سانحہ کراچی،اسباب ومحرکات اورعملی تقاضے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جمعرات کو کراچی میں اسماعیلی برادری کے قتل عام پر یوم سوگ منایا گیا اور
سخت سیکورٹی میں جاں بحق ہونے والے مرد وخواتین کی نماز ادا کی گئی،اِس
موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات دیکھنے میں آئے، سانحہ پشاور کے بعد کراچی
کے اِس سانحہ نے پوری پاکستانی قوم کو غم و اندوہ کی کیفیت میں ہی مبتلا
نہیں کیا بلکہ ہر شہری کی آنکھ بھی نمناک کردی،یہ سانحہ اپنی
المناکی،سوگواری اور دلخراشی کے لحاظ سے سانحہ 12مئی 2007ءاور سانحہ 16
دسمبر2014ءسے کسی بھی طرح کم نہیں،گو سانحہ پشاور کے بعد ایک تاثر یہ
ملاتھا کہ شاید اب مستقبل میں اِس طرح کا وسیع پیمانے پر کشت وخون کا کوئی
اور واقعہ رونما نہیں ہوگا،مگر چند مہینوں میں ہی درجنوں نہتے پاکستانیوں
کے منظم انداز میں قتل عام نے ملک بھر میں بالمعوم اور کراچی میں بالخصوص
سکیورٹی صورت حال پر متعدد سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے،دوسری جانب
اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا آغا خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پرامن
جماعت پر حملہ عقل سے عاری تشدد کی عکاسی کرتا ہے اور اِس حملہ کے محرکات
سیاسی یا فرقہ وارانہ ہو سکتے ہیں،وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی اِس
واقعہ کے خلاف ملک بھر میں جمعرات کو یوم سوگ منانے کا اعلان کیا،دیگر
شہروں کے برعکس کراچی میں گذشتہ روز کے قتل عام کے بعد وسیع پیمانے پر سوگ
منایا گیا اور حادثہ کے روز ہی کراچی کی تاجربرداری نے اعلان کردیا کہ وہ
جمعرات کو پرامن ہڑتال کریں گے،لہٰذا شہر قائد میں کاروباری سرگرمیاں نہ
ہونے کے برابر رہیں ۔
ادھر کراچی میں اسماعیلی برادری کی بس پر دہشت گردی کے حملے کے تناظر میں
کور ہیڈ کوارٹرز میں ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا،جس میں گورنر سندھ، ڈی جی
ملٹری آپریشنز،ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس،ڈی جی آئی ایس پی آر اور آئی جی سندھ
نے شرکت کی،بدھ کی رات وزیر اعظم نے کراچی کے گورنر ہاؤس میں بھی اعلیٰ
سطحی اجلاس کی صدارت کی،جس میں انہیں ڈی جی رینجرز اور آئی جی نے بس حملے
کے حوالے سے ابتدائی تحقیقات سے آگاہ کیا،اِس اعلیٰ سطحی اجلاس میں پاک
افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف جو کراچی کی نازک صورتحال کے پیش نظر سری
لنکا کا دورہ منسوخ کرکے اجلاس میں شرکت ہوئے کے علاوہ وزیر اعلیٰ سید قائم
علی شاہ، ڈی جی رینجرز اور کور کمانڈر ،سابق صدر آصف علی زرداری اور متحدہ
قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی موجود تھے،وزیر اعظم نے حسب
روایت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی کہ بس پر حملے
میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے
جائیں،سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بربریت کے
واقعات انسداد دہشت گردی کے خلاف حکومت کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے
انہوں نے اِس عزم کا بھی اظہار کیا کہ معصوم لوگوں کے قاتلوں کا مکمل صفایا
کیا جائے گا ۔
یہاں یہ اَمر پیش نظر رہے کہ سانحہ صفورا جیسے دلدوز واقعات کراچی میں
معمول بن چکے ہیں،ٹارگٹڈ آپریشن کے باوجود 6 سے زائد ٹارگٹ کلرز کا
موٹرسائیکلوں پر کھلے عام ایس ایم جی،نائن این این ایم پستولوں سمیت
دندناتے پھرنا،بس کا محاصرہ کر کے اُس میں سوار ہونا اور4 سے 5 منٹ تک
فائرنگ کر کے بے گناہ،نہتے شہریوں کا قتل عام کرنا ملک کے باسیوں کے اذہان
و قلوب میں بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے، مزید حیران کن بات یہ ہے کہ
فائرنگ کے وقت جائے وقوعہ کے قریب واقع پولیس چوکی میں ایک بھی اہلکار
موجود نہ تھا،یہ بھی میڈیا پر آیا کہ ٹارگٹ کلرز ہولناک فائرنگ کے بعد داعش
کے پمفلٹس پھینک کر فرار ہو گئے،حکومت سندھ اور اپیکس کمیٹی کی ناک کے نیچے
ہونے والا دہشت گردی کا یہ واقعہ ہماری قومی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے،جو
ایک جانب صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگاتاہے تودوسری جانب یہ
بھی ظاہر کرتا ہے کہ حزب اقتدار ہوں یا حزب اختلاف دونوں ہی دہشت گردی کے
خاتمہ میں اپنی سنجیدگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں ۔
انتہاپسندی کا عفریت سالوں سے وطن عزیز کے باسیوں کیلئے بڑے چیلنج کی شکل
میں موجود ہے مگر سیاسی اشرافیہ معاملہ پر درکار توجہ دینے میں ناکام رہی
ہے،اگر مگر کے باوجود یہ یقین سے کہنا مشکل ہے کہ سانحہ کراچی کے بعد اِس
سرزمین پر کشت وخون کا کوئی اور سانحہ رونما نہیں ہوگا،حیران کن بات یہ ہے
کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس جیسے اہم محکمہ میں اصلاحات
لانے پر بھی توجہ نہیں دی جارہی اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں فوج کو
فرنٹ لائن پر استعمال کیا جارہا ہے جو مستقل حل نہیں ہے،دوسری جانب پی پی
پی کے وزیر اعلیٰ اور صوبے کے انتظامی سربراہ مسلسل اپنی افادیت ثابت کرنے
میں ناکام ر ہے ہیں،یہی معاملہ صوبے کی انتظامیہ اور پولیس کا ہے جو ان
تخریبی عناصر اور مافیاز پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دیتی،چنانچہ ضرورت
اِس امر کی ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کے محاسبے اور مواخذے کے لئے عملِ
تطہیر کو بروئے کار لاتے ہوئے آہنی اقدامات کئے جائیں اور ایسی پولیس فورس
تشکیل دی جائے جو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہونے کے ساتھ جدید عصری تقاضوں
سے بھی بہرہ ور ہو۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب تک سیاسی جماعتوں اور حکومتی ترجیحات درست
نہیں ہوگی اور فیصلے قومی مفاد میں نہیں کیے جائیں گے اُس وقت تک پاکستان
میں قیام امن کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا،ہمارا ماننا ہے کہ یہ سانحہ
بالخصوص صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر
سوالیہ نشان ہے اوروفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس سوال کا تسلی بخش جواب
دینا ہوگا کہ کراچی میںجاری ٹارگٹیڈ آپریشن کے دوران دہشت گرد کیوں اور
کیسے اتنی بھیانک کارروائی کرنے میں کامیاب ہوئے،ساتھ ہی وطن عزیز کا
باشعور طبقہ وزیراعظم صاحب سے یہ بھی پوچھنا چاہتا ہے کہ سانحہ پشاور کے
بعد جو قومی ایکشن پلان منظور کیا گیا تھا اُس پر عمل درآمد ہونا
کیونکرتاحال ممکن نہیں بنایا جاسکا ۔
دوسری جانب وطن عزیز میں لسانی،سیاسی اور مذہبی دہشت گردی کی کارروائیوں
میں پڑوسی ملک کے ملوث ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا،بھارت کا معاملہ یہ
ہے کہ ُاس کی سیاست اور صحافت میں ایسے عناصر بہت طاقتور ہیں جو پاکستان
سمیت خطے کے دیگر ممالک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے کے مخالف
ہیں،اسلام اور پاکستان دشمنی اُن میں اِس انداز میں رچ بس چکی کہ وہ اِس
رجحان سے کسی طورپر دور ہونے کو تیار نہیں، جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی
سرکار بھی کسی طور انتہاپسندانہ پالیسوں سے تائب ہونے کو تیار نظر نہیں
آتی،آئے دن کنڑول لائن پرگولہ باری،بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو بھرپور
تعاون فراہم کرنا اور پاکستان کے معاشی حب کراچی میں انارکی پھیلانے کا
سلسلہ بدستور جاری ہے،یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کور کمانڈرز اجلاس میں بھارتی
خفیہ ادارے” را“ کی جانب سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات کو مبینہ طور پر
شہ دینے کا سختی سے نوٹس لیا گیا،دفتر خارجہ نے بھی اپنے حالیہ ہفتہ واری
بیان میں بھارت کو پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے گریز کا مشورہ
دیا ہے ،سیاسی مبصرین کے نزدیک وزارت خارجہ کا بیان دراصل اُن اطلاعات کی
تصدیق کرنے کے مترادف ہے کہ ”را “پاکستان میں دہشت گردی کو شہ دے رہی ہے ۔
یہ امر لائق توجہ ہے کہ 11 مارچ 2015ءکو عزیز آباد آپریشن کے بعد کراچی میں
ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں واضح کمی دکھائی دی تھی لیکن شومی قسمت کہ اپریل
کے آخری عشرے سے ٹارگٹ کلنگ کی لہر میں دوبارہ واضح شدت ریکارڈ پر آئی،اِس
دوران 2 ڈی ایس پی،سماجی کارکن سبین محمود اور استاد صحافی پروفیسر
وحیدالرحمن شہید ہوئے،جبکہ ایس ایس پی راو_¿ انوار کے کانوائے پر حملہ
کیاگیا اور13 مئی کو اسما عیلی کمیونٹی کی بس کونشانہ بنایا گیا،جس میں46
افراد مارے گئے،یوں کراچی میں بے گناہ انسانوں کے خون سے مسلسل ہولی کھیلی
جا ر ہی ہے جبکہ فرقہ وارانہ جماعتیں اُسے مخصوص کمیونٹی کے خلاف منظم دہشت
گردانہ واردات قرار دے کر متاثرہ کمیونٹی کی ہمدردی کی آڑ میں جہاں اُن کے
زخموں پر نمک پاشی کررہی ہیں،وہیں بین السطور وہ ایسے بیانات بھی داغتی ہیں
جن کا مقصد فرقہ واریت کے شعلوں کو ہوا دے کر حالات کو مزید ابتربنانا ہوتا
ہے،ایسے میں صدر مملکت،وزیراعظم، وزیر داخلہ،صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ،آئی جی
سندھ،ڈی جی رینجرز کی جانب سے واقعہ کی مذمت اور متوفیان کے ورثاءکیلئے فی
کس پانچ لاکھ روپے کا اعلان کے ساتھ کسی صوبائی وزیر کی جانب سے پورے وثوق
کے ساتھ یہ یقین دلانا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک
کر دیا گیا ہے کسی طور بھی اِن سانحات کا مداوا نہیں کرسکتا۔
یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ سابق ڈی جی رینجرز( موجودہ ڈی جی آئی ایس
آئی) پہلے ہی کراچی بدامنی کیس میں عدالت عظمیٰ کو بتاچکے ہیں کہ کراچی میں
امن و امان کی صورت حال اور بدامنی کے ذمہ دار سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز
ہیں،سپریم کورٹ کی وہ آبزرویشن جو 20 کروڑ پاکستانیوں کے محسوسات،جذبات اور
خیالات کی مظہرہے، آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ کراچی میں آپریشن کلین اَپ
کے سوا چارہ نہیں،لہٰذا دہشت گردی، تخریب کاری اور ٹارگٹ کلنگ کے ڈسے عوام
کو سیاستدانوں، حکمرانوں اور مقتدر طبقات کے محض اعلانات اور خالی خولی
بیانات سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا بلکہ صرف اور صرف عملی اقدامات ہی ان کے
زخموں کا مرہم،درد کا درماں اور دکھوں کا مداوا بن سکتے ہیں،لہٰذا حقائق کے
تناظر میں کراچی کے شہریوں کو اعلانات اور بیانات کی طفل تسلی نہیں بلکہ
مو_¿ثر ترین عملی اقدامات کی ضرورت ہے،واضح رہے کہ کراچی کے موجودہ حالات
پر ہر محب وطن شہری مضطرب ہے اور وہ اصلاح احوال چاہتا ہے،کراچی شہر کی
سیاست کے سٹیک ہولڈرز اور اجارہ داروں کو بھی اس بات پر غور کرنا چاہیے
کہ1981ءتک امن وسکون کا گہوارہ تصور کیا جانے والا شہر بتدریج مافیاز اور
ٹارگٹ کلرز کی تربیت اور پناہ گاہ کیسے بنا؟اسے نسلی اور مذہبی منافرتوں کی
پرورش گاہ کن دیدہ و نادیدہ عناصر نے بنایاہے؟۔
یہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ شہر قائد اب بھی وطن دشمن اور امن دشمن
عناصر کی جولانگاہ بنا ہوا ہے ،اِن عناصر کا صفایا کرنا ریاستی مشینری کا
اولین فرض ہے، جب تک کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، تخریب کاری، قبضہ
گردی اور منشیات فروشی میں ملوث مافیا اور انتہاپسند لسانی اور فرقہ وارانہ
تنظیموں کے مسلح دستوں کے خلاف یکسو ہو کر بلاامتیاز اور بلا توقف آپریشن
نہیں کیا جاتااور شہر قائد ایسے مافیاز کے نرغے سے آزاد نہیں کرایا
جاتا،اِس قسم کے دلدوز سانحات وقوع پذیر ہو کر مقتدر طبقات اور ریاست کی رٹ
کو چیلنج کرتے رہیں گے،لہٰذا آرمی چیف کی ہدایات کے مطابق کراچی ٹارگٹڈ
آپریشن کو بلاامتیاز و بلاتفریق آگے بڑھایا جائے تاکہ شہرِ قائد کی رونقیں
بحال ہوسکیں۔ |