جناب چیف جسٹس! تنخواہ میں گزارہ کب ہوتا ہے....؟

تازہ خبر کے مطابق جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے نیب ملازمین کو کمیشن لینے سے روک دیا ہے اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”نیب کے افسروں کو تنخواہیں ملتی ہیں تو وہ کمیشن کیوں لیتے ہیں“ عدالت عظمیٰ نے نیب اہلکاروں کو کمیشن وصول کرنے سے روک دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ عدالت اور ادارے عوام کو ریلیف دینے کے پابند ہیں اور اداروں کو کام کرنے کے عوض انعام و اکرام سے نہیں نوازا جا سکتا۔ جسٹس افتخار چودھری نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے حکام سے کہا ہے کہ وہ سرکاری افسر ہیں کمیشن ایجنٹ نہیں اور اگر انہوں نے کمیشن پر کام کرنا ہے تو نوکری چھوڑ کر کوئی ایجنسی کھول لیں“ چیف جسٹس نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ نیب کے اہلکاروں کو کمیشن لینے کا اختیار کس نے دیا جس پر نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ رولز بینکوں نے خود بنائے ہیں اور وہ کمیشن کی رقم دیکر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فنانس ڈویژن کو کمیشن لینے یا دینے کا اختیار نہیں ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب کا کمیشن کی رقم وصول کرنا غیرقانونی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان تو آج کے دور کے ”ولی“ ہیں، وہ تو برسر عام ماتحت عدلیہ کے ججوں کو بھی کہتے ہیں کہ تنخواہ میں گزارہ کرو انہیں شائد اندازہ نہیں کہ آج کل مہنگائی کے کیا حالات جارہے ہیں خصوصاً نیب جیسے ادارہ کے ملازمین کے لئے۔ عام آدمی تو پھر بھی دال روٹی پر گزارہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب بچوں کو بلکتا دیکھتا ہے اور چوری، ڈاکہ، رشوت ستانی، گراوٹ، چور بازاری جیسے ”بہادرانہ“کام نہ کرسکنے کی وجہ سے یا خود مر جاتا ہے یا بچوں کومار دیتا ہے لیکن نیب تو ”بہادر“ افسروں اور ملازمین کا ادارہ ہے، وہ یہ ”غیر بہادرانہ“ اور ”بزدلانہ“ کام کیسے کرسکتے ہیں۔ اگر نیب کے ”دیہاڑی دار“ ملازمین بھی بزدل بن گئے تو ایک طرف ”پلی بارگیننگ“ ختم ہوجائے گی تو دوسری طرف ان کی ”اوپر“ کی کمائی خوامخواہ قومی خزانے میں جمع ہوجائے گی جہاں سے وہ حکومت میں شامل ”غریب“ اور ”مسکین“ وزراء اور بیوروکریٹس کی ”خالی جیبیں“ بھرنے کے کام آئے گی۔

جناب چیف جسٹس صاحب! مؤدبانہ طور پر آپکی خدمت میں عرض ہے کہ آپ کو کچھ تو اندازہ ہوگا ہی کہ چھ سات ہزار روپے ماہانہ وصول کرنے والا پاکستانی کتنے کرب سے سارا مہینہ گزارتا ہے۔ اگر کسی کا گھر بھی کرایہ کا ہو، دو بچے بھی ہوں، بوڑھے والدین یا ان میں سے کوئی ایک اللہ کی رحمت سے اس کے ساتھ ہو تو وہ کیسے ایک آس اور امید کے ساتھ مہینے کے دن گنتا ہے کہ شائد اس کی اور اس کے گھر والوں کی قسمت میں بھی کبھی اچھے دن آئیں گے۔ جب وہ بچوں کو دو وقت کھانے کے لئے ترستا دیکھتا ہے، جب وہ ان کے سکول کی فیس ادا نہیں کر پاتا، جب وہ بچوں کو کتابیں، کاپیاں اور بستہ فراہم نہیں کر پاتا اور انہیں کسی ”بڑے صاحب“ کے پاس گروی رکھوانا پڑتا ہے تاکہ وہاں کام کر کے ان کا بچا کھچا کھانا حاصل کرسکیں، جب بیوی کی فرمائش تو دور کی بات اس کی ضروریات بھی پوری نہ کرپائے اور دل پر پتھر رکھ کر اسے بھی کام کی اجازت دیدے، جب بوڑھے والد ین کے لئے دوائی نہ خرید سکے تو وہ کہاں جائے؟ اسے کسی این آر او سے کیا لینا دینا؟ اسے سوئس کیسز کی کیا سمجھ آئے گی؟ اسے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری سے کیا واسطہ؟ اس کو اس بات سے کیا غرض کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی اہلیت ”سنیارٹی“ نہیں آپکا مشورہ ہے؟ اس غریب کو کیا معلوم کہ "Consultation"کے معانی اور مفہوم ڈکشنری میں کچھ اور ہیں اور عدالتی زبان میں کچھ اور....! جناب والا! وہ توچاہتا ہے کہ عدالت کے ریڈر (بے شک ماتحت عدلیہ کا ہو) کی طرح شام کو اس کے پاس بھی دو چار ہزار روپے آجائیں، وہ تو چاہتا ہے کہ تحصیلداروں اور سب رجسٹراروں کے کلرکوں کی طرح اس کی بھی ”دھانسو“ قسم کی ”دیہاڑیاں“ لگیں، اس کی تو خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بچے بھی نوعمری میں کام کی بجائے پڑھ لکھ کر کہیں ”چپڑاسی“ جیسے ”باوقار“ یا ”کلرک“ جیسے ”کماﺅ“ عہدے اور منصب پر فائز ہوجائیں۔

عزت مآب چیف جسٹس صاحب! معافی کا خواستگار ہوں کہ آپ کا وقت ضائع کررہا ہوں جبکہ مجھے پتہ بھی نہیں کہ میری تحریر آپ کی نظر سے گزر بھی پائے گی یا نہیں لیکن چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق گستاخی کی معافی مانگتے ہوئے، ڈرتے ہوئے، خوف کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ آپ جوڈیشل پالیسی کے برعکس ذرا ماتحت عدلیہ کے حالات بھی دیکھیں۔ اگر کبھی ان عدالتوں کے صحیح حالات کا ادراک کرنا چاہیں تو بھیس بدل کرکسی سول جج یا مجسٹریٹ کی عدالت میں تشریف لے جائیں یا کسی عدالت میں ریڈر کی کرسی کے قریب خفیہ مائیک لگوا کر گفتگو سن لیں کہ وہاں ایک فریق تاریخ لینے کے کتنے پیسے دیتا ہے اور لمبی تاریخ کے لئے کتنے؟ جناب والا! جس سول جج کے پاس روزانہ ڈیڑھ دو سو کیسز کی لسٹ ہوگی، وہ ان میں کیسے انصاف کرپائے گا؟ آپ کے یقیناً معلومات کے اپنے ذرائع ہوں گے لیکن پھر بھی بے شک میڈیا کے ذریعہ سروے کروا کر دیکھ لیں کہ ججز کورٹ روم میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں یا اپنے چیمبرز میں براجمان رہتے ہیں؟ جناب والا! آپ نے پلازوں کے بارے میں کمیشن بھی بنایا اور غیر قانونی پلازوں کو گرانے کا حکم بھی دیا، جس پر کسی حد تک عملدرآمد بھی ہوگیا لیکن کیا کسی کمیشن یا سرکاری اہلکار نے آپ کو کبھی رپورٹ دی کہ بڑے شہروں میں نقشہ کی منظوری کے بغیر ابھی تک پلازوں میں واقع دکانوں، دفاتر اور فلیٹس کی دستاویزات سب رجسٹرار حضرات کیسے رجسٹرڈ کر دیتے ہیں؟ کیا آپ کو کسی نے یہ بتایا کہ کچہریوں اور دیگر دفاتر میں وہ افسران جن کو دفتری اوقات میں پبلک ڈیلنگ کے لئے اپنے دفاتر میں موجود رہنا چاہئے ان کی چھ چھ گھنٹے کی میٹنگز کہاں ہوتی ہیں اور سائلان کس طرح ذلیل وخوار ہوتے ہیں؟ جناب والا وکیل آپ کے چہیتے ہیں اور آپ کے نام پر ووٹ لیکر بار ایسوسی ایشنوں اور بار کونسلز میں کامیابیاں حاصل کرتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ الیکشن میں کامیاب ہوکر اور بار کے نمائندہ کی حیثیت سے وہ کس طرح ججز کو بلیک میل کرتے ہیں اور ان کے چیمبرز میں جا کر کام کراتے ہیں؟ ججوں کے نام پر رقوم اکٹھی کرتے ہیں اور اپنی کمیشن کھری! جناب والا! لطیف کھوسہ نے تو ”صرف“ تیس لاکھ روپے لئے اور اس کے کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا لیکن ایک ٹرانسفر کی درخواست کے لئے تین کروڑ روپے کی ”حقیر“ رقم لینے والا کیا اب بھی اتنا ہی پاکدامن اور محترم ہے جتنا تحریک میں تھا؟ جناب والا جدھر نظر دوڑائیں ادھر کمیشن ایجنٹ بیٹھے ہوئے ہیں۔ سرکار! آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، ہر طرف اندھیر نگری ہے تو پھر صرف نیب کے ”بہادر“ ملازمین پر ہی آپ کی برہمی چہ معنی دارد! آج کل کے حالات میں تنخواہ پر گزارا کہاں ہوتا ہے اور ویسے بھی ”وہ کھائیں گے نہیں تو بڑے کیسے ہوں گے“.... نئے این آر او کیسے آئیں گے....؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222475 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.