گذشتہ دنوں میرے آبائی شہر
شرقپور شریف جو کہ اب باقاعدہ لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی حدود میں آ چکا
ہے ، وہاں کا پریس کلب آجکل شباب پر ہے، آئے روز علاقائی اور صوبائی و قومی
سطح کے سیاسی راہنماؤں کو پریس کلب کے مقبول پروگرام ’’ میت دی پریس‘‘ میں
مدعو کرتے رہتے ہیں، اور پھر اپنے معززو محترم مہمانان گرامی سے گفتگو میں
کسی قسم کا لحاظ نہیں رکھتے، ہر موضوع پر،ہر مسلے پر بڑی ڈحٹائی سے سوال
جواب کیے جاتے ہیں۔اس حوالے سے شہر میں میری موجودگی سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے
مجھے بھی دعوت نامہ بھیج دیتے ہیں اور شرقپور شریف میں میری عدم موجودگی کی
صورت میں ٹیلی فون پر مشاورت کرلی جاتی ہے، یہ میرے لیے بہت بڑے اعزا زکی
بات ہے، گذشتہ دنوں ملک جاوید اقبال اور سید طہماسپ علی نقوی اور بندہ
ناچیز کی کوششوں سے مسلم لیگ نواز کے رکن صوباٗی اسمبلی حاجی چودہری علی
اصغر منڈا جو خیر سے پارلیمانی سکریٹری بھی ہیں ،اور ان کے خاندان شریفاں
کے ہر فرد سے مثالی تعلقات ہیں اور انہیں تعلقات کی بدولت ہی انہیں آزاد
ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے پر مسلم لیگ نواز میں شمولیت اختیار کرنے کی
اجازت مرحمت فرمائی گئی ورنہ ضلع شیخوپورہ سے اور بھی رکن اسمبلی آزاد
امیدوار کی حثیت سے کامیاب ہو کر پنجاب اسمبلی میں پہنچے ہیں لیکن دوسال سے
زائد کا عرصہ بیت چلا ہے مگر انہیں مسلم لیگ نواز میں شمولیت کا اجازت نامہ
نہیں مل سکا۔ ،انہیں پریس کلب کے پروگرام ’’میٹ دی پریس ‘‘ میں مدعو کیا
گیا انہوں نے پروگرام میں اپنی جماعت ،اپنی حکومت کی پالیسیوں اور ترقیاتی
منصوبوں کے حوالے سے بریفنگ دی اور آئندہ کی حکمت عملی سے صحافیوں کو
اعتماد میں لیا اور مستقبل کے حوالے سے اپنی اور اپنی ھکومت کی ترجیحات پر
بھی اظہار خیال کیا۔ مجموعی طور پر بڑی سیر حاصل اور مفید گفتگو ہوئی، سوال
و جواب کے سیشن سے قبل ہی پرتقلف کھانا میزوں کی زینت بنادیا گیا، اتفاق سے
صوبائی پارلیمانی سکریٹری ،صدر ،سینئر نائب صدر اور سکریٹری پریس کلب ایک
ہی میز پر آمنے سامنے تھے ، کھانے کی میز پر میرے ایک سوال پر ’’ کیا آپ
بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں جیسا کہ امام کعبہ نے فرمایا ہے کہ یمن کے مسلے پر
پاکستان کے عوام اور پارلیمنٹ کی سوچ ایک نہیں ہے ‘‘ کا جو جواب معزز مہمان
نے دیا اس نے میرے دل کی دھڑکنیں منجمد کر دیں اور سوچوں میں تلاططم اور
اضطراب پیدا کر کے رکھ دیا…… موصوف صوبائی پارلیمانی سکریٹری کہہ رہے تھے
کہ آپ کو اس کا علم نہیں ہے واقعی ایسا ہے ، پارلیمنٹ اور عوام کی رائے ایک
نہیں ہے ، یمن کے مسلے پر پاکستانی عوام اور پارلیمنٹ ایک پیج پر نہیں ہیں۔
اس سے آگے جو جملہ موصوف بڑی آسانی سے کہ دیا وہ ’’چھوٹا منہ اور بڑی بات
‘‘ کے مصداق والی بات ہے، چودہری علی اصغر منڈا کی زبان سے ادا ہونے والے
الفاظ یہ تھے کہ ’’ پاکستانی پارلیمنٹ ایرانی اور اسرائیلی سازش کا شکار
ہوئی اور یمن کے مسلے پر منظورکردہ متفقہ علیہ قرارداد کے پیچھے بھی ایران
اور اسرائیل کا ہاتھ تھا۔‘‘مسلم لیگ نواز کے ایک ذمہ دار عہدیدار کی زبان
سے ایسے الفاظ کی ادائیگی سے بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ’’اﷲ کرے ایسا نہ
ہو‘‘ کیونکہ پارلیمنٹ کی منتفق قرارداد کے متعلق ایسی رائے رکھنا کہ اس کے
پیچھے ایرانی اور اسرائیلی ہاتھ ہے کا مطلب ہوا کہ ہماری پوری پارلیمنٹ
ایرانیوں اور اسرائیلیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی تھی؟ پاکستانیوں میں ایسی
سوچ پیدا کرنا کس قدر خطرناک رجحانات کو جنم دے سکتا ہے شائد اس امر کا
اندازہ امام کعبہ یا ان کے تقلید کاروں ،بہی خواہوں کو بھی نہیں ہو سکتا۔
مسلم لیگ نواز کے صوبائی پارلیمانی سکریٹری کا یہ موقف بذات خوداپنے اندر
متضاد باتیں لیے ہوئے ہے، کیوں موصوف نے ایک ہی لمحے ایک دوسرے سے متحارب
ممالک کو ایک مقام پر یکجا کردیا ہے، دنیا جانتی ہے کہ اس وقت اسرائیل اور
اسکے سرپرستوں کے لیے کوئی خطرہ بن سکتا ہے تو وہ ایران ہے، کوئی بھی ذی
شعور انسان اس بات کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتا کہ ایران اور
اسرائیل ایسے شیر وشکر ہو سکتے ہیں…… میں حیران ہوں کہ ایران دشمنی اور
سعودی عرب کی دوستی و محبت میں اس قدر گمراہ کن پروپیگنڈہ بھی کیا جا سکتا
ہے ،کہ حکمران جماعت کا ایک اہم عہدے دار اس بات کو بھی بھول جائے کہ
پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی قرارداد کے حق میں مسلم لیگ نواز کے ارکان
پارلیمنٹ نے بھی ووٹ دئیے ہیں…… اس سے یہ مطلب اخذ کیا جائے کہ مسلم لیگ
نواز کے ارکان اور وزراء بھی ایرانیوں اور اسرائیلیوں کی سازش کا حصہ
بنے؟میری حکومت خصوصا وزیر اعظم نواز شریف سے التماس کروں گا کہ وہ اس
معاملہ پرنہ صرف فوری نوٹس لیں بلکہ حکومتی موقف کی وضاخت کریں اور جو جو
ارکان پارلیمنٹ ایرانی اور اسرائیلی خفیہ اداروں کی سازش میں ملوث ہوں ان
کے خلاف نااہلی کا ریفرنس دائر کیا جائے کیونکہ پنجاب صوبائی پارلیمانی
سکریٹری کے بیان مخض بیان نہیں ہے اس میں انہوں نے پوری پارلیمنٹ کی وطن سے
وفاداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔ میں ایکبار پھر اﷲ سے دعا گو ہوں کہ
اﷲ کرے ایسا نہ ہو اور یہ بیان مخض ایک الزام ثابت ہو جو انہوں نے حرمین
شریفین کی محبت میں لگایا ہو۔ مجھے اپنے ارکان پارلیمنٹ کی حب الوطنی پر
پورا بھروسہ اور ایمان ہے کیونکہ کوئی گیا گزرا پاکستانی بھی اسرائیل کے
مفادات کے لیے کام نہیں کر سکتا-
موصوف صوبائی پارلیمانی سکریٹری کو ایسی بات کہنے سے قبل سو بار سوچنا
چاہئیے تھا کہ کئی مصر سمیت عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کررکھا ہے اور
اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کیے ہوئے ہیں لیکن واحد پاکستان ہے جو
آج بھی اسرائیل کو وجود کو دنیا اور اسکے امن کے لیے ایک ناسور سمجھتا ہے
اور فلسطین کے حقوق کے لیے آواز بلند کیے ہوئے ہے بھلا ایسے ملک پاکستان کی
پارلیمنٹ کیونکر اسرائیل کے ہاتھوں یرغمال بنے گی ؟ اس پر مصوف صوبائی
پارلیمانی سکریٹر ی کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ |