کچھ ماہ قبل پا کستان میں امر یکن نیوز ایجنسی Gallup کے
ذریعہ سے ایک سروے یہ جا ننے کے لئے کیا گیا تھا کہ پا کستان کے لوگ وہاں
کے معا شرے میں مکمل طور سے اسلامی قوانین کا نفاذ چا ہتے ہیں یا نہیں۔سر
وے کی رپو رٹ کے مطا بق اکثر یت کی رائے یہ تھی کہ فو ری طور پر اسلامی
قوانین کا نفاذ ہو۔اور تقریبا ۲۰فیصد کی رائے یہ تھی کہ آہستہ آہستہ پا
کستا نی سماج میں ا سلامی قوا نین کو نا فذ کیا جا ئے۔بہر حال پا کستان کے
حوالے سے یہ بحث نئی نہیں ہے بلکہ اپنے وجود سے ہی پا کستان میں اس مسئلے
پر وقتا فو قتابحثیں اور کا نفر نسیں ہو تی رہی ہیں ۔اور یہ پا کستا نی تا
ریخ کا ایک ایسا طویل سلسلہ ہے جو نصف صدی گذ ر جا نے کے بعد بھی نہ صرف با
قی ہے۔ بلکہ وقت اور حالات اس کی بقا پر مزیدمہر ثبت کر دیتے ہیں۔لیکن اس
پس و پیش میں حقیقت یہ ہے کہ پا کستان کا وجو د اسلام کے نا م پرہوا ۔ پا
کستان کے لوگ اور حکمراں خواہ اس سے کتنا ہی انحراف کریں ۔لیکن ان کے لئے
آج نہیں تو کل پسند ید گی یا نا پسند ید گی سے یہ ضروری ہوگا ۔کہ وہ پا
کستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ کریں۔ اور ساتھ ساتھ اپنے تمام داخلی اور
خارجی معا ملات میں قرآن و سنت کو عملی طور پر اپنا ئیں اگر اایسا نہیں ہو
تا تو یہ اپنے ما ضی سے کھلی بغاوت ہو گی ۔ایک امریکی مصنف اس مذکورہ حقیقت
کا اعتراف کرتے ہوے لکھتا ہے۔
شاید پا کستا نی کسی وقت یہ خیال کریں کہ اسلامی معاشرے کی تعمیر کا کام ان
کے ابتدائی اندازہ سے کہیں زیادہ دشوار طلب ہے ۔ لیکن سو چا جا ئے تو اب ان
کے لئے کو ئی راہ مفر باقی نہیں ،ان کے وعدے اتنے بلند با نگ اور واضح تھے۔
کہ ان کی تکمیل سے گریز نا ممکن ہو گیا ہے ،ان کی تاریخ اب اسلام کی تا ریخ
ہو گی ان کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے ۔اب خواہ اسے پسند کریں
یا اس پر نادم ہوں۔ بہر حال وہ اسلامی ریا ست کے تصور کو نظر انداز نہیں کر
سکتے۔ اور نہ اسے زیادہ دیر سرد خانے ہی کی نظر کر سکتے ہیں ، کیو نکہ اس
وقت اسلامی ریا ست کے نظریے کو ختم کر نے کا فیصلہ محض طریق کار کی تبدیلی
کا ہی فیصلہ نہیں ہو گا ، یہ تو گویا اپنے دین اور وطن کی اساس پر کلہاڑا
چلانے کے مترادف ہو گا۔ اور تما م دنیا اس گریز سے یہی مطلب اخذ کریگی کہ
اسلامی ریا ست کا نظر یہ لا یعنی اور اسکا نعرہ محض فریب نظر تھا ، جو حیات
جدید کے تقا ضوں سے نپٹنے نے کی صلا حیت نہیں رکھتا۔ یا یہ کہ پا کستا نی
بحیثیت ایک قوم کے اسے اپنی قو می زندگی پر نا فذ کر نے میں نا کام رہے ہیں
،۔اس صورت میں دنیا کے نزدیک خود مسلما نوں کے معتقدات ایما نی ہی مشکو ک
اور قا بل تنقید ٹھہریں گے۔‘‘ ’’(اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش‘‘ )
امریکی مصنف نے اس اقتباس میں جس سچائی اور حقیقت بیا نی سے کام لیا۔اس سے
نہ تو انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی رائے سے اختلاف کی کو ئی صورت
با قی رہ جا تی ہے ۔ کیو نکہ پا کستان کی تشکیل جن دعوؤں سے شروع ہو ئی تھی
ان میں اولیت ’’اسلامی ریاست‘‘ کے قیا م کوحاصل تھی ۔خو د پا کستا ن کے
اولین سفیر ڈاکٹر علامہ اقبالؒ اور قا ئد اعظم ؒکی تقریریں اور تحریں اس
بات پر شاہد ہیں ۔کہ پا کستان کا وجود خالص اسلام کے نام پر ہوا ۔ڈاکٹرعلا
مہ اقبال ؒلکھتے ہیں ۔’’ جس مذہب کی آپ نمائندگی کر تے ہیں ۔وہ اپنے ہاں فر
د واحد کی اہمیت تسلیم کرتا ہے۔ اور اسکی تر بیت کرتا ہے تا کہ وہ اپنا سب
کچھ خدا اورانسان کی خد مت میں دے ڈالے۔ اس کے امکانات ابھی تک ختم نہیں
ہوے ہیں۔ وہ اب بھی ایک ایسی نئی دنیا پیدا کر سکتا ہے جہاں کا معا شرتی در
جہ اس کی ذات رنگ اور اسکے کما ئے ہوے مال و دولت کی مقدار سے معین نہ ہو۔
بلکہ اس زندگی کے مطا بق قا ئم کیا جا ئے جسے وہ بسر کرتا ہے۔ جہا ں غربا
ما لداروں پر ٹیکس لگا تے ہیں جہا ں انسانی سو سائٹی سروں کی مساوات پر
قائم نہ ہو۔ بلکہ روحوں کی مساوات پر قا ئم ہوجہاں ایک غریب ایک خلیفہ کی
بیٹی سے شادی کر سکتا ہو۔ جہا ں نجی ملکیت ایک ٹرسٹ کی شکل رکھتی ہو ۔ اور
جہا ں سر مایا جمع کرنے کی اس طرح اجا زت نہ دی جا ئے کہ وہ اصل دو لت پیدا
کر نے والے پر غلبہ حا صل کر لے۔ قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح نے کراچی کے
ایک اجلاس کو خطاب کرتے ہوے کہا تھا ’’ وہ کو نسا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے
سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ وہ کو نسی چٹان ہے۔ جس پر ان کی ملت
کی عمارت استوار ہے،وہ کو نسا لنگر ہے جس میں اس امت کی کشتی محفوظ کر دی
گئی ہے وہ رشتہ وہ چٹان وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن کریم ہے ۔مجھے یقین ہے جو
ں جوں ہم آگے بڑھ تے جا ئیں گے ہم میں زیادہ سے زیا دہ اتحاد ہو تا جا ئیگا
ایک خدا ایک کتاب ایک رسول ایک امت یہی ہمارا نعرہ ہے‘‘۔ دوسری جگہ تقریر
کرتے ہوے کہا ’’ ہما را دین ہما ری تہذیب، اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں
جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لئے متحرک کرتے ہیں،جناح کے معتمد خاص اور پا
کستان کے پہلے وزیر اعظم چودھری لیا قت علی خاں نے جنا ح کے جذبات اور
تاثرات کو بیا ن کر تے ہوے کہا تھا۔’’میں قا ئد اعظم کے اعلانات کا بار بار
اعادہ کر تا ہوں کہ پا کستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا انہوں نے کہ پا
کستان اسلام کی ایک تجر بہ ہوگا اور سا ری دنیا کو د کھایا جا ئیگا کہ چودہ
سو سال پرانے اسلامی اصول اب بھی کا ر آمد اور دنیا کے لئے رہنما بن سکتے
ہیں‘‘
دوسری جگہ کہتے ہیں’’ پا کستان کا آئندہ دستور قرآن مجید کے احکام پر مبنی
ہوگا اور انہوں نے مزید کہا کہ قا ئد اعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ
خواہش رہی ہے، کہ پا کستان کی نشو ونما ایک مضبوط اور مثا لی اسلامی ریا ست
کی حیثیت سے ہو جو اپنے با شندوں کو عدل و انصاف کی ضما نت دے سکے‘‘
ممکن ہے کسی کوا س مذکورہ بحث سے اختلاف ہو یا اسکو ایک لا حاصل بحث قرار
دیا جا ئے یا بقول علامہ اقبال ؒ ‘’’نئے زما نے میں آ پ ہم کو پرا نی با
تیں سنا رہے ہیں‘‘ کچھ بھی سمجھا جا ئے! لیکن واقعہ یہ ہے کہ پا کستا ن کے
حوالے سے یہ بحث ایسی نہیں جس کونظر انداز کر دیا جا ئے بلکہ نظر انداز کر
نے کی صورت میں تا ریخ سے کھلی بغاوت ہو گی اور ساتھ ہی قو ل و فعل کا تضاد
بھی ۔اور ان معصوم روحوں کے ساتھ دھوکا جنہوں نے اسلام کے نا م پر اپنی جا
نوں کا قیمتی نذرانہ پیش کر کے مملکت خداداد کو وجود بخشا۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ پا کستا ن میں امن
کیسے قا ئم ہو ۔اگر اسلا می قوانین کے نفا ذ کی صورت میں پا کستا ن میں امن
قا ئم ہو سکتا ہے،یہ فساد اور روز مرہ کی دہشت ختم ہو سکتی ہے تو ضرور اسلا
می قوانین کو نا فذ کیا جا ئے،اور شا ید بغیر اسلامی قوانین کے نفاذ کے پا
کستان میں بلکہ پوری دنیا میں قیا م امن کا تصور محال ہے ۔ کیونکہ اسلا م
کے پا س ہی وہ نظام ہے جس سے دنیا کے تما م بحرا ن ختم ہو سکتے ہیں، اور
دنیا امن و سکو ن کی فضا میں سا نس لے سکتی ہے۔ اس لیے کہ مذہب ا سلام ظلم
، تشدد ،نفرت ، اور زمین میں فساد کی سرے سے نفی کرتاہے ۔ قر آن شریف میں
اﷲ فرما تا ہے ،۔’’اسی باعث ہم نے بنی اسرائیل پر یہ مقرر کر دیاکہ جو کو
ئی کسی کو کسی جا ن کے ( عوض کے ) یازمین پر فساد کے ( عوض کے) بغیر مار
ڈالے تو گو یا اس نے سا رے آدمیوں کو مار ڈالااور جس نے ایک کو بچالیا تو
گو یا اس نے سا رے آدمیوں کا بچا لیا‘‘ سورۃ ما ئدہ ۔۳۲ )
یہ سوال ہمیشہ ذہن میں آتا ہے کہ آخر پا کستا ن اور خاص طور سے مشرق وسطی
ہی کیوں صد یوں سے خون مسلم سے لا لہ زار ہے،جبکہ مشرق وسطی ا نبیاء کی سر
زمین ہے ۔اس کے با وجود یہ سر زمین اپنے سینے پر زخم کھا کھا کر بے رو نق
سی ہو گئی۔اس کا سب نور چھن گیا اس کا چمن اجڑ گیا اس کی سر سبز و شا دابی
پر ایسی نظرلگی کہ اس کے ما ضی کی رو نق لو ٹ کرواپس آنے کی امید یں سی ختم
ہو گئی۔ہرطرف ایک عا لم ہو ۔ہر آنکھ اشک فشاں،ہر دل زخمی، ہر ایک چہرہ غموں
سے نڈھال ۔بقو ل شا عر فا نی ۔
جس طرف دیکھیے یک عا لم ہو کی تصویر
جس طرف جائیے وہشت سے فضا ئیں معمور
صبح سے شام غریبی کی بلا ؤ ں کا نزول شا م سے گو ر غریباں کی خمو شی کا
ظہور
اس سے معلو م ہو تا ہے کہ اﷲ کے نزدیک حسب ونسب اور زمین کی تقدیس کو ئی
اہمیت نہیں رکھتی بلکہ اﷲ کی محبو بیت،دل کی پا کیز گی ،ایمان و یقین کی
پختگی اتباع سنت ،تقوی و طہارت اور ا س کے ساتھ ساتھ عمل صالح میں ہے ۔ اور
یہیں وہ حقیقی اسباب ہیں جن سے یہ امت زوال کے قعر مذلت سے نکل سکتی ہے۔
پا کستا ن اسلام کے نا م پر بنا یا صر ف پا کستا ن کی تشکیل اسلام کے نا م
سے مقصود تھی ۔ اس میں حقیقت کیا ہے یہ تو خو د با نیا ن پا کستا ن ہی بہتر
جا نتے ہوں گے ،ہما رے خیا ل میں اب ضرورت اس با ت کی ہے کہ پا کستا ن کی
نئی نسل مثبت سوچ لیکر پا کستان کو بچا نے کے لیے آگے آئے ۔ تا کہ پا کستان
کی عوام روز مرہ کی اس ہلا کت خیز ی سے چھٹکا را پا سکے۔اور امن و سکون کے
سا ئے تلے اطمینا ن کا سا نس لے سکے ،اور اب یہ ذمہ داری پا کستا ن کی نئی
نسل کی ہے۔ چو نکہ اب مستقبل کی جوابدہی نئی نسل سے ہی ہوگی۔ اس لیے اب پا
کستان کی نئی نسل کو ہمیں یہ کہنے میں کو ئی تردد نہیں کہ آپ ہی اب پا کستا
ن کی آبرو ہیں ۔ اسی طرح آگر آ پ پا کستا ن کو ا پنا با غیچہ ما نتے ہیں تو
اس کے ما لی بھی آپ ہی ہیں۔اگر پا کستان آ پ کا گلستاں ہے تو اس کے پھل اور
پھول بھی آپ ہی ہیں ۔ اب اس کی آبیاری اور تحفظ بھی آپ ہی کی ذمہ داری
ہے۔نفرت اورتشدد کی مہیب اور خطرنا ک بیما ری سے پو رے پا کستان کی فضا
خراب ہے۔ اس کا علا ج بھی آپ ہی کو کرنا ہے۔ اسلام کی جو بدنا می دنیا بھر
میں ہوئی۔اس کی نیک نا می بھی اب آپ ہی کو کر نی ہے۔ اور یہ سب کا م بغیر
امن کے ممکن نہیں۔ کیو نکہ کو ئی بھی قوم تشدداور نفرت سے دنیا پرفتح نہیں
پا سکتی ہے۔تا ریخ کے ہزاروں صفحات اس بات پر شا ہد اور عادل ہیں کہ بغیر
پیار و محبت کے ایک ملک تو کیا ایک گھر بھی آباد نہیں ہو سکا ۔بہر حال یہ
اسی صورت میں ممکن ہے جب یہ سیا ست اور ذاتی مفا د سے اوپر اٹھ کر ہو گا ۔
ور نہ سیا ست اور کھو کھلے نعرے کبھی پا کستا ن کی تقدیر کو نہیں بدل سکتے
۔گز شتہ نصف صدی اس با ت پر شا ہدہے کہ پا کستا ن کے اہل سیا ست نے بیوہ
عورت کی طرح کہ وہ ہر خو شی اور غم کے مو قع پر رو تی ا ور چلا تی ہے یہی
حال پا کستا ن کی سیا ست کا بھی ہے ۔ جب کبھی اسلام کے نا م کی ضرورت پڑ تی
ہے تو کہتے ہیں کہ پا کستان اسلا م کے نا م پر بنا۔ اور جب ضرورت سیکولرز م
کی پڑ تی ہے توقا ئد اعظم کا حوالہ دیکر کہتے ہیں کہ وہ پا کستا ن کو سیکو
لر بنا کر گئے ہیں یہی وہ چکی کے دو پا ٹ ہیں ۔ |