آزاد سوار

چین کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے ، ماضی میں ہم یہ دیکھتے آئے ہیں کہ چین نے کسی بھی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے اجتناب برتا ہے۔ مگر" درمیانی بادشاہت" (Middle kingdom) کے طور پر چین نے "داعش" کی دہشت گردی کے خلاف جہاں مالیاتی مدد فراہم کی تو دوسری جانب عسکری قوت بھی مہیا کی۔چین کی خارجہ پالیسی میں طاقت کے مظاہرے سے بڑھ کر نئے راوج کو با آسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔امریکہ جب اقتصادی طاقت کے ساتھ عسکری قوت میں دنیا میں اپنی قوت کو منوانے کی کوشش میں جُتا تو اس کی ترجیحات میں بھی تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی ، اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکہ خام تیل کا ایک بہت بڑا درآمدی تھا جبکہ چین خود کفیل تھا لیکن2014ء میں چین کو یومیہ اوسط پر تقریباََ ۶ء۲ ملین بیرل تیل درآمدکرنا پڑا جبکہ امریکی درآمد ۷ء۴ بیرل رہی دسمبر میں پہلی مرتبہ چین نے سب سے زیادہ ۷ ملین بیرل تیل درآمد کیا جبکہ امریکی خام پیداواربڑھتے بڑھتے ۹ ملین بیرل یومیہ تک جا پہنچی جو اب تک سب سے زیادہ ہے۔کہا جا تا ہے کہ امریکہ کو اپنی معاشی ترقی کے ساتھ خام تیل کی ضروریات نے ہمیشہ پریشانی کا شکار رکھا ۔وہیں اب چین جہاں اپنی ضرویات کا ساٹھ فیصد تیل درآمد کرتا ہے تو ایسے اس بات کا اندازہ ہے کہ تیل کی مسلسل ترسیل کا مطلب ، ترقی کا تسلسل ہے اور اس کیلئے مشرق ِ وسطی سے تعلقات بہتررکھنا ناگزیر ہے۔2013ء میں چین نے افریقا میں قیام امن کیلئے مالی میں 170فوجی بھیجے ، کیونکہ وہ اپنی سرمایہ کاری تعمیرات اور زرعی شعبوں کے تحفظ کو یقینی بنا سکے ، فوجی کا بھیجنے کا بنیادی مقصد تیل کی دولت سے مالال مال الجیریا اور لیبیا میں ہنگامے پھیلنے سے روکنا تھا۔چین نے چھ سو سال میں پہلی مرتبہ سمندر پار بحری مشن بھجتے ہوئے صومالیہ کے ساحلوں اور خلیج ِ عدن کے ساتھ طویل مدتی انسدادِ قزاقی گشت شروع کیا اور اپنی بحری کمزوریوں پر قابو پانے کیلئے سابق چینی صدر ہُو جن تاؤ نے بحریہ کو ترقی دینے کا عمل شروع کیا جو موجودہ صدر شی جِن پنگ کی صدارت میں جاری رہا ، جس میں چین نے پہلے طیارہ بردار بحری بیڑے کا افتتاح ، پہلے بحری جہاز شکن بیلسٹک میزائل کو متعارف کرانا اور جنگی بحری جنازوں ، فریگبٹس اور لڑاکا آبدوزوں کی تعداد میں تین گنا اضافہکیا۔تیل کی ضروریات کسی بھی ترقی کرنے ملک کیلئے ایک اہمیت کا حامل ہوتی ہیں ، اسی وجہ سے چین کا رخ مشرق وسطی کی جانب نظر آیا اور نومبر 2004ء میں چین نے امریکہ کو عراقی پناہ گزینوں کی امداد کیلئے تقریباََ دس ملین ڈالر کی پیش کش کی لیکن سب سے زیادہ حیرانی اُس وقت ہوئی جب عراقی فوج کو داعش کے خلاف کاروائی کیلئے فضائی حملوں کی شکل میں پیش کش کی۔دوسری جانب مشرق وسطی میں چین کا نیا نمائندہ فلسطین ، اسرائیل امن مذاکرات کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے ہیں جس کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ چین سب سے زیادہ تصفیہ طلب معاملات میں اپنی مکمل مداخلت کی تیاری کررہا ہے۔

صدر اوباما، چین کو "آزاد سوار" قرار دیتے ہیں کہ چین اپنا بین الاقوامی وزن کو ظاہر نہیں کررہا۔چین بحیرہ جنوبی چین میں متعدد بار امریکی طیارہ بردار جہازوں کو چیلنج کرچکا ہے۔ امریکہ کو یہ خطرہ یقینی محسوس ہورہا ہے کہ چین کا یہ رویہ اگر مشرق وسطی جا پہنچا تو خطے کے حالات کی تبدیلی و آزادی میں چین ایک نئے بلاک کو قائم کرسکتا ہے۔حالاں کہ چین کی اپنی تمام تر معاشی ترقی کے باوجود امریکہ کی طرح مشرق وسطی میں اس کے کوئی فضائی اور بحرے اڈے موجود نہیں ہیں اور امریکہ کی طرح جنگی صلاحیت سے چین ابھی کافی دور ہے لیکن چین معاشی اثر رسوخ ، امداد اور سرمایہ کاری کیلئے ہر بندش سے آزاد طرز عمل کو اپناتے ہوئے تیزی سے متحرک ہوتا سفارتی دستہ ضرور بنا رہا ہے جو امریکہ کیلئے پریشانی کا موجب بن رہا ہے۔

مثال کے طور چین کا ہمسایہ دشمن بھارت کو خطے کا چوہدری بننے سے روکنے کیلئے کولمبو شہر کی بندرگاہ کے ساتھ ۴ء۱ ؍ ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا جانے والا منصوبہ ہے سری لنکا جیسے چھوٹے جزیرے پر مشتمل ملک کیلئے یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔ چین کی سرکاری چائنا کیمونی کیشن کنسٹرکشن کمپنی نے سری لنکا کی بندرگاہوں کی وزرات سے بولی کی صورت میں یہ منصوبہ حاصل کیا جس کا قلم دان اُس وقت کے صدر اراجاپا کسے کے پاس تھا۔جس طرح پاکستان میں اقتصادی راہدری اور پاک ، چین معاہدات کو بین الاقوامی سازش کے تحت سبو تاژ کرنے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہی ہے اسی طرح سری لنکا میں بھی اس منصوبے کو متنازعہ بنا دیا گیا ، بھارت اس منصوبے سے گوادار پورٹ کے فعال ہونے کی طرح خوش نہیں ہے ۔ بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان میں گوادر پورٹ فعال ہوجائے کیونکہ اس سے ، بھارت کے مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا ، بھارت نے تو برہم ہوتے ہوئے با قاعدہ چین کے سفیر کو طلب کرکے اقتصادی راہداری ،منصوبے پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا اور دہمکی دی، اسی طرح بھارت نہیں چاہتا کہ چین کولمبو کے قریب زمین پر قبضہ جمائے کیونکہ وہ بھارتی سامانِ تجارت کی گزرگاہ بھی ہے، بھارتی اثر رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ۲۸ برس کے دوران پہلے دوطرفہ دورے پر سری لنکا پہنچے تو بندرگاہ پر کام کو معطل کردیا گیا۔بھارت نے گزشتہ سال بندرگاہ کے چینی تجارتی حصہ پر چین کی عسکری آبدوز کی موجودگی پر بھی اعتراض کیا تھا۔سری لنکا چین کو نظر انداز بھی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ منصوبہ سرلنکا کی ترقی کیلئے بہت معنی رکھتا ہے اور دوئم تامل باغیوں کے خلاف لڑائی میں چین کی مدد کو بھی فراموش نہیں کرسکتا جب اس وقت سری لنکا کو اسلحہ کی فراونی میں حصہ ڈالا جب دیگر ممالک جھجک رہے تھے۔کلکتہ میں شائع معروف اخبار "آنند بازار پتریکا"میں بنگلہ دیش کے حوالے سے ایک طویل مضمنون شائع ہوا ہے جس میں بنگلہ دیش کے باشندوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ بھارت میں ضم ہونے کیلئے آواز اٹھائیں ۔ بد نام زمانہ مصنفہ تسلمہ نسرین کی ایک نظم کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ 1947ء میں میرے حلق میں ایک کانٹا چُبھا تھا ، میں اس کانٹے کو اگل دینا چاہتی ہوں تاکہ میرے اجداد کی منقسم زمین دوبارہ ایک ہوجائے۔" 28فروری 1992ء ڈھاکہ سمینار میں ’ سنیٹر فار ڈیویلپپنگ دی اسپرٹ آف بنگالی نیشنل ازم ‘ میں بھارت کی جماعت کے رہنما مایا رام سرجن کا کہنا تھا کہ"جب یورپ ایک ہوسکتا ہے تو ہم 1947ء سے پہلے کے بھارت کی طرف کیوں نہیں لوٹ سکتے"۔ یہی مذموم عزائم لیکر بھارت پاکستان میں بلوچستان کے معاملے میں جس طرح "را" ملوث ہے وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اسی طرح کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں "را" کی ایجنٹ دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ہمیں ذرائع ابلاغ سے شواہد ملتے رہتے ہیں ، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے بلیک واٹر کی سرگرمیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہیں ہیں ۔اب چین کی جانب سے پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کا مقصد جہاں عالمی طور پر ایک ایٹمی طاقت کے ساتھ دوستانہ رشتوں میں استحکام لانا ہے تو دوسری جانب چین کی جانب سے اپنی خارجہ پالیسی میں غیر مستحکم ممالک کی امداد کے ساتھ اپنے مفادات کو بھی مضبوط بنانا ہے۔یمن ، عراق ، شام سمیت افغانستان اور اب پاکستان میں آئی ایس آئی ایس ، اسلامک اسٹیٹ کے نام سے اپنے قدم مضبوط بنانے کیلئے متحرک ہے ، مستحکم ممالک میں اسلامک اسٹیٹ جیسی تنظیموں کو پنپنے کا موقع میسر نہیں آسکتا اس لئے افغانستان اور پاکستان شاخ کے قیام کے بعد بتدریج پاکستان میں دہشت گردی کا ایک نیا محاذ کھلتا جا رہا ہے۔اگر ہم غیر جانبدار ہو کر پاکستان کی ترقی میں بلوچستان کی خوشحالی اور گوادر پورٹ کی فعالیت میں دو پڑوسی ممالک کے نقصانات کا جائزہ لیں تو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے مخفی ہاتھ کا افشا ہونا کوئی مشکل نہیں رہ جاتا۔ "را" اچھی طرح جانتی ہے مسلمانوں میں اسلام تمام قومیتوں کے درمیان اتحاد کے بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے بھارت کی جانب سے پاکستان کیلئے خاص طور پر بنگلہ دیش کے قیام کی طرح "را" کو دوسرا بڑا ٹاسک دیئے کا واضح مقاصد بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہے ہیں۔پاکستان کی تمام قومیتوں کی ثقافتی شناخت پر بھارتی یلغار کامیاب ہوچکی ہے ۔اب معیشت پر وار کرنے کیلئے ان کے عزائم کھل کر سامنے آچکے ہیں۔پاک ، چین اقتصادی معاہدہ کوئی چھوٹا دو طرفہ معاہدہ نہیں ہے اگر اس پر صدق دلی سے بیرونی دباؤ سے آزاد ہوکر صرف پاکستان کی ترقی کیلئے یقینی عمل درآمد بنا لیا جائے تو چین تو مضبوط ہوگا ہی ، لیکن پاکستان بھی ترقی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔فرقہ وارنہ قتل و غارت گیری ، لسانیت ، صوبائیت اور عسکری قوت کی توجہ کو بھٹکانے کے مقاصد دراصل پاکستان اور، چین کو کمزور بنانیکی سازش ہے کیونکہ دونوں ممالک درمیانی بادشاہت کے کھلاڑی ہیں جو یقینی طور استعماری قوتوں کو قبول نہیں۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 661977 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.