این ایف سی ایوارڈ: صوبے کے وزیر کہاں گئے، باہر کے لوگ کیوں آگئے؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پاکستان کے صدر نے آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت نیا نیشنل فنانس کمیشن (NFC) تشکیل دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ آئینی تقاضا ہے، سو کر دیا گیا۔ کاغذی طور پر سب کچھ بالکل درست ہے، جیسے امتحان میں بچہ سوال ہی نہ سمجھے مگر خوبصورت ہینڈ رائٹنگ میں پیپر بھر دے۔
این ایف سی کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اور چاروں صوبوں کے وزرائے خزانہ لازمی ارکان ہیں۔ اس کے علاوہ صدر حضرات گورنرز سے مشورہ کر کے ماہرین بھی نامزد کر سکتے ہیں۔ اب یہ بات سننے میں بڑی اچھی لگتی ہے۔ لیکن جب خیبر پختونخوا کی باری آئی تو ہمارے صوبے کے وزیر خزانہ کہیں گم ہو گئے، اور ان کی جگہ "فنانس ایڈوائزر" مزمل اسلم صاحب اور ڈاکٹر مشرف رسول صاحب کو نامزد کر دیا گیا۔
اب عوام حیران ہیں کہ ایک صاحب کا تعلق کراچی سے ہے اور دوسرے کا پنجاب سے۔ کوئی پشاور کے نمک منڈی میں بیٹھا شہری کہہ رہا تھا: "بھائی! اگر باہر کے ہی لانے تھے تو کم از کم ایک کو ہمارے صوبے کے قہوہ خانے میں بٹھا کر چائے پلاتے، تاکہ ہمیں لگتا تو کہ ہمارا نمائندہ ہے!"
مزمل اسلم اور ڈاکٹر مشرف رسول دونوں قابل شخصیات ہیں، اس پر کوئی شک نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب آئین میں صاف لکھا ہے کہ صوبائی وزیر خزانہ کو رکن ہونا چاہیے، تو پھر یہ "ایڈوائزر والا شارٹ کٹ" کیوں اپنایا گیا؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے شادی میں دلہا کی جگہ کزن کو کرسی پر بٹھا دیں اور کہیں "چلو، خاندان سے ہی ہے!"
ڈاکٹر مشرف رسول کی صلاحیتوں پر کسی کو اعتراض نہیں۔ لیکن معاملہ ان کی قابلیت کا نہیں، بلکہ صوبے کے اندر موجود قابل اور اہل افراد کو نظرانداز کرنے کا ہے۔ آخر ہمارے صوبے میں کیا کمی ہے؟ کیا خیبر پختونخوا کے لوگ صرف چپل کباب بنانے اور چائے خانہ چلانے کے لیے رہ گئے ہیں؟
یہ صوبہ ایسے افراد پیدا کر چکا ہے جنہوں نے سول سروسز کے امتحانات میں اعلیٰ پوزیشنیں حاصل کیں۔ شکیل درانی، امجد علی خان، سید ظفر علی شاہ جیسے لوگ مثال ہیں۔ صاحبزادہ ریاض نور تو انگریزی شاعری کرتے کرتے صوبائی سیکرٹری خزانہ اور چیف سیکرٹری بھی بن گئے۔ حمایت اللہ خان مالی امور کے ماہر ہیں اور وزیر خزانہ و مشیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ یعنی آپ جس طرف بھی انگلی کریں، ایک سے بڑھ کر ایک اہل بندہ نکل آتا ہے۔
لیکن پھر بھی باہر سے لوگوں کو لا کر نمائندہ بنا دیا گیا۔ اب عوام پوچھتے ہیں: "کیا یہ کوئی کرکٹ ٹیم ہے جس میں Guest Players لائے جا رہے ہیں؟ یا یہ کوئی ریئلٹی شو ہے جس میں ووٹوں کی جگہ سفارش پر کاسٹنگ ہو رہی ہے؟"
چوک یادگار پر بیٹھے ایک بزرگ نے کہا: "بیٹا! ہمارے صوبے کی بدقسمتی یہی ہے، ہمیشہ اصل بندے کو بیک اپ پر ڈال کر باہر والوں کو مین پلیئر بنایا جاتا ہے۔"
ایک رکشہ ڈرائیور نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا: "این ایف سی کا مطلب ہے: No Finance from Charsadda!"
اب سوال یہ نہیں کہ مزمل اسلم اور ڈاکٹر مشرف رسول اہل ہیں یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ صوبے کی نمائندگی آخر صوبے کے اپنے لوگوں کو کیوں نہیں دی گئی؟ کیا اعتماد کی یہ کمی ہے یا پھر فیصلہ ساز سمجھتے ہیں کہ "صوبہ خیبر پختونخوا میں بندے کم اور مسائل زیادہ ہیں"؟
ہمارے عوام کو اصل فکر یہ ہے کہ اگر ہر بڑے فیصلے پر باہر کے لوگ بٹھائے جائیں گے تو صوبے کے اپنے اہل افراد کہاں جائیں گے؟ کل کو شاید تعلیمی بورڈ میں بھی پرچے چیک کرنے لاہور اور کراچی سے پروفیسر آئیں گے، اور ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی جگہ ٹی وی والے ایکٹر بیٹھے ہوں گے۔
یہ سوال کسی تھنک ٹینک نے نہیں اٹھایا، یہ سوال ایک عام شہری کا ہے جو بجلی کے بل میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ دیکھ کر چیخ پڑتا ہے۔ وہ پوچھ رہا ہے: "ہمارے صوبے میں کیا سب اہل لوگ کھیروں اور ٹماٹروں کی قیمتیں لگانے کے لیے رہ گئے ہیں؟ این ایف سی جیسا اہم ادارہ اگر باہر کے لوگوں کے حوالے کرنا تھا تو آئین میں یہ شرط ہی کیوں رکھی گئی کہ صوبائی وزیر خزانہ رکن ہوگا؟"
فی الحال جواب ندارد۔ لیکن ایک بات طے ہے: عوام نے یہ سوال اپنے قہوہ خانوں، ٹرانسپورٹ اڈوں اور چوکوں میں اٹھا دیا ہے۔ اب حکمرانوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ آئین کے مطابق صوبے کی آواز سنیں گے یا پھر باہر کے ماہرین کو ہمارے مستقبل پر بٹھاتے رہیں گے۔
#NFC #Constitution #KPRepresentation #Accountability #FinanceCommission #PakPolitics #PublicVoice #KhyberPakhtunkhwa #CitizensQuestions #Kikxnow |