مرحوم ممتاز راٹھور صاحب کی برسی
کا دن 16 جون ہے اور میں ہمشہ اسی دن کالم لکھتا ہوں مگرگزشتہ سال سے برسی
کا دن 20 مئی مقرر کیا گیا تھا جسکی وجہ یہ تھی کہ جون میں چونکہ بجٹ پیش
ہوتا ہے اور تمام ادارے اور حکومت بجٹ میں مصروف ہو جاتے ہیں یوں مرحوم
ممتاز راٹھور صاحب کے چاہنے والے اپنے قائد کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے
برسی میں شامل نہیں ہو سکتے تھے اس بناء پر مسعود ممتاز راٹھور صاحب،محمود
ممتاز راٹھور صاحب ،فیصل ممتاز راٹھور صاحب اور راٹھور خاندان کے سرکردہ
لوگوں نے دیگر قبائل اور کارکنان سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ
برسی کا پروگرام ہر سال 16 جون کے بجائے20 مئی کو ہوا کرے گا۔
16 جون 1999 کا دن نہ صرف حویلی بلکہ پورے آزاد کشمیر اور پاکستان کے لیے
دکھ اور کرب کا دن ثابت ہوا کہ جب دلو ں کے حکمران تحریک آزادی ِ کشمیر کے
علمبردار سابق وزیراعظم آزادکشمیر راجہ ممتاز حسین راٹھور اس دارفانی سے
دارُالبقاء کی طرف کوچ کر گئے راٹھور صاحب کی سیاسی اورمعاشرتی زندگی کے
بارے میں کچھ لکھنے کے لیے ایک وسیع تجربے اور مشاہدے کی ضرورت ہے مجھ جیسا
کم علم ااور ناقص العقل انسان اگر انکے مطلق چند الفاظ لکھے تو یقینا انکی
عوا می خدمات ،غریب پروری، رحمدلی، شفقت، نرمی،اعلیٰ صلاحتوں کے حامل سیاسی
اور سماجی شخصیت،عکسی حافظہ رکھنے کی خصوصیات،پارٹی،کے لیے قربانیاں،تحریک
آزادی کشمیر کے لیے جدوجہد،با اصو ل سیاست اور با کردار شخصیت،اور انکی بے
لوث خدمت خلق کو چند الفاظ میں بیان کرنا قرین انصاف نہ ہو گا۔ممتاز راٹھور
صاحب کا تعلق ریاست پونچھ کے جاگیر دار اعلیٰ راجپوت راٹھور خاندان سے تھا
اور ریاست پونچھ کا پرنا نام رستم نگر راٹھور صاحب کے پردادا راجہ رستم خان
راٹھور کے نام سے منسوب تھا ۔ ممتاز راٹھور صاحب جون 1943 کو حویلی کے ایک
پرفضاء مقام مین سراور بیڈوری کے دامن میں واقع ایک خو بصورت پرکشش نظاروں
اورقدرتی حسن سے مالا مال گاؤں برنگ بن میں پیدا ہوئے۔اپنی ابتدائی تعلیم
پرائمری سکول پلنگی دھڑہ رجگان سے حاصل کی ۔ آٹھ یا نو سال کی عمر میں جب
راٹھور صاحب دوسری جماعت میں زیر تعلیم تھے تو شفقت پدری سے محروم ہو گئے ۔
انتہائی نامساعد حالات میں بھی راٹھور صاحب کی والدہ محترمہ نے راٹھور صاحب
کی تعلیم کو جاری رکھا۔راٹھور صاحب کی والدہ محترمہ ایک زیرک ،صوم و صلواۃ
کی پابند،معاملہ فہم،غریب پرور،مذہبی اور اسلامی اقدار پر مبنی صفات کی
مالک خاتون تھیں ۔راٹھور صاحب کو بڑا بنانے میں اﷲ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم
کے ساتھ ساتھ انکی ماں کی دعاؤں اور اعلیٰ تربیت کا بڑا عمل دخل ہے۔راٹھور
صاحب کی والدہ محترمہ کے ہاتھ جب بھی دعا کے لیے اٹھے تو انھوں نے اﷲ تبارک
و تعالیٰ سے ایک ہی دعاما نگی کہ انکا بیٹا ایک عظیم انسان بنے ،جو اﷲ
تبارک وتعالیٰ کی مخلوق کا خدمت گار ہو،ملک کا محا فظ ،اور قوم کا پاسبان
اور نجات داہندہ بنے،یہ ماں کی دعاؤں اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کے کرم کا
نتیجہ تھا کہ راٹھور صاحب ایک عظیم انسان بھی بنے اور آزاکشمیر کے بڑے بڑے
سیاست دانوں سے ٹکراتے رہے اور سیاست کے میدانِ کارزار میں بڑے بڑے سیاسی
فرعون اور طاقتور لوگ ممتاز راٹھور صاحب کے ساتھ سیاسی ٹکر لینے اور پنجہ
آزمائی سے کنی کتراتے تھے انھوں نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں کبھی اصولوں
پر سمجھوتہ نہیں کیا۔اپنی ابتدائی پرائمری تعلیم پلنگی سے حاصل کرنے کے بعد
میٹرک کا امتحان عباس پور سے پا س کیااور یف اے کا امتحان گارڈن کالج
راولپنڈی سے پاس کرنے کے بعد میر پو رڈگری کالج میں گریجوایشن کے لیے داخلہ
لے لیاجہاں سے انھوں نے ایک طلبہ تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF )کی
بنیاد رکھی اور اسی پلیٹ فارم سے اپنی سٹوڈنٹ سیاست کا آغاز کیا۔گریجوایشن
کرنے کے بعد راٹھور صاحب ایل۔ایل۔بی کی ڈگر ی حاصل کرنے کے لیے کر اچی چلے
گئے جہاں انھوں نے سندھ مسلم لاء کالج سے ایل۔ایل۔بی کا متحان پاس کیا اور
واپس آزاد کشمیر آ کر عباس پور میں وکالت کے پیشے سے منسلک ہو گئے ۔دوران
وکالت انھوں نے غریبوں کے کیس بلا مفت بغیر کسی فیس کے لڑے لوگوں کے دل
جیتے اور ساری زندگی ان غریب غرباء سے اپنے لیے دعائیں سمیٹتے رہے ۔ سہانے
خوابوں کی تعبیر اگرچہ ہر کسی کا مقدر نہیں تاہم بعض کا نصیب ضرور ہے
۔بنیادی طور پر ایک جاگیر دار اور نواب کے گھر میں پیدا ہونے والے ممتاز
راٹھور صاحب کو زندگی میں بے شمار آزمائشوں،کرب ناک اور صبر آزماء لمحوں
،اور انتہائی اعصاب شکن مرحلوں سے گزرنا پڑا۔شفقت پدری سے محروم ہونے کے
باوجود بھی کبھی اپنے آپ کو احساسِ محرومی کا شکار نہ ہونے دیااور اپنے حسن
اخلاق ،مقصد کی لگن ،خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنی منزل کی جانب
رواں دواں رہے ۔ اپنی سیاسی زندگی کا آغاز تو انھوں نے زمانہ طالب علمی سے
ہی کر لیا تھا اور ایوب خان کے امرانہ دور میں زمانہ طالب علمی میں دلائی
جیل بھی کاٹی جرم صرف اتنا تھا کہ صدر ایوب خان نے آزادکشمیر کی منتخب
حکومت کو برخاست کر کے جب حان عبدالحمید خان کو آزادکشمیر کے عوام پر مسلط
کیا تو میر پور ڈگری کالج میں تقریب تقسیم اسناد کے موقع پر راٹھور صاحب نے
خان عبدالحمید خان سے یہ کہہ کر ڈگری لینے سے انکا ر کر دیا تھا کہ ایک غیر
آئینی صدر سے ڈگری لینا بھی غیر آئینی اور غیر قانونی ہے امریت نواز
حکمرانوں کو راٹھور صاحب کا یہ احتجاج پسند نہ آیا اور ریاست کے معملات میں
دخل اندازی کا نام نہاد جرم ان کے ساتھ منسوب کر کے دلائی جیل بھیج دیا
۔عملی طور پر سیاست کا آغاز1970 کے انتخابات میں حصہ لے کر کیا اور بھاری
اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کر کے ممبر اسمبلی بنے ۔اس وقت چونکہ
آزادکشمیر میں صدارتی نظام حکومت تھا اور سردار عبدلقیوم خان صاحب صدر تھے
1974میں حویلی میں قحط پڑ گیا سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے خوراک کی رسد بھی
جلد نہ ہو رہی تھی اور اس قحط سالی میں بھیڈی کے مقام پر 2افراد لقمہ اجل
بن گئے ممتاز راٹھور صاحب نے جب یہ معاملہ اسمبلی میں اٹھایا تو اس وقت کے
صدر آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان صاحب نے راٹھور صاحب سے کہا کہ حویلی
میں صرف دو گجر ہی مرے ہیں کون سا بڑا طوفان آگیا جو اتنا ہنگامہ کر رہے ہو
۔سردار عبدالقیوم خان صاحب کے بحثیت صدر آزاد کشمیر اس دلخراش اور لرزا
دینے والے بیان پر راٹھور صاحب نے اسمبلی کی نشست اور مسلم کانفرنس کی
رکنیت سے استعفےٰ دے دیا۔اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیا کر لی ۔1975 کے
انتخابات میں اپر حویلی اور لوئر حویلی ایک ہی حلقہ تھا جو کہلر خورشید
آباد سے شروع ہو کر تتہ پانی تک پھیلا ہوا تھا جس میں موجودہ ضلع حویلی اور
عباسپور کا پورا حلقہ شامل تھا ۔راٹھور صاحب نے 1975 کے پارلیمانی انتخابات
میں پورے آزادکشمیر کے حلقوں کی نسبت سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے بھاری
اکثریت سے کامیابی حاصل کی اورپیپلز پارٹی کی حکومت میں بطور سنیئر وزیر بن
کر ایک عوامی اور نقلابی ،سیاستدان جذبہ خدمت خلق اور حب الوطنی سے سرشار
لیڈر کے طور پر اپنے آپ کو فخر کشمیر اور دلوں کا حکمران کے طور پر منوایا۔
اپنے اس دور حکومت میں حویلی میں سکول اپ گریڈ کیئے نئے سکول قائم
کیئے۔سڑکوں کی ازسرِ نو تعمیر اور پختگی کروائی اور سینکڑوں لوگوں کو مختلف
محکمہ جات میں ملازمتیں دے کر باروزگار کیا۔ہسپتال کی عمارت اور ہر یونین
کونسل میں ڈسپنسری کی سہولت سے آراستہ کیا اور دیگر ترقیاتی کاموں کا سلسلہ
ابھی جاری ہی تھا کہ پاکستان میں جرنل ضیاء الحق نے جمہوریت پر شبِ خون
مارا اور مارشل لاء نافذ کر دیا وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو
برطرف کر کے جیل بھیج دیا آزاد کشمیر کی حکومت برخاست کر دی گئی ۔اور بعد
ازاں ذولفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کر کے ملک دُ
شمن عناصر اور غیر ملکی آقاؤں خوش کرنے کے لیے تختہ دار پر لٹکا کر ابدی
نیند سلا دیا ملک میں ہنگامہ آرائی کی صور ت حال تھی ہر طرف پیپلز پارٹی کے
کارکن احتجاج کر رہے تھے آزاد کشمیر میں ممتاز راٹھور صاحب کی قیادت میں
بھر پور عوامی تحریک چلائی گئی اس ضمن میں راٹھور صاحب کو گرفتا رکر کے
میرپور جیل بھیج دیا گیا لگ بھگ ایک سال تین ماہ کی قید و بند آزمائشوں سے
گزر کر راٹھور صاحب رہا ہوئے اور دوبارہ بحالی جمہورت کی تحریک شروع کر دی
ہر طرف ملک بچاؤ کے نعرے لگ رہے تھے ۔ممتاز راٹھور صاحب نے پیپلز پارٹی کے
پلیٹ فارم سے ذولفقار علی بھٹو کے فلسفے کو آگے بڑھاتے ہوئے انکے افکار کو
عوام میں پھیلایا اور ضاء الحق کے گیارہ سالہ آمرانہ دور کا ڈٹ کر مقابلہ
کیا دوسری مرتبہ پھر انہیں جیل بھیج دیا گیا سات ماہ کی اس اسیری کے بعد جب
رہائی ملی تو جذبہ حب الوطنی اور خدمت خلق نے مزید حدت اختیا ر کر لی تھی
اور راٹھور صاحب نے پھر سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں بحالی جمہورت
کی تحریک شروع کر دی 1985کے عام انتخابات کا پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کر دیا
یو ں راٹھور صاحب نے بھی پارٹی کے ڈسپلن کو برقرار رکھتے ہوئے الیکشن میں
حصہ نہ لیا۔لیکن اپنی جدو جہد جاری رکھی اور 1990 کے عام انتخابات میں حصہ
لے کر بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کر لی پورے آذاد کشمیر میں پیپلز
پارٹی نے نمایاں کامیابی حاصل کی اور ممتاز راٹھور صاحب نے بطور وزیر اعظم
حلف اٹھا کر حکومت بنا لی یوں راٹھور صاحب نے آزاد کشمیر کا تیسرا وزیراعظم
ہونے کا اعزاز بھی حاصل کر لیااور پوری دنیا کو یہ ثابت کر کے دکھا دیا کے
وہ انتہائی پسماندہ ترین علاقے سے اٹھ کر ایون اقتدار میں اس لیے پہنچے کے
انکا مشن جذبہ حب الوطنی و خدمت خلق ،ایثار، سیاست بلحاظ عبادت ،آزاد کشمیر
کے غریب اور پسے ہوئے طبقے کی آواز بننا تھا۔وزارت اعظمیٰ کے دوران پورے
آزاد کشمیر کے اندر تعمیر و ترقی کا جال بچھایا۔حویلی میں لوگوں روزگا رکی
سہولتیں دیں،لس ڈنہ ،محمود گلی ،کہلر حورشید آباد ،اور علی سوجل ، اور آزاد
کشمیر کے دیگر تمام اضلاع میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے سرکاری اداروں کے
ریسٹ ہاؤسیز تعمیر کروائے،کہوٹہ ہسپتال کو اپ گریڈ کیا بوائز انٹر کالج کو
ڈگری کالج بنایااور تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے پورے آزاد کشمیر
کے عوام کو ایک بہترین تعلیمی پیکج دیا۔9 ماہ کے اس قلیل عرصہ میں جو
ترقیاتی کام ہوئے وہ پچھلی چار دھائیوں میں بھی نہ ہوئے تھے جنیوا میں سارک
کانفرنس کے دوران مسلہء کشمیر پر تفصیلی بریفینگ دیتے ہوئے جو جاندارموقف
اختیار کیا وہ تاریخ میں سنہرے خروف میں لکھا جا چکا ہے اس کانفرنس کے بعد
پوری دنیا میں مقیم کشمیریوں نے ممتاز راٹھور قدم بڑھاؤ ہم تمھارے ساتھ ہیں
کے نعرے لگائے اور فخرکشمیر کا خطاب دیا۔ پاکستان سے منگلا ڈیم کی ریا لیٹی
طلب کر لی ،ایکٹ 74 میں ترمیم کے ساتھ لینٹ آفیسران ،کشمیر کونسل اور وزارت
امور کشمیر جو کشمیریوں کا خون چوسنے میں ابھی تک مصروف ہیں کے خاتمے کے
لیے عملی اقدا مات کی طرف قدم بڑھایاوفاق اور بل خصوص وہ طاقتیں جوغیر
آئینی طریقے سے آزاد کشمیر کی حکومت بنانے اور گرانے میں ہمیشہ ملوث رہتی
تھیں آئینی اور قانونی لحاظ سے جن کا حکومتی معملات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں
ہوتا کو یہ بات پسند نہ آئی اور ان طاقتوں نے اپنے جال بن کر ممتاز راٹھور
صاحب کے دوستوں کو ان سے الگ کر لیا ایسے دوست جن کو را ٹھو ر صا حب نے محض
75روپے جو اس وقت کہوٹہ سے مظفر آباد تک کا کرایہ تھا کے خرچ پر اسمبلی
فلور تک پہنچایا تھا یوں نو ماہ بعد اپنے ہی احسان فراموش دوستوں کی بے
وفائی سے رنجیدہ ہو کر خود ہی اسمبلی تحلیل کر دی جو راٹھور صاحب کی سب سے
بڑی سیاسی غلطی تھی لیکن اس میں انکے جذابات کا اظہار جھلک رہا تھا کہ
ممتاز راٹھور کٹ سکتا ہے مر سکتا لیکن کبھی جھک کر اصولوں پر سمجھوتہ نہیں
کر سکتا۔تین ماہ نگران وزیراعظم رہنے کے بعد عام انتخابات منعقد کروائے
حویلی اور مظفرآبادسے بیک وقت دو حلقوں سے ا لیکشن لڑ کر بھاری اکثریت سے
کامیابی حاصل کی لیکن دوسرے حلقہ جات سے مری والوں کے زیرِسایہ مسلم
کانفرنس نے نمایاں کامیابی حاصل کر کے حکومت بنا لی اور راٹھور صاحب
اپوزیشن میں چلے گئے ۔1995 تک قائد حزب اختلاف کے عہدے پر فائز رہے 1996 کے
الیکشن میں ممتاز راٹھور صاحب کی سربراہی میں پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت
سے کامیابی حاصل کر لی بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے وفاق اور ان غیر آئینی
طاقتوں کے ساتھ مل کر ممتاز راٹھور صاحب کو بائی پاس کرتے ہوئے وزارتِ
عظمیٰ کی کرسی اپنے نام کر لی اور ممتاز راٹھور صاحب کے حصے میں سپیکر شپ
آئی دو سال تک سپیکر کے عہدے پر فائز رہے اور پھر بیرسٹر سلطان محمود چوہدر
ی کی کابینہ نے تحریک عدم اعتماد پیش کردی یار لوگ کہتے ہیں کہ کروڑوں روپے
میں ضمیر کے سودے پر عدم اعتماد کی یہ تحریک کامیاب ہوئی تھی یوں ممتاز
راٹھور صاحب کو سپیکر شپ سے فارغ کر دیا گیا ۔ ممتاز راٹھور صاحب اپوزیشن
میں چلے گئے اور بھر اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر فائز ہو گئے ۔ممتاز راٹھور
صاحب نے رنجیدہ ہو کر ایک الگ گروپ پیپلز پارٹی (نظریاتی گروپ) کے نام سے
تشکیل دیا اور ایک عوامی حکومت بنانے کے جوڑ توڑ میں مصروف ہو گئے ۔ پیپلز
پارٹی (نظریاتی ) گروپ میں موجودہ وزیر ٹرانسپورٹ طاہر کھوکھر صاحب ،عطا
محی الدین قادری راٹھور صاحب ،جاوید ناز ایڈوکیٹ ،سابق ڈپٹی اسپیکر اسرار
عباسی صاحب اور دیگر کئی مقبول شخصیات بھی شامل تھیں عوامی حکومت کے قیام
کے لیے انکے ساتھ(اس وقت کی) مسلم کانفرنس (س) گروپ کے سربرہ اور موجودہ
مسلم لیگ (ن) کے رہنماء سردار سکندر حیات خان نے اتحاد کر لیا اور یوں پورے
آزاد کشمیر میں عوامی حکومت کے لیے جلسے جلوس شروع ہو گئے ۔پورے آزاد کشمیر
میں بھر پور عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا اور عباس پور میں جلسے سے خطاب
کر کے راٹھور صاحب 15 جو ن 1999 کو محمود گلی پہنچ گئے جہاں رات کو قیام کے
بعد صبح 16 جون کو کہوٹہ میں جلسے سے خطاب کر نا تھا مگر قدر ت کو کچھ اور
ہی منظور تھا ۔رات کو ممتاز راٹھور صاحب محمود گلی ریسٹ ہاؤس میں سوئے تو
پھر کبھی نہ جاگ سکے اور ابدی نیند سو گئے ۔یو ں آزاد کشمیر کی سیاست
،تحریک آزادکشمیر کی جدو جہد،کشمیری عوام کے ریاستی تشخص کی ضمانت،عوامی
خدمت،غریب پروری ،وضعداری اور بااصول سیاست کا ایک باب بند ہو گیا ممتاز
راٹھور صاحب کی انفرادیت کے دیگر پہلوؤں میں سے ایک انکی یاداشت کاپہلو بھی
قابل دید اور منفرد تھا کہ وہ عکسی حافظہ کی حامل ذہنیت کے مالک تھے راٹھور
صاحب نے اپنی سیاست کو عبادت سمجھ کر مخلوقِ خدا کی خدمت کی انھوں نے اپنی
خداداد صلاحتوں ،پر کشش شخصیت،خوش اندامی،خوش اخلاقی،غریب پروری ،درویشانہ
زندگی، بلند نظری ،اور وسعت قلبی کی بدولت کشمیر اور کشمیریوں کا تشخص اور
وقار پور ی دنیا میں بلند کروایانکی ان خدامات کو تاریخ رہتی دنیا تک سنہرے
الفاظ میں یاد کرتی رہے گی۔ممتاز حسین راٹھور صاحب ایک سیاسی راہنما ء ایک
دلبر راہبر ، انسانی سربلندیوں کے ایک روشن باب ، ایک ناقابل تردید دلیل ،
ایک عظیم انسان ، ایک ناقابل شکست محرک ، غریبوں بے کسوں ، مجبوروں اور
مظلوموں کے لیے روشنی کاایک مینار ، ایک مرد درویش ،ایک بہترین دوست اور
اپنے چاہنے اور جاننے والے ہر ایک شخص کو یہ احساس عطا کر نے والے لیڈر کہ
وہ اسی کے بہترین دوست ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی بھی ان سے زیادہ قریب نہیں۔
گو کہ راٹھور صاحب جسمانی لحاظ
سے اس دنیائے فانی سے اچانک کوچ کر گئے انکا ہنستا مسکراتا باوقار چہرہ یک
لخت قبراور کفن کے پردوں تلے روپوش ہو گیا مگر کروڑوں انسانوں کی اشکبار
آنکھیں آج اس بات کی گوہی دے رہی ہیں کہ کردار وعمل کی جولازوال داستان وہ
اپنے خون جگر سے رقم کرگے وہ قیامت تک آنے والے قافلوں کو عظمتوں کی حسین
منازل کی نشان دہی کرتی رہے گی ۔ اور کوئی جابر شہنشاہ رفعتوں کے اس شاہسو
ار کو اس کی عظیم سیاسی تعلیم کو اور اس کے مکتب فکرکے سیاسی سفر کو پابند
سلاسل نہیں کر سکتا ۔ وہ وقت کے بے اصول ،بد کردار اور کرپٹ فرعونوں کے
خلاف جد وجہد کی ان مٹ داستان کا ایک ایساعنوان بن گے کہ آنے والی نسلیں اس
سے تاریخ انسانیت کے نت نئے باب تراش سکیں گی ۔ اور جسمانی اعتبار سے پلنگی
دھڑہ راجگان میں اپنی عظیم ماں کے پہلو میں آسودہ خاک ہو جانے والے ممتاز
حسین راٹھور صاحب فکر ، عقیدہ اور جد وجہد کی ایک عظیم تاریخ کے طور پر ایک
ہیرو بن کر قیامت تک چودھویں رات کا چاند رہیں گئے۔ ایک ایسا چاند جو کبھی
نوید سحر تک غروب نہیں ہو ا کرتا ۔ |