میرا یہ آرٹیکل پڑھتے ہی قارئین کی زبان پر پہلا جملہ
ہوگا "لفافہ مل گیا اس کو"۔ کسی کو کیا معلوم کہ ملک ریاض کو میں نے آج تک
محض ٹی وی پر دیکھا ہے اور سالہا سال کے نشیب و فراز کے نقوش جو میرے ذہن
پر منعکس ہوئے ہیں ان میں بچپن کے مشاہدے، جوانی کی بھرپور شرکت اور اب
بڑھاپے میں میڈیا و انٹرنیٹ سے اخذ شدہ نقوش کی بنیاد پر کامل یقین کے ساتھ
کہہ سکتا ہوں کہ میرے ملک پاکستان کے مرض کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے ۸ /
فروری ۱۹۵۴ کو راولپنڈی میں پیدا ہونے والا انسان دوست پاکستانی جائیداد
کی خرید و فروخت کرنے والا کاروبار کا بے تاج بادشاہ ملک ریاض حسین، بحریہ
ٹاؤن کا بانی و مالک، جس نے ۱۹ سال کی عمر میں ایک کلرک کی حیثیت سے اپنی
زندگی کا آغاز کیا اور آج پاکستان کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہے۔ ملک
ریاض کی کامیابی کے بارے میں بے شمار قیاس آرائیاں، شکوک و شبہات اور
مباحثے ہو تے رہے اور ہوتے رہیں گے۔ لیکن یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ
بِلا تفریق انسانیت کی خدمت میں مصروفیت بھی ملک ریاض کی زندگی کا ایک اہم
جزو ہے۔
پاکستان کی بھی عجیب تاریخ ہے۔ عوام کی خدمت و فلاح و بہبود کا دعوے کرنے
والے تمام آئینی ادارے اقتدار میں آنے کے نت نئے طریقے اختیار کرکے طاقت کے
حصول کے کچھ عرصے بعد ہی آبادی کو کم کرنے اور زندہ بچ جانے والے عوام کا
خون چوس چوس کر اپنا تمام سرمایہ مع اپنی نسلوں کے بیرونی ممالک منتقل کر
دیتے ہیں ان میں ہر طبقہ و ادارہ کے لوگ شامل ہیں۔ یوں تو ملک ریاض مزاجاً
جھگڑالو نہیں اور نہ ہی آج تک کسی کے ساتھ اختلافات کو زیادہ ہوا دی گو کہ
مختلف شخصیات نے ان کو ملک کے گندے نظام میں بہت گھسیٹنے کی کوشش کی لیکن
اگر وہ کسی کے جال میں پھنس جاتے تو آج ان کا کاروبار موجودہ مقام پر نہ
ہوتا، اپنے اس مزاج ہی کی وجہ سے انھوں نے ملک کی سب سے بڑی طاقت کو ساتھ
ملا کر ملک کو ترقی کی طرف گامزن کیا کیونکہ یہی وہ طاقت ہے جو تمام تر
خامیوں کے باوجود ملک کی سرحدوں کی حفاطت کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے اور بہ
حیثیت ادارہ بھی سب سے زیادہ منظم ہے جبکہ کسی اور ادارہ میں نہ تو صلاحیت
ہے اور نہ ہی اس کی نیت۔
لہٰذا رابن ہُڈ کے تاریخی کردار کی مانند ملک کی سب سے بڑی طاقت کو مزید
معاونت کرکے ملک ریاض حسین کو پورے ملک کی قیادت پر فائز کردینا چاہئے جبکہ
ملک کے مختلف علاقوں میں انھوں نے پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کے بے
شمار جزیرے تو نہا ہت خوش اسلوبی سے قائم کر ہی لئے ہیں اور لاکھوں کروڑوں
لوگ ان کے کارناموں سے مستفید ہو رہے ہیں۔ یہاں یہ وضا حت ضروری سمجھتا ہوں
کہ میں نے آج تک بحریہ ٹاؤن یا ملک ریاض کے کسی بھی منصوبے کا فارم تک نہیں
دیکھا اور نہ ہی ان کے لنگر سے کھانا کھایا۔ مزید ان کے کاروبار سے منسلک
کسی بھی شخص سے براہِ راست یا بالواسطہ ملاقات بھی کبھی نہ ہوئی اور نہ ہی
ضرورت محسوس ہوئی۔ ایک مقولہ یاد آ گیا " کُتًے بھونکتے رہتے ہیں اور قافلہ
رواں دواں رہتا ہے" کے مصداق ملک ریاض نے جو سوچا وہ کر دکھایا بِنا کسی
جلسے، جلوس و دھرنے کے۔
|