اگر کوئی مسلمان شخص کسی غیر الہیٰ نظام حکومت میں کوئی
کلیدی منصب رکھتا ہو یا اس کے نظام عدالت میں فصل مقدمات کے عہدے پر مامور
ہو یا اس کے قوانین کے اجراء میں مددگار ہونے کی شکل میں کیا وہ اپنے اس
ذریعہ معاش سے علیحدہ ہو جائے گا ؟یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات آزادی
ہند کے بعد ہندوستان میں علماء کرام سے کئے جاتے ہیں یا پھر علماء کرام کی
رائے بھی یہی ہوتی ہے کہ ہاں ان سارے پیچیدہ مسائل سے الگ ہو جانے میں ہی
دین اسلام اور مسلمان کیلئے بہتر ہے ۔دلیل کے طور پر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ
چونکہ پارلیمنٹ تک پہنچنے کے لیے پہلے ہی قدم پر جب امیدوار الیکشنی سیاست
کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے تو اُسے اعلان کرنا پڑتا ہے کہ ’’میں سوشلزم
سیکولرزم اور ڈیموکریسی پر یقین رکھتا ہوں اور ان کا وفادار رہوں گا ۔اس کے
بغیر نہ کوئی فرد انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے اور نہ کوئی سیاسی جماعت ۔اور
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کوئی پارٹی یا کوئی امیدوار الیکشنی سرگرمیوں میں
توحید ،رسالت ،آخرت اور دین و شریعت کا نام تک نہیں لے سکتا ۔دین و ملت کے
مفاد کے نام پر کوئی آواز بلند نہیں کر سکتا چونکہ الیکشن کے میدان میں اس
کی اصل حیثیت سیکولرزم کے داعی اور علمبردار کی ہوتی ہے ۔اس لئے اس سیاست
میں شرعی حدود کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں ہے ۔
جبکہ اسلام کا معاملہ یہ ہے کہ قرآن تمام معاملات میں انسان کی رہنمائی
کرتا ہے چاہے وہ دارالکفر میں ہوں یا پھر دارالامن میں ہوں یا پھر
دارالاسلام میں ہوں ۔حالت کفر میں ہوں یا پھر حالت ایمان میں،دنیا کے کسی
بھی حکومت میں ہوں یا کسی بھی جگہ ہوں ہر حالت میں اﷲ تبارک تعالی انسان کی
رہنمائی کرتا ہے ۔جبکہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ہی دو قومی نظریہ نے نہ
صرف سر اٹھایا بلکہ اسی مذہبی بنیاد پر ہندوستان آزاد بھی ہوا۔اس کے بعد
فساد کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہوا وہ بھی مذہب کی بنیاد پر گویاعملی
طور پر جمہوریت اور مذہب کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔
مجھے حیرت ہے کہ ہندوستان کے آزاد ہوئے تقریباً68سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی
تک ہندی مسلمان اسی بحث میں مبتلا ہیں کہ ووٹ دینا الیکشن لڑناجائز ہے یا
ناجائز ۔ جبکہ ایک طرف ہم قرآن الکریم کو رہتی دنیا تک رہنمائی کا ذریعہ
مانتے ہیں اور وہ بھی ایسی رہنمائی جو کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کے
باوجود ہندوستان میں ہماری رہنمائی کیوں نہیں ہو پارہی ہے ۔کہیں ایسا تو
نہیں ہے کہ ہم رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہی نہیں ہیں ۔جبکہ اﷲ کے رسول ؐ نے
وہ سب کچھ کر کے دکھا دیا ہے جو آج ہمارے ساتھ پیش آرہا ہے ۔اﷲ کے رسول ؐ
نے تو کفار حکومت سے بھی مصالحت کی اور ایسی مصالحت کہ خود صحابہ کرام کو
بے چین کر رہا تھا صلح حدیبہ سے لیکر نہ جانے کتنے صلحے اور معاہدے اﷲ کے
رسول اﷲ ؐ نے کر کے دکھادئے جو بظاہر مسلمانوں کے حق میں محسوس نہیں ہورہے
تھے لیکن اس کے نتائج بہت مثبت اور اسلام کے حق میں نکلے ۔
تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ ہندوستان کی جمہوریت میں نعوذ باﷲ اسلام اور قرآن
ہماری رہنمائی نہیں کر سکتا ؟یہ تو کفر ہو جائے گا اگر ہم یہ سمجھ لیں تو
آخر کیا کریں ؟
جبکہ عملی طور پر ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ
حکومت وقت کا کوئی بھی کام ایسا نہیں ہے جس میں مذہب کا عمل دخل نہ
ہوبرادران وطن نے تونہ صرف خوب خوب فائدہ اٹھایا بلکہ ان کی سیاست کا
دارومدار بھی مذہب ہی ہے ۔کوئی دلت اور مسلمانوں کو ساتھ ساتھ لیکر چلا تو
کوئی برہمن اور اونچی ذات اور بڑی مذہبی جماعت کے ساتھ چلا اور اسی پر ان
کی کامیابی اور ناکامی کا بھار ہے ۔اب ذرا حکومتی کا م کاج کو ہی دیکھ لیں
چاہے وہ معاملہ وزارت اقلیت سے ہو وہاں بھی ہندو مسلم ،سکھ عیسائی مذہب کا
نام درج ہے ۔چاہے ہندوستان کے سب سے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو
ہوں جنہوں نے ریزرویشن میں ہندو مسلمان کی قید لگائی کہ اگر کوئی دلت ہندو
ہے تو اسے ریزرویشن ملے گا اور اگر کوئی دلت یا چھوٹی ذات کا مسلمان ہے تو
اسے ریزرویشن نہیں ملے گا ۔
سب سے پہلے ملک میں جو الیکشن ہوا اور منتخب ہو کر ممبران پارلیمنٹ پہنچے
تو سبھی نے ایشور ،خدا اور اﷲ کے نام پر حلف لیا ۔یعنی ان کی پہلی سیڑھی ہی
مذہب قرار پائی ۔اور اگر ہم عدالتوں میں جائیں تو سب سے پہلے ہمارے مذہب کے
مطابق ہمیں قرآن ،گیتا یا بائبل پیش کی جاتی ہے کہ اس پر ہاتھ رکھ کر ہم
قسم کھائیں کہ جو کچھ کہیں گے سچ کہیں گے ۔ اس کے علاوہ حکومتی منصوبہ بندی
اور تعمیراتی کام کا ج کا افتتاح ہوتا ہے تو مذہب کی بنیاد پر ہی ناریل
پھوڑ کر ہون کی جاتی ہے اور یہ کوئی آج سے شروع نہیں ہے بلکہ آزادی کے بعد
سے ہی ا س پر تمام بھارتی پارٹیاں سختی سے عمل کر رہی ہیں ۔چاہے وہ کانگریس
یا پھر بی جے پی یا کوئی اور جماعت سبھی کے کام کرنے کا طریقہ مذہب کی
بنیاد پر ہی ہے ۔
رہی بات جمہوریت کے سب سے بڑے ایوان پارلیمنٹ میں مذہب کا عمل دخل تو اُسی
کے اندر مذہبی نعرے بلند ہوتے ہیں اور دیگر مذاہب کیلئے آوازیں اٹھائیں
جاتی ہیں ۔گویا ہم جتنا بھی لا دینی حکومت ہونے کا ڈھنڈورا پیٹیں یہ محض
خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
رہی بات ہندوستان میں مسلمانوں کے ووٹ دینے کا حق تو یہ میں وثوق کے ساتھ
کہوں گا کوئی ایسا مسلم ملک ہیں جہاں مسلمانوں کو ووٹ دینے یا پھر اپنی بات
رکھنے کا حق حاصل ہو ،آج کی تاریخ میں مکہ مدینہ میں بھی مسلمانوں کو وہ
حقوق حاصل نہیں ہیں جو ملک ہندوستان میں ہے ۔مسلم ملکوں میں تو ان کی شہریت
ہی ختم کر دی گئی ہے قویت نے تو اپنے شہریوں کو بھکاری سے بھی بد تر زندگی
گزارنے پر مجبور کیا اور کہا کہ ہم جو تمہیں دے رہے ہیں یہ میرا تم پر
احسان ہے ۔یہی الفاظ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں کا اپنے شہریوں کیلئے
ہے کوئی شخص اتنا حق نہیں رکھتا کے حکومت کے طریقہ کار یا پھر حکمراں پر
تنقید کر سکے ۔
آج کے حالات میں مسلمانوں کو ملک عزیز ہندوستان کی آزادی سے بھر پور فائدہ
اٹھانے کی ضرورت ہے ہم اپنی بات پارلیمنٹ میں رکھ سکتے ہیں جو دنیا کے کسی
بھی مسلم ملک میں کسی شہری کو حاصل نہیں ہے ۔شورائیت کو بادشاہت کا چولہ
پہنانے والے آخر یہ کیوں نہیں بتاتے کہ شورائیت کے انتخاب کا طریقہ کار کیا
ہوگا ۔آخر جمہوریت کا راستہ غیر اسلامی کیسے ہو سکتا ہے جبکہ جمہوریت میں
ہمیں اﷲ اور رسول ؐ کے مطابق بھی قانون بنانے کا حق حاصل ہے اگر ہم اکثریت
میں ہیں ۔شورائیت کی آڑ میں ڈکٹیٹر اور بادشاہت کیلئے جواز فراہم کرنیوالوں
سے میرا ایک چیلنج ہے کہ شورائیت کا طریقہ کار کیا ہوگا ؟کیا جمہوریت اور
ووٹ کا طریقہ غلط ہے تو پھر بات وہیں پر آجاتی ہے کہ خاندانی اور شریف زادے
اور موروثیت کو اس کے ذریعے بڑھاوا ملے گا اس کے سوا کچھ نہیں ۔میرا کہنے
کا صرف ایک مطلب ہے کہ جمہوریت کی قدر ومنزلت کو پہچانے بغیر مسلمان دنیا
میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا ہے اسی کے ذریعہ شریعت بھی نافذ ہوگی اور
اسی کے ذریعے اسلامی قانون کو نافذ کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ او ر کوئی
راستہ نہیں ہے ۔ہاں اگر بادشاہت اور ڈکٹیٹرشپ پر قناعت کرنے کو تیار ہیں تو
یہ بھی باطل حکومتیں ہیں آخر آپ جائیں گے تو کہاں جائیں گے ۔ |