پاکستان میں سیاست دان جس غربت،
بدحالی، بے گھر اور بے دری میں اس ملک کے عوام کی خدمت کررہے ہیں۔ وہ نہ
صرف کار ثواب ہے۔ بلکہ اس کا اجر انہیں آخرت میں ملے گا۔ اس قدر محنت مشقت،
دردسری کے باوجود ان بے چارے سیاست دانوں پر، بدعنوانی، رشوت، لوٹ مار،
اقربا پروری، قرضے معاف کرانا، پلاٹ حاصل کرنا، سرکاری دورے، سرکاری خرچ پر
علاج کرانا، اور سرکاری خرچ پر حج اور عمرے کرنے، اور مال بنانے کے الزامات
لگتے رہتے ہیں۔ اور تو اور بے چارے ان سیاست دانوں کے انکم ٹیکس کی ادائیگی،
ان کے اثاثہ جات، اور ان کے مہنگے علاج، بیرون ملک دوروں، اور سرکاری خرچ
پر حج اور عمرے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ہمارے صدر
مملکت اور چیئرمین سینٹ کے غیرملکی دوروں پر خوب واویلا کیا گیا۔ حالانکہ،
یہ دورے ہمارے نمائندوں کا استحقاق ہیں۔ جس کے لئے اس ملک کے کروڑوں لوگ
انہیں منتخب کرتے ہیں۔ یہ عوام اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے منتخب نمائندوں کو ہر
طرح کا عیش و آرام بہم پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہمارے سٹی ناظم کے پاس تو سر
چھپانے کے لئے گھر بھی نہیں تھا۔ اللہ الطاف بھائی کو سلامت رکھے۔ انہوں نے
ہمارے مصطفیٰ کمال بھائی کے لئے ایک گھر تحفے میں دے دیا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم اپنے نمائندوں کے مستقبل کے لئے پریشان رہتے ہیں۔ وہ نہیں
چاہتے کہ یہ ارکان اسمبلی جو دن رات اس قوم کی بہتری اور خوشحال مستقبل کے
لئے کوشاں ہیں۔ ان کے لئے رہنے کو کوئی گھر نہ ہو۔ اس لئے ارکان اسمبلی کو
اسلام آباد میں ایک ہزار گز کے پلاٹ دئیے جانے کے لئے کوئی راستہ نکال رہے
ہیں۔ برا ہو اس عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا جو پاکستان کے بارے
میں الٹی سیدھی اڑاتا رہتا ہے۔ اس نے ہمارے صدر کے بارے میں یہ ہوائی چھوڑی
تھی کہ صدر محترم ہر ماہ ۰۲ دن غیرملکی دوروں پر رہتے ہیں۔ جس کے بعد سے ان
کا ملک سے باہر جانا بھی چھوٹ گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں عوام کے منتخب
نمائندوں کے جمع کروائے گئے اثاثوں کو بھی بھائی لوگ نکال کر اخبار کی زینت
بنا دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ معلومات تو الیکشن کمیشن کی فائیلوں کا پیٹ بھرنے
کے لئے دی جاتی ہیں۔ اب اگر فہرست میں وزیر داخلہ رحمان ملک کے گھرکی قیمت
پونے سات لاکھ روپے لکھ دی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ وہ یہ
مکان اتنے میں بیچ رہے ہیں۔ یا یہ کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ملتان
میں63 لاکھ روپے کا گھر خریدا ہے۔ کراچی میں تو اس رقم میں ۰۲۱ گز کا گھر
نہیں ملتا۔ گیلانی صاحب کے کسی مرید نے اس رقم میں گھر تحفے کے طور پر دیا
ہوگا۔
حکمراں جماعت کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر کے بینک اکاؤنٹ میں صرف2 لاکھ21
ہزار روپے ہیں۔ تو اس میں برائی کیا ہے ان کی پارٹی کے اکاﺅنٹ میں تو کثیر
رقم ہے۔ چیئرمین سینیٹ فاروق نائیک13 کروڑ16 لاکھ روپے کی جائیداد کے مالک
ہیں جبکہ ان کی تجارتی سرمایہ کاری7 لاکھ76 ہزار روپے سے زائد ہے۔وفاقی
وزیر خزانہ شوکت ترین54 کروڑ55 لاکھ روپے کی اندروں اور بیرون ملک جائیداد
کے مالک ہیں، ان کے پاس2 کروڑ18 لاکھ روپے مالیت سے زائد کی چار گاڑیاں بھی
ہیں۔ مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اسلام آباد اور لاہور میں
گھروں کے آدھے حصے دار ہیں، جن کی مالیت87 لاکھ روپے ہے۔ سینیٹر جہانگیر
بدر کے لاہور میں گھر کی قیمت26لاکھ روپے ظاہرکی گئی ہے۔ شوکت ترین کا بینک
بیلنس ایک کروڑ76 لاکھ روپے ہے اور انہوں نے مختلف اداروں میں3 ارب6 کروڑ
روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ جے یو آئی کے مولانا گل نصیب کا شمار غریب
ترین ارکان میں ہوتا ہے جن کے پاس آٹھ مرلے کا گھر اور صرف60 گرام سونے کے
زیورات ہیں۔ یہ فہرست نئی تو نہیں ہے۔ پچھلی حکومت میں جانے والے وزراء اور
ممبران اسمبلی بھی بیچارے اتنے ہی غریب تھے۔سابق ممبران قومی اسمبلی، سابق
وفاقی وزراء فیصل صالح حیات، اویس لغاری، وصی ظفر اور نصیر خان جبکہ وزرائے
مملکت مخدوم خسرو بختیار، حنا ربانی کھر اور حامد یار ہراج کے پاس اپنا گھر
نہیں تھا۔ سابق قانون وصی ظفر نے الیکشن کمشن کو بتایا تھا کہ وہ اپنا گھر
اپنے بیٹوں کو تحفہ میں دے چکے ہیں۔ ان اثاثوں کے مطابق چوہدری شجاعت حسین
کے پاس اپنی گاڑی بھی نہیں تھی۔ دو سابق وزرائے اعظم چوہدری شجاعت حسین اور
ظفراللہ جمالی کے پاس کوئی گاڑی نہیں ہے۔ ان کے علاوہ وفاقی وزیر دفاع راؤ
سکندر اقبال ،وفاقی وزیر تجارت ہمایوں اختر خان جن کی ملوں اور پیپسی کے
کارخانوں کی دھوم تو سب نے سنی ہے مگر ان کے پاس بھی کوئی گاڑی نہیں ہے۔
وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ، مخدوم فیصل صالح حیات، وفاقی وزیر صحت نصیر خان،
وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق اور رضا حیات ہراج نے بھی حلفاً کہا ہے
کہ ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں ہے۔ اتنے غریب ارکان اسمبلی کی مدد کے لئے اگر
وزیر اعظم پلاٹ دیں، یا کوئی کمیشن دے تو کوئی بری بات نہیں ہے، دنیا والے
تو یونہی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں |