یا اللہ! اس رات کی صبح خیر کی ہو

آج 23فروری 2010 ہے اور صبح 24 تاریخ کو راولپنڈی کے حلقہ 55 میں ضمنی الیکشن ہونے والا ہے۔ فروری 2008 کے عام الیکشن کے بعد یہ دوسرا ضمنی الیکشن ہے۔ عام انتخابات میں اس حلقہ سے مسلم لیگ (ن) کے جاوید ہاشمی واضح اکثریت سے جیتے تھے اور بعد ازاں انہوں نے یہ نشست خالی کردی تھی۔ پہلے ضمنی الیکشن میں یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے ہی حاجی پرویز نے فتح حاصل کی، اس وقت شیخ رشید نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ حاجی پرویز اس عمر میں بی اے کرنے کے چکر میں اپنی نشست گنوا بیٹھے اور دوبارہ ضمنی الیکشن کا طبل بجانا پڑا۔ پچھلے کافی عرصہ سے اس حلقہ میں باقی پنجاب کی طرح امن و امان کے مسئلہ کی وجہ سے الیکشن کرانے سے احتراز کیا گیا۔ شیخ رشید نے اس سلسلہ میں پہلے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور بعد ازاں انہیں بھی سپریم کورٹ سے ہی ریلیف ملا اور سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے 24 فروری کو الیکشن کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ اس حلقہ میں تین لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ووٹر ہیں اور یہ حلقہ نظریاتی طور پر مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ شیخ رشید اس حلقہ سے چھ مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ ساتویں بار 2008 کے الیکشن میں وہ اپنے سابقہ کرتوتوں کی وجہ سے بڑی برے طریقہ سے شکست سے ہمکنار ہوئے اور صبح ایک بار پھر وہ ضمنی الیکشن میں اسی حلقہ سے اپنی قسمت آزمانے جا رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں سب سے اہم امیدوار مسلم لیگ (ن) کے شکیل اعوان سمیت تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے امیدوار بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

الیکشن کے روز پورے راولپنڈی ضلع میں عام تعطیل ہوگی۔ پولیس اور رینجرز کی بڑی نفری الیکشن کے دوران کسی بھی گڑ بڑ اور ناخوشگوار واقعہ سے نبرد آزما ہونے کے لیے مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں اترے گی۔ ذرائع اور میڈیا رپورٹس کے مطابق شیخ رشید اور شکیل اعوان کے مابین زور دار مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔ الیکشن مہم کے آخری روز مسلم لیگ (ن)، عوامی مسلم لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اپنے امیدواروں کے لئے ریلیوں اور جلسوں کا اہتمام کیا تھا۔ الیکشن کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ کے قائد نواز شریف نے شکیل اعوان کے آخری جلسہ سے خود خطاب کیا جبکہ عوامی مسلم لیگ کے امیدوار اور اس کے قائد، ورکر وغیرہ شیخ رشید نے لیاقت باغ میں بینظیر کی جائے شہادت پر دعا کے بعد اور پیپلز پارٹی کے جھنڈوں کے جلو میں ریلی نکالی اور جلسہ کیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے امیدوار کے جلسہ سے اور جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے بھی اپنے امیدوار کے جلسہ سے خطاب کیا۔ اگر حلقہ 55 میں امن و امان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو چند روز پہلے شیخ رشید پر مبینہ طور پر قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے جس میں شیخ صاحب تو ”معجزانہ“ طور پر بچ نکلے لیکن ان کے تین گارڈز یا ساتھی جاں بحق ہوگئے۔ اب پتہ چلا ہے کہ حکومت نے شیخ صاحب کو بھرپور سکیورٹی فراہم کردی ہے اور رینجرز کے اہلکاران ان کے ساتھ رہیں گے۔ اسی طرح باقی اہم امیدواروں کو بھی ”حسب توفیق“ سکیورٹی فراہم کرنے کی اطلاعات ہیں۔

ایک عام پاکستانی کی طرح میں آنے والی صبح سے خوفزدہ ہوں۔ اس لئے کہ نہ جانے 24 فروری کی صبح کیا کیا ہنگامے اپنے ساتھ لے کر آتی ہے۔ شیخ رشید جن کو ”اندر کھاتے“ پیپلز پارٹی کی قیادت کی پرزور حمایت حاصل ہے اپنی فتح کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں۔ یہ وہی حضرت ہیں جو برسر عام پیپلز پارٹی کی سابقہ قیادت (جو اب دنیا سے رخصت ہوچکی ہے)کو نازیبا الفاظ سے پکارا کرتے تھے۔ ان کے وہ الفاظ جو انہوں نے لاہور کے بھاٹی گیٹ میں ہونے والے ایک انتخابی جلسہ میں بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے بارے ادا کئے تھے ابھی تک یادداشت میں محفوظ ہیں اور ان کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ شیخ رشید کا طرز سیاست ایسا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کا کوئی بھی جیالا جو بھٹو خاندان کے ساتھ انس و محبت اور عقیدت رکھتا ہو، شیخ صاحب کو ہرگز پسند نہیں کرسکتا۔ دوسری طرف مسلم لیگ (متحدہ) کے وہ ہمدرد ہیں جو کبھی شیخ صاحب کا دست و بازو ہوا کرتے تھے، ان کے لئے اس وجہ سے شیخ صاحب کی حمایت کرنا ممکن نہیں رہا کہ گورنر سلمان تاثیر بھی شیخ صاحب کے حمایتی بن چکے ہیں، سلمان تاثیر شائد اس وقت پنجاب کے عوام کے لئے سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص ہیں جو آئے دن عوامی جذبات کی نہ صرف توہین کرتے رہتے ہیں بلکہ اپنے مخصوص پس منظر اور حرکات کی وجہ سے بھی عوام میں اپنی ساکھ نہیں رکھتے۔ میرے خیال میں ان کا شیخ رشید کے پاس جانا، شیخ صاحب کی شکست کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ سلمان تاثیر جیسوں کے ہی بارے میں ہی کہا جاتا ہے
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟

بہرحال سیاست میں دوست اور دشمن بدلتے رہتے ہیں لیکن شیخ صاحب کچھ زیادہ ہی بدل گئے ہیں جو شائد راولپنڈی کے عوام کے مزاج کے سراسر خلاف ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کل کچھ پوشیدہ قوتیں امن و امان کا سنگین مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کریں گی۔ یہ وہ قوتیں اور مخصوص آلہ کار ہیں جو ایک خاص وجہ سے مسلم لیگ (ن) کا گراف گرانا چاہتے ہیں اور کسی بھی صورت شکیل اعوان کو فتح سے ہمکنار ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ وہ سازشی ٹولہ ہے جو پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں ہیجان اور افراتفری پیدا کرنا چاہتا ہے اور اپنی شکست یقینی دیکھ کر وہ کوئی بھی ”گل“ کھلانے اور ہنگامہ کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ خدشات غلط ثابت ہوں اور پنڈی کا معرکہ بخیر و خوبی اپنے اختتام کو پہنچ جائے۔ کھیل اور سیاست میں فتح و شکست تو ہوتی رہتی ہے، اسے دل پر نہیں لینا چاہئے، مشرف کی چاپلوسی، پیپلز پارٹی سے ڈیل، اپنے حلقہ اور مسلم لیگ سے بے وفائی کیا شکست کے لئے کافی نہیں اور سب سے اہم اور ضروری بات، انہیں اخبارات میں معافی کی خبریں لگوانے کی بجائے ان معصوم بچیوں سے معافی کا طلبگار ہونا چاہئے جن کو فاسفورس بموں کی نظر کردیا گیا....! اللہ کرے آج کی صبح خیر کی ہو.... آمین!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222506 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.