بسم اﷲ الرحمن الرحیم
برطانوی اخبار سنڈے ٹائمزنے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ
سعودی عرب نے ایک اسٹریٹجک فیصلہ کیا ہے جسکے تحت وہ پاکستان سے ایٹمی
ہتھیار خریدے گا۔ اپنی گمراہ کن رپورٹ میں اخبار نے اس فیصلے کو مشرق وسطی
میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ سے تعبیر کیا اور کہاکہ ماضی میں ریاض نے ایٹمی
پروگرام میں پاکستان کے بھر پور مدد کی ہے لہذا اب وہ اس احسان کا بدلہ
چاہتا ہے اور ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ ممکنہ
معاہدے کی صورت میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے درپے ہے۔سنڈے ٹائمز نے
لکھا ہے کہ اگر سعودی عرب ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے قدم بڑھاتا ہے تو اس
سے مصر اور ترکی کو بھی ترغیب ملے گی اور وہ بھی ایٹمی کلب میں داخل ہونے
کی کوشش کریں گے۔ادھر امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے
سعودی عرب کی وزارت دفاع نے برطانوی اخبارکی جانب سے پاکستان سے جوہری
ہتھیاروں کے حوالے سے شائع کردہ رپورٹ کو مسترد کیا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب میں جوہری تعاون کے الزامات نئے نہیں ہیں۔ یہ 1990
کی دہائی سے گردش کر رہے ہیں۔پچھلے کئی برسوں سے شدومد سے یہ پروپیگنڈا
کیاجارہا ہے کہ برادر اسلامی ملک نے وطن عزیز پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام،
پاکستانی میزائل اور جوہری لیبارٹریوں کے قیام میں سرمایہ کاری کی ہے اور
وہ اسلام آباد سے کسی بھی وقت ایٹمی ہتھیار حاصل کر سکتا ہے تاہم پاکستان
نے ایسی رپورٹوں کی ہمیشہ سختی سے تردیدکی اور انہیں بے بنیاد، شرانگیز اور
فرضی قراردیا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو نے 2013ء میں اس
حوالہ سے ایک شر انگیز رپورٹ بھی نشر کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایران کے
ایٹمی قوت بننے کے بعد سعودی عرب ایک ماہ بھی انتظار نہیں کرے گا۔ رپورٹ
میں مذکورہ نشریاتی ادارے کے سفارتی اور دفاعی امور کے مدیر مارک اربن نے
نیٹو کے ایک اعلیٰ اہلکار سے گذشتہ برس کے آغاز میں اپنی بات چیت کا حوالہ
دیتے ہوئے کہا کہ اس افسر نے ایسی خفیہ رپورٹیں دیکھی تھیں جن کے مطابق
پاکستان میں تیار کیے جانے والے جوہری ہتھیار سعودی عرب ڈیلیوری کے لیے
تیار ہیں۔بی بی سی نے اپنے پروگرام میں اسرائیلی فوج کے خفیہ محکمہ کے
سربراہ امودیا دلن کی جانب سے سویڈن میں کی گئی پریس کانفرنس کابھی حوالہ
دیاجس میں ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ایٹم بم کیلئے پاکستان کو رقم کی
ادائیگی کر دی ہے۔ وہ پاکستان جائیں گے اور جو چاہتے ہیں وہاں سے لے آئیں
گے۔بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ کے فوری بعد اس وقت کے ترجمان دفتر خارجہ
اعزازچوہدری نے سختی سے اس کی تردید کی اور کہاکہ پاکستان ایک ذمہ دار
جوہری ملک ہے۔ اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم نتہائی مضبوط اور عالمی جوہری
ادارے آئی اے ای اے کے حفاظتی معیار کے مطابق ہے۔ مغربی ممالک کے بے
بنیادپروپیگنڈہ کے ردعمل میں پاکستان کی طرف سے تمامتر وضاحتوں کے باوجود
انہیں جب کبھی موقع ملتا ہے وہ اس حوالہ سے شرانگیزپروپیگنڈہ سے باز نہیں
آتے۔چند ماہ قبل اسلام آباد میں ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور ہتھیاروں
پر کنٹرول سے متعلق بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں امریکی
و برطانوی ماہرین نے ایک بار پھر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالہ سے
چارج شیٹ پڑھ ڈالی۔ سنٹر فار پاکستان اینڈ گلف اسٹڈیز کے زیر اہتما م
کروائے جانے والے سیمینار میں امریکہ کے سابق نائب وزیر دفاع برائے ایشیا
پیسفک مسٹر مارک فٹز پیٹرک نے اپنے خطاب کے دوران سخت الزام تراشی کی اور
کہاکہ پاکستان سعودی عرب کو ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹمی میزائل فراہم کر
سکتا ہے کیونکہ سعودی عرب ایرانی ایٹمی طاقت کے مقابلہ میں توازن چاہتا ہے۔
امریکہ پاکستان کیساتھ بھی سویلین ایٹمی سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن اس کیلئے
پاکستان کو شرائط پوری کرنا ہوں گی‘ ان میں اوّلین شرط پاکستان سے دوسرے
ملکوں کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی کو روکنا ہے۔مسٹر مارک کا کہنا تھا کہ
پاکستان نے ڈاکٹر اے کیو خان کو ایٹمی پروگرام سے الگ کر دیا ہے مگر اسکے
ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنے میزائلوں کی رینج کو بھارت تک محدود اور ایٹمی
ہتھیاروں کی تعداد کو کم کرنا ہو گا۔گذشتہ برس سعودی عرب کی جانب سے تاریخی
شمشیر عبداﷲ جنگی مشقیں کی گئیں تو اس وقت بھی مغربی ممالک کے پیٹ میں سخت
مروڑ اٹھے اور عالمی ذرائع ابلاغ کی بعض رپورٹوں میں کہاگیا کہ سعودی عرب
کی اعلی قیادت نے مشقوں کے دوران جدیدنوعیت کے بیلسٹک میزائلوں کی نمائش کی
تاکہ ایران کو متنبہ کیا جا سکے اور اگر سعودی حکومت نیوکلیئر وار ہیڈز
حاصل کر لیتی ہے تو اس کے بعد ریاض کے میزائل مشرق وسطی میں طاقت کا توازن
بدل کر رکھ دیں گے۔اسی طرح یہ دعوے بھی کئے گئے کہ پاکستانی فوج کی اعلیٰ
قیادت کی نگرانی میں متعدد نیوکلیئر وار ہیڈز پاکستان سے سعودی عرب منتقل
کئے گئے ہیں اوریہ منتقلی دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدے کے تحت عمل میں
آئی ہے۔یہ رپورٹیں اور دعوے انتہائی گمراہ گن تھے جن کا حقیقت سے دور کا
بھی واسطہ نہیں تھا۔بہرحال اس وقت بھی فتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے
پاکستان اور سعودی عرب کے خلاف ایٹمی تعاون کے حوالہ سے کئے جانے والے
پروپیگنڈہ کا رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کو نیوکلئیر ٹیکنالوجی کی
برآمد کے الزامات بے بنیادو گمراہ کن ہیں۔افسوسناک امر ہے کہ بغیر ثبوتوں
کے اس طرح کی باتیں کر دی جاتی ہیں۔یہ تمام چیزیں پاکستان کے خلاف
پروپیگنڈے کا حصہ ہیں۔عالمی جوہری ادارے نے ہمیشہ پاکستان کے نیو کلیئر
سیفٹی اور سکیورٹی اقدامات کو سراہا اوراعتماد کااظہار کیاہے۔ہم سمجھتے ہیں
کہ دفتر خاجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کی یہ باتیں بالکل درست ہیں۔پاکستان کے
ایٹمی پروگرام کے خلا ف ستر کی دہائی سے زہر یلا پروپیگنڈہ جاری ہے۔ کبھی
اسے اسلامی بم کہاجاتا ہے تو کبھی بھارت و اسرائیل کی طرف سے اسے تباہی سے
دوچار کرنے کی مشترکہ سازشیں کی جاتی ہیں۔یہ بات صاف طور پر واضح ہے کہ
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف امریکہ ، یورپ، بھارت اور اسرائیلی
حکومتوں میں پائی جانے والی نفرت کسی طور کم نہیں ہو سکتی۔ ان دنوں چونکہ
یمن میں حوثیوں کی بغاوت کچلنے اور سرزمین حرمین شریفین کی سرحدوں کے تحفظ
کیلئے سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحادبھرپور کردار ادا کر رہا ہے اور امت
مسلمہ کے روحانی مرکز نے امریکہ کی بجائے پاکستان سے مدد طلب کی ہے اس لئے
دونوں ملکوں کے درمیان مزید مستحکم ہوتے تعلقات دیکھ کر اس شرانگیز
پروپیگنڈے میں شدت لائی جارہی ہے ۔ مختلف غیر معروف ویب سائٹوں پر سعودی
عرب کے خلاف گمراہ کن سٹوریاں شائع کرواکے اسے پوری دنیا میں پروپیگنڈہ کے
طور پر استعمال کیاجارہا ہے۔اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ برطانیہ اور
دیگر مغربی ممالک سعودی عرب کی حمایت کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن درحقیقت وہ
کسی طور اس حوالہ سے مخلص نہیں ہیں اور درپردہ سرزمین حرمین شریفین کی دشمن
قوتوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔سعودی وزارت دفاع نے پاکستان سے ایٹمی
ہتھیار خریدنے کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے درست کہا ہے کہ یہ نئے الزامات
نہیں ہیں اور وہ ایسی بے بنیاد اور جھوٹی خبروں پر تبصرہ کرنا بھی پسند
نہیں کرتے۔بہرحال دشمنان اسلام پاک سعودی ایٹمی تعاون کا پروپیگنڈا کر کے
دوہرے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ یہ بات ثابت کرناچاہتے ہیں
کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام غیر محفوظ ہے اور دوسری جانب سعودی عرب کے گرد
گھیرا تنگ کرنے کیلئے اسے عالمی دنیا کی حمایت سے محروم کرنے کی کوششیں کی
جارہی ہیں۔ ہمیں ان سازشوں کو بخوبی سمجھنا اورحکمت و دانشمندی کے ساتھ اس
پروپیگنڈا کا توڑ کرنا ہے تاکہ اسلام دشمن قوتوں کے عزائم ناکام بنائے
جاسکیں۔ |