معرکہ شیشہ لدّی
(ABDUL SAMI KHAN SAMI, SWABI)
چھے دسمبر 1971ء کی یخ بستہ رات
تھی۔ جنگ چھڑتے ہی بھارتی توپوں کی گھن گرج سے وادی لیپہ(آزادکشمیر) کے در
و دیوار لرز رہے تھے۔ 5 دسمبر کی صبح سے بھارتی توپ خانے نے شدید گولہ باری
شروع کردی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انھوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ تمام
گولہ بارود اسی روز ختم کرنا ہے۔ شام کے فوراً بعد تاریکی چھاتے ہی دشمن نے
گولہ باری میں اچانک زبردست اضافہ کردیا۔ گولوںکی دھمک اور پہاڑوں میں ان
کی گونج سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ ہر طرف قیامت صغریٰ کا منظر
تھا۔
تاریکی کا سینہ چیرتے ہوئے روشنی پیدا کرنے والے گولے بھی فضا میں پھٹ رہے
تھے۔ ان کی روشنی نے چاند کی کمی کماحقہ پوری کر دی۔ اندھیرے اور دھوئیں کی
دبیز تہ اور بھرپور شیلنگ کی آڑ میں بھارتی فوج وادی لیپہ کی آزادی کے
راستے میں سینہ سپر آخری پاکستانی چوکی’’شیشہ لدی‘‘ کی طرف بڑھ رہی تھی۔
وہاں پاک فوج کی یونٹ FFR-2 پچاس فوجیوں کے لگ بھگ کی نفری کے ساتھ میجر
عزیز کی قیادت میں ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی تھی۔
نصف شب قریباً ایک بجے فائرنگ یکلخت بند ہوگئی اور فضا میں گمبھیر اور
خوفناک سناٹا چھاگیا۔ پاک فوج کے نڈر اور باہمت جانباز بھارتی فوج کی نقل و
حرکت سے بخوبی باخبر تھے لیکن انھوں نے اعلیٰ دفاعی و حربی مہارت کا ثبوت
دیتے ہوئے اس وقت تک ایک گولی بھی نہ چلائی جب تک کہ دشمن ان کی مار میں نہ
آگیا۔ مہیب سکوت محض کچھ دیر ہی رہا اور پھر اچانک دونوں اطراف سے آتشیں
اسلحہ کے دہانے ایک مرتبہ پھرکھل گئے۔
بارودی سرنگوں کے نزدیک پہنچ کر فتح کے نشے میں چور ایک بھارتی افسر نے
لائوڈ اسپیکر پر نعرہ لگا کر پاک فوج کو اپنی طرف متوجہ کیا اور بلند آواز
میں کہا: تمھاری چوکی چاروں طرف سے ہمارے جوانوں کے محاصرے میں آ چکی۔ میں
تمھارے لیے تین راستے تجویز کرتا ہوں۔ اوّل یہ کہ دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لو
(ہینڈز اَپ ہو جائو) اِس صورت میں ہم تمھیں بحفاظت نکل جانے کا محفوظ راستہ
دیں گے لیکن تم صرف جسم پر موجود کپڑوں میں جائو گے۔ دوم یہ کہ ہتھیار ڈال
کر قیدی بن جائو۔ اس صورت میں تمھارے ساتھ جنیوا کنونشن کے تحت سلوک کیا
جائے گا۔ تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ مرنے کے لیے تیار ہوجائو۔
جواب میں پاک فوج کے جانباز میجر عزیز نے نعرہ تکبیر لگایا اور ساتھ ہی
پاکستانی گنوں نے دشمنوں کو بھوننا شروع کردیا۔ شاہینوں نے ایسا زوردار
حملہ کیا کہ بھارتی فوجیوں میں بھگدر مچ گئی۔ شیشہ لدی چوکی کے عین سامنے
چیڑ کے درخت پر نصب لاوڈاسپیکر کے ذریعے کوئی بھارتی افسر چیخ چیخ کر اپنے
سپاہیوں کو گالیاں دے رہا تھا جو ہتھیار پھینک کر بھاگ رہے تھے۔ قریباً تین
گھنٹے گھمسان کی جنگ کے بعد دشمن سیکڑوں لاشیں چھوڑ سر پر پائوں رکھ کر
بھاگ کھڑا ہوا۔
بھارتی حملہ اتنا بھرپور تھا کہ جب فائرنگ بند ہوگئی اور سکوت چھا گیا‘ تو
اہلِ لیپہ یہی سمجھے کہ ’’شیشہ لدی‘‘ چوکی پر خدانخواستہ بھارتی قبضہ
ہوچکا۔ جنگ میں مصروف پاک فوج اور وادی کی شہری آبادی کا رابطہ منقطع
ہوچکا تھا۔ چناںچہ پوری وادی میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ عالم بدحواسی میں
شکست خوردہ چھ بھارتی فوجیوں کی ایک ٹکڑی شیشہ لدی کے دامن میں واقع گائوں
’’غائی پورہ‘‘ کے ایک چھوٹے سے غار میں چھپ گئی۔ چونکہ وہ سب مسلح تھے اور
دیہاتیوںکے خیال میںپاکستانی چوکی شیشہ لدی بھارتی قبضے میں جاچکی تھی‘
لہٰذا ان کی آمد سے نہتے لوگ خوفزدہ ہوئے۔
تمام گھروں کے دروازے مضبوطی سے بند کر دیے گئے۔ گائوں کا سب سے مضبوط اور
بڑا مکان ترک عثمانی خاندان کے چشم و چراغ لعل خان کی ملکیت تھا۔ وہ 1965ء
کی جنگ کے زمانے میں مجاہد فورس میں کمپنی کمانڈراور کوارٹر ماسٹر رہ چکے
تھے۔ اُن کے پاس ایک بارہ بور کی بندوق اور چند کارتوس تھے۔ اس باعث
تقریباً پندرہ مرد اور تیس خواتین اور بچوں نے ان کے گھر پناہ لے رکھی تھی۔
جیسے ہی بھارتی فوجی فرار ہوکر اس طرف آئے تو محمدیعقوب نامی شخص کی نظر
ان پر پڑ گئی۔ اس نے فوری طور پر لعل خان کو اطلاع دی کہ دشمن گائوں میں
آچکا‘ لہٰذا اپنی حفاظت کا بندوبست کرو۔ مشورے سے فیصلہ ہوا کہ اس سرد اور
تاریک رات میں کہیں جانے کے بجائے اسی مکان میں رہا جائے۔ اگر بھارتی فوج
نے حملہ کیا‘ توخواتین والے کمروں کو فوری طور پر آگ لگادی جائے تاکہ عفت
مآب مسلم خواتین کی عصمت و عزت محفوظ رہے۔ اس غرض کے لیے گھر میں پہلے سے
موجود خشک گھاس اور لکڑیوں کو مستورات والے کمروں کے پاس خاموشی سے اکٹھا
کر دیا گیا تاکہ خواتین میں کہرام نہ برپا ہو۔
گھر میں موجود اکلوتی بارہ بور کی بندوق اور دس کارتوس لعل خان کے حوالے کر
دیے گئے تاکہ وہ چوبی دروازے میں موجود قریباً ایک انچ چوڑے سوراخ کے ذریعے
بھارتی فوج کی متوقع آمد روکنے کی کوشش کریں۔ لعل خان نے بندوق ہاتھ میں
لے کر مکان کے گرد چکر لگایا تاکہ وہ باہر کے حالات سے باخبر رہیں۔
جیسے ہی وہ باہر نکلے ان کی نظر دور سے آتے دو فوجیوں پر پڑی۔ انھوں نے
فوراً اندر آکر دروازہ بند کیا اور چوبی دروازے کے سوراخ سے بندوق کی نال
نکال چوکس ہوگئے۔ اُسی اثنا میں وہ فوجی قریب آئے‘ تو منکشف ہوا کہ دونوں
پاک فوج کی وردی میں ملبوس ہیں۔ انھوں نے مذکورہ مکان کے قریب واقع مکانات
کے بند دروازوں پر دستک دینا شروع کی‘ مگر وہاںکوئی ہوتا تو جواب دیتا۔
آخر انھوں نے لعل خان کا دروازہ کھٹکھٹایا تو بے ساختہ اُن کی انگشت شہادت
کا دبائو بارہ بور کی بندوق کے ٹرائگر پر بڑھ گیا۔ مکان میں پناہ گزین بقیہ
افراد بھی مرنے مارنے پر تُل گئے۔ چونکہ شیشہ لدی چوکی ہاتھ سے نکل جانے کا
خوف اور خدشہ دلوں میں جاگزیں ہوچکا تھا اور بھارتی فوجیوں کو گائوں میں
داخل ہوتے دیکھ لیا گیا تھا‘ لہٰذا سب نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ بھارتی
فوجی ہیں جو شہریوں کو دھوکا دینے کی غرض سے پاک فوج کے شہید ہونے والے
جوانوں کی وردیاں پہنے چلے آئے۔
شک رفع کرنے کی غرض سے ان سے باآواز بلند اپنی شناخت کروانے کو کہا گیا۔
اس پر اسی گائوں سے مجاہد فورس میں بھرتی ہونے والے ایک جوان‘ سید محبوب
شاہ نے لعل خان کا نام پکارا‘ لیکن پھر بھی مکان میں موجود لوگوں کو تسلی
نہ ہوئی۔ وہ یہی سمجھے کہ بھارتی فوجیوں نے بذریعہ جبرو تشدد گائوں کے کسی
شخص سے اس مکان کی بابت معلومات حاصل کرلی ہیں‘ دوبارہ مطالبے پر انھوں نے
اپنا نام‘ ولدیت‘ دادا کا نام اور معروف لقب وغیرہ بتائے بلکہ انھوں نے لعل
خان کا پورا شجرہ نصب بھی بتا دیا۔ لیکن پھر بھی یہ شک رہا کہ اس کے ساتھ
حوالدار کی وردی پہنے کوئی بھارتی فوجی موجود ہے جس نے گن پوائنٹ پر ہمارے
گائوں کے جوان محبوب شاہ کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور ہمیں نقصان پہنچانے کے
در پے ہے۔
اس دوران محبوب شاہ سمجھ گئے کہ گائوں والے انھیں دشمن سمجھ رہے ہیں۔ اسی
لیے انھوں نے اپنے ساتھ آئے غازی پورہ کے حوالدار کا پورا تعارف کرایا۔
حوالدار نے خود بلند آواز میں کلمہ طیبہ پڑھا جس پر مکان کا دروازہ کھول
دیا گیا اور باہر نکل کر سب سے پہلے شیشہ لدی چوکی کی کیفیت دریافت کی گئی۔
جب انھیں بھارتی فوج کی پسپائی اور بھاری جانی نقصان کا علم ہوا‘ تو لوگ
خوشی سے نعرے لگانے لگے۔
دروازہ کھلتے ہی پاک فوج کے جوانوں نے چائے طلب کی لیکن یہاں سب کو اپنی
جانوں کی پڑی تھی‘ چائے کہاں سے آتی؟ لیکن اُن سے کہا گیا کہ اگر وہ کچھ
دیر ٹھہر جائیں تو چائے کا بندوبست ہوجائے گا۔ لیکن آفرین ہے اِن شہبازوں
پر کہ شدید سردی اور تمام رات کی گھمسان کی جنگ کی وجہ سے تھکے ہونے کے
باوجود انھوں نے مادرِ وطن کے دفاع سے ایک لمحہ بھی غافل ہونا گوارا نہ
کیا۔
شیشہ لدی چوکی پر دشمن کی شکست کا سن کرعوام میں بھی نیا جوش اور ولولہ
پیدا ہوگیا۔ سب لوگ محبوب شاہ اور حوالدار کے ساتھ ان بھارتی فوجیوں کی
تلاش میں جانے کی ضِد کرنے لگے۔ اسی اثنا میں پاک فوج کے ایک افسر کا پیغام
آیا کہ شہری آبادی بھارتی فوجیوں سے مڈبھیڑ سے احتراز کرے کیونکہ وہ مسلح
ہیں اور غاروں، جھاڑیوں اور جنگل میں کسی بھی جگہ موجود ہو سکتے ہیں۔ پاک
فوج ان کی سرکوبی اور تلاش کی کارروائی شروع کر چکی۔ لہٰذا جب تک یہ
کارروائی مکمل نہیں ہو جاتی‘شہری آبادی غاروں، پہاڑوں اور جنگل میں جانے
سے گریز کرے۔
اس کے باوجود لوگوں کا جوش و جذبہ سرد نہ ہوا۔ مجبور کرنے پر کمانڈنگ افسر
نے چند مقامی شہریوں کو بھی تلاش کے کام میں شامل کرلیا۔ کچھ ہی دیر میں
شیشہ لدی کی جنوبی ڈھلوان سے تین بھارتی سپاہی ایک سکِھ افسر سمیت گرفتار
کر لیے گئے۔ ان کی گرفتاری کا سن کر لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لوگ
اپنی جان کی پروا کیے بغیر جوق در جوق اپنے جوانوں کی خیریت دریافت کرنے
اور ان کے لیے ضروریات زندگی کی اشیا لیے دیوانہ وار شیشہ لدی چوکی پر
پہنچنا شروع ہوگئے۔ خواتین نے پانی کی گھاگھریں سروں پر اُٹھائی ہوئی تھیں۔
اُن کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہ رہے تھے۔
اچانک ایک بھارتی فوجی نے جو شیشہ لدی چوکی کے عین سامنے بلندی پر چیڑ کے
گھنے درختوں میں چھپا ہوا تھا‘ موقع پا کر فائرنگ کر دی۔ اس کے نتیجے میں
FFR-2 کے کمپنی کمانڈر میجر عزیز موقع پر شہید ہوگئے جو مورچوں کی دیکھ
بھال اور جوانوں کی حوصلہ افزائی میں مصروف تھے۔ یوں وہ مادروطن کے دفاع
میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے سرخرو ہوئے۔
اس طرح پاک فوج کی یونٹ FFR/2 نے اسلاف کی شاندار روایات زندہ رکھتے ہوئے
مختصر تعداد میں ہونے کے باوجود نہ صرف بھارتی فوج کی بھاری تعداد کا جواں
مردی سے مقابلہ کیا بلکہ قریباً دو سو سے زائد بھارتی حملہ آوروں کو ہلاک
بھی کیا۔ جس مورچے میں میجر عزیز نے شہادت پائی‘ وہ آج بھی’’عزیز رج‘‘ کے
نام سے معروف ہے۔
اس معرکے کے بعد آج تک وادی لیپہ پر دشمن کو کبھی حملہ کرنے کی جرأت نہیں
ہوئی۔ یہ خوبصورت وادی جس کے بارے میں مقامی بزرگ آج بھی کہتے ہیں کہ اس
کے ناقابلِ رسائی علاقوں میں’’چشمۂ حیات‘‘ موجود ہے‘ ہمیشہ کے لیے دشمن کی
دست برد سے محفوظ ہوگئی۔ |
|