہے ۔کیونکہ کراچی میں خوف کی سیاست ختم کرنے کا دعوی کرنے اور
انتشار و افراتفری کے باوجود تحریک انصاف کو بری طرح شکست ہوئی ہے اور یہ
تو کراچی ہے جس کی شفافیت ہمیشہ سے متنازع چلی آرہی ہے مگر کنٹونمنٹ
بورڈزکے انتخابات میں بھی تحریک انصاف کو پنجاب ،راولپنڈی اور سیالکوٹ جیسے
شہروں میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا مذکورہ شہروں میں عمران خان کا ووٹ
بینک سب سے زیادہ تھا اور ان کا یہ دعوی بھی تھا کہ ماضی میں ان شہروں میں
دھاندلی کے ذریعے ان کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے ۔
حقائق کچھ بھی ہوں عوام قدرے باشعور ہو چکے ہیں اور جان چکے ہیں کہ سیاست
صرف مفادات کا کھیل ہے اور اس حمام میں سبھی ننگے ہیں ہمارے سیاستدانوں کا
یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ بلند و بانگ دعوے کرنے اور کھوکھلے نعرے لگانے میں
اپنا ثانی نہیں رکھتے اور جھوٹے سچے بیانات دے کر عوام کے جذبات سے ہی نہیں
کھیلتے بلکہ ایک دوسرے کو بھی نیچا دکھانے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے
رہتے ہیں ۔فلاح ، جمہور اور جمہوریت وہ راگ ہیں کہ جن کے سروں سے یہ خود نا
آشنا لگتے ہیں ۔ایسے میں ان سے کسی بھی قسم کی فعال توقع کرنا حماقت ہے
۔یہی وجہ ہے کہ ’’تبدیلی ‘‘ کا نعرہ تمسخرانہ صورت اختیار کر چکا ہے جبکہ
عوام میں سے ایک طبقہ عمران خان کو مسیحا ، باکردار اور با عمل سیاست دان
سمجھ رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ وہ پورے ملک دوسری بڑی جماعت بن کر ابھرے
تھے ۔ایسے میں کوئی دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف نے ووٹ بینک ہونے کے
باوجود مسلسل بیانات سے اپنے معیار کو گرا لیا ہے ،عمران خان کو چاہیئے کہ
اپنی صفو ں میں جھانکیں تاکہ عوام کا اعتماد ان پر بحال رہ سکے جہاں تک بات
ہے دھاندلی کی توہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ دھاندلی کا بھوت کسی کے ہاتھ
نہیں آنے والا اس لیے تحریک انصاف کو چاہیئے کہ اگلے الیکشن کا انتظار کریں
اور سب ملکر ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں تا کہ ملک و ملت
اور عوام الناس کا بھلا ہوسکے مگرنادر شاہی کے گرویدہ حامیوں نے عمران خان
کو مثبت سمت سفر ہی نہ کرنے دیا۔اب عمران خان کا قانونی اور اخلاقی فرض
بنتا ہے کہ جوڈیشیل کمیشن میں کافی اور وافر ثبوت پیش کریں کہ جس سے ان کے
مینڈیٹ کا دھاندلی کے ذریعے چرایا جانا ثابت ہوسکے ،وگرنہ لمبے عرصے تک
جلسے ،جلوس اور احتجاج کی سیاست قائم رکھنے پر قوم سے معافی مانگیں اب یہ
ایسا وقت نہیں کہ میڈیا بیانات سے کام چلے گا اب قوم قدرے باشعور ہو چکی ہے
اور بلا وجہ وقت ضائع کرنے والے لوگوں سے مسلسل بلیک میل ہونے سے احتیاط
کرے گی اس لیے اب بیانات سے کام نہیں چلے گا معقول ثبوتوں کے ذریعے ’’منظم
دھاندلی اور سازش ‘‘ثابت کرنا پڑے گی ۔ |