سوئس بنکوں کے خفیہ اکاﺅنٹس

سوئس بینک دنیا بھر کی عوام کی محنت کی کمائی اپنے خفیہ اکاﺅنٹس میں لئے بیٹھے ہیں۔ پاکستان بھی ان ملکوں میں سے ایک ہے۔ جس کے عوام کی خون پسینے کی کمائی، کرپشن، لوٹ مار، دھوکہ دہی، ٹیکس چوری کے ذریعے ان بینکوں کے خفیہ اکاؤنٹس میں پڑی ہے۔ جس کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ اگرچہ عدالت عالیہ نے ان خفیہ اکاﺅنٹس کے بارے میں نیب کو نئے سرے سے کاروائی کرنے کا حکم دیا ہے ۔جس سے اس بات کے امکانات پیدا ہوئے ہیں کہ ان خفیہ اکاؤنٹس سے رقم حکومت پاکستان کو منتقل کردی جائے گی۔ لیکن یہ بڑا پر پیچ راستہ ہے۔ جس کے لئے ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یہ معاملہ غریب ملکوں سے نکل کر امیر ملکوں کے لئے بھی اہم ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال فرانس کے وزیر خزانہ ایرک ورتھ نے انکشاف کیا تھا کہ سوئس بینکوں میں تین ہزار فرانسیسی شہریوں کے اکاﺅنٹس کا سراغ لگایا گیا ہے جن میں ٹیکس سے بچنے کیلئے چار ارب یورو کی رقم جمع کرائی گئی یہ تفصیل صرف تین بنکوں سے ملنے والی معلومات پر مشتمل ہے وزیر خزانہ نے بتایا کہ دو بینکوں نے بغیر فنانشل ایڈمنسٹریشن کو آگاہ کئے بناء کسی پریشانی کے ہمیں درست اور مکمل معلومات فراہم کر دی ہیں جبکہ تیسرے بنک سے خفیہ انفارمر کے ذریعے معلومات حاصل کی گئی۔

سال ۹۰۰۲ میں 20 ممالک نے لندن میں ایک کانفرینس میں اس مسئلہ کو اٹھایا گیا تھا۔ اجلاس میں فرانس اور جرمنی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ جب تک دنیا میں مالیاتی کرپٹ عناصر اور ٹیکس چوروں کی جنتیں ختم نہیں کی جاتیں۔ کرپشن، لوٹ مار، دھوکہ دہی، ٹیکس چوری اور اقتصادی بحران جیسے مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا، کیونکہ دنیا بھر کے بدعنوان حکمران سیاستدان، جرنیل، بیورو کریٹس، ڈرگ مافیا اور مراعات یافتہ طبقہ اپنے ملک سے سرکاری خزانہ لوٹ کر اور غریبوں کا لہو چوس کر جمع کیا جانے والا دھن ان جنتوں کی شریانوں میں اتار دیا جاتا ہے جہاں بینک سیکریسی کے نام پر اس کالے دھن کو تحفظ دیا جاتا ہے اور کسی ملک کو ان اکاﺅنٹس تک رسائی نہیں ہوئی۔ کوئی ملک اگر اس حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اسے ٹرخا دیا جاتا ہے جو دراصل مجرموں کو تحفظ اور جرائم کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ اس مطالبہ پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ عالمی بینکنگ سیکریسی ایکٹس کا خاتمہ کیا جائیگا اور بینکوں کو پابند کیا جائیگا کہ جو ملک اپنے کی شہری کے بارے میں معلومات طلب کرے اسے فراہم کی جائیں تاکہ کالا دھن اور کالے چہرے سامنے آسکیں۔ واضح رہے کہ فنانشل اینڈ ٹیکس ہیونز کی اصطلاح دراصل سوئٹزز لینڈ، لکسمبرگ، مناکو، ہالینڈ، سنگاپور، فلپائن، برونائی، چل، بلجیم، آسٹریا، گوئٹے مالا، پورا گوئے اور ملائیشیا وغیرہ کیلئے استعمال ہوتی ہے ان ممالک کے بینک دولت جمع کرانے والوں سے ذرائع آمدنی کی کوئی تفصیل نہیں پوچھتے۔ فرانس میں گزشتہ چند برسوں سے ٹیکس چوری کے لئے اپنی رقوم ان ہیونز میں جمع کرانے کے عمل کو فروغ ملا، بڑے بڑے اداکار گلوکار، پروڈیوسرز، سرمایہ دار، تاجر اور افسر و سیاستدان اپنا سرمایہ ایسی جنتوں میں منتقل کر رہے ہیں اکثر نے تو ٹیکس سے بچنے کیلئے فرانس کی شہریت چھوڑ کر سوئٹزز لینڈ اور ہالینڈ کی شہریت حاصل کر لی ہے اس عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد فرانسیسی حکومت نے یہ سرمایہ واپس لانے کیلئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔

سوئٹززلینڈ حکام کا کہنا ہے کہ فرانس کے ساتھ چند روز پہلے ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کی روشنی میں جنوری 2010ءسے ہم کھاتہ داروں بارے بینک سیکریسی ایکٹ کی روشنی میں معلومات کے تبادلے کے پابند ہوں گے جن تین ہزار کھاتہ داروں کا ذکر کیا جا رہا ہے ان کے بارے میں فرانس کی طرف سے سوئس حکومت کو سرکاری طور پر کوئی درخواست نہیں ملی اس لئے یہ معلومات سرکاری سطح پر فراہم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ فرانس نے ان 3 ہزار کھاتہ داروں کو اپنی رقوم 30 دسمبر تک وطن واپس لانے کی مہلت دی تھی ۔ اس مہلت کا مطلب دیگر افراد کو خوفزدہ کر کے اپنی رقوم واپس لانے کیلئے مجبور کرنا ہے۔پاکستان کے غریب عوام جو آج کل غربت اور منگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کا بھی ان امیر ملکوں سے یہی مطالبہ ہے کہ ان خفیہ اکاﺅنٹس کی تفصیلات کو عام کیا جائے۔ حکومت پاکستان کو مطلوبہ اطلاعات فراہم کی جائیں۔ اور اس دولت کو پاکستان لایا جائے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418959 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More