پاکستان کی خارجہ پالیسی
(Malik Mushtaq Ahmad Kharal, Jatoi)
ایک بکھری ہوئی ریاست کے شیرازے
کو مزید بکھرنے سے بچانے کے جمہوری آمریت سے لے کر آ مرانہ جمہوریت تک وطن
عزیز نے جودور دیکھے وہ ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ۔ اندرونی اور بیرونی
خلفشار میں گھر ا ہوا یہ ملک آج بریکنگ نیوز کا مخور بن چکا ہے۔ بنیادوں
میں ہی رکھی گئی ٹیڑھی اینٹ نہ آج تک سیدھی ہو سکی اورنہ ہی ہم نے کوشش کی
۔ دینا کے تیزی سے بدلتے ہوئے اس نقشہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو
ڈھونڈنا اس لئے مشکل ہورہا ہے کہ آج تک ہم نے کوئی ٹھوس‘جامع اور غیر
متزلزل خارجہ پالیسی وضع نہ کی۔ جہاں ہماری بری‘بحری اورفضائی سرحدیں
ریڈالرٹ کا سگنل دے رہی ہیں وہاں ہماری روحانی (اسلامی ) سرحدوں پرلادینی
اور یہودی لابی برسرپیکارہے ۔آج دینا کی ساتویں اور عالم اسلام کی واحد
ایٹمی قوت ڈیلی و یجز پر چل رہی ہے ۔ نائن الیون کے بعد جوقتل عام ہماری
خارجہ پالیسی کا ہوااس کا خمیازہ آج ہر پاکستانی بھگت رہا ہے میری ناقص
رائے میں اس دہشت گردی کی سب سے بھاری قیمت ہمیں چکانا پڑی ’’ابیل مجھے مار‘‘
کی طرح دنیا کے کسی کونے میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائی کی دمہ داری
ہم نے لینا شروع کر دی ۔ اس واقعہ کے بعد ہماری وفاداری اور غرداری کے
پیمانے بدل گئے ۔ کل کے مجاہد ین آ کے دہشت گرد اور مزاحمت کارقرار پائے ۔
کل کے غدارآجے کے محب وطن بن گئے اور کل کے رہزن آج کے رہبر بن گئے ۔ کل کے
یہود نصاریٰ آج کے فرینڈز آف پاکستان بن گئے ۔ہمارے شاہین کرگس سے مل گئے
ہم نے خرم کوچھوڑکرنیویارک اور واشنگٹن کوقبلہ بنالیا۔ اک سجدے کے سفرکو
چھوڑ کر ہم نے ہزاروں میل کے سفر کوترجیح دی ۔ یکمشت خیرات کی جگہ قسطوں
میں بھیک ملنے گی۔ اسلامی نصاب پر سودابازی ہوئی‘ مجاہدین کے سروں کی
قیمتیں لاکھوں ڈالروں میں لگیں کبھی ہم نے لال مسجد کو واقعی لال کیاتو
کبھی اللہ کا قرآن پڑھنے والوں پر بارود کی بارش ۔ آج ہماری لچکدار اور
ہچکیاں لیتی ہوئی خارجہ پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ وطن پاک میں عجب موت کی
ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ آج مرنے والا بھی شہید اور مارنے والا بھی شہید ۔
مارنے والے کو معلوم نہیں کہ مرکون رہاہے اور مرنے والے کوبھی معلوم نہیں
کہ وہ کس جرم کی پاداش میں مر رہا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم غیروں کی جنگ
میں کودپڑے اور پھر ہونا یہی تھا ۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے
افسوس تو اس پات کاہے کہ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں ۔ اگر رحمن ملک
صاحب کچھ پوچھا جائے توان کی ہر بات کا مفہوم یہی نکلتاہے ۔
خبر ہے مجھے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی شامل جرم نہ ہوتا تو مخبری کرتا ۔
سوال یہ ہے کہ ارض پاک پر ڈرون حملے کس کی ایماء پر ہو رہے ہیں ؟ بلیک واٹر
کی گتھی کون سلجھائے گا؟ آ ج ہماری تقدیر کے فیصلے در پردہ اور پس پردہ
قوتیں کررہی ہیں جو پاکستان کو افغانستان کی صورت میں دیکھنا چاہتی ہیں ۔پس
چلمن یہ بہت بڑے ڈرامہ نگار اور کھلاڑی ہمارے سیاسی ، معاشی ،معاشرتی اور
تعلیمی نظام پر بتدریج اپنے شکنجے مضبوط کر رہے ہیں ۔ خارجی عوامل کی یہ
سرایت ایسے منظم انداز میں ہو رہی ہے کہ ہماری خودی انا ، خوداری کوبھی
بظاہر ٹھیس پہنچے اور ہم کھوکھلے بھی ہوجائیں ۔
آج اگر ہم غیروں کی بیساکھیوں پر چلنے والی معذور معشیت کا شکارنہ ہوتے تو
ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی دختران ملت کے ساتھ ایسا غیر ر شرعی اور غیر انسانی
سلوک کبھی بھی برداشت نہ کرتے ۔ محمد بن قاسم آج بھی زندہ ہے مگر ہم تو اسے
گرفتار کرنے کے لئے کبھی قبائلی علاقوں میں کاروائیاں کرہے ہیں کبھی سوات
میں ۔ ابوغریب اور گوانتانا موبے جیسے بدمعاشی کے اڈے چلانے والے امریکہ کو
کشمیر میں اس لئے دہشت گردی نظر نہیں آتی کہ وہاں اسکا پالتو بھارت ملوث ہے
۔ فلسطین میں قتل عام پر امریکہ کی آنکھیں اس سے چندھیا جاتی ہیں کیونکہ
وہاں اس کی اشیربادسے اسرائیل کا روائیاں کررہاہے ۔
آج ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کوتشکیل دینے والے عناصر کو یکجاکرنا ہوگا ۔
مارشل لاء کے سائے میں پروان چڑھتی پارلیمنٹ کو اپنی بالاسستی تسلیم کروانا
پڑے گی ۔ صدر ، آرمی چیف اور وزیر اعظم کواپنے اختیارات اور حدوں کا تعین
کرنا ہوگا۔ سیاسی پریشر گروپس کو ملکی وقار پر ہوتی ہوئی کسی سودابازی پر
خاموش تماشائی بننے کی بجائے قومی امنگوں کا ترجمان بننا ہوگا۔ اگر غیروں
کے سامنے پھیلائی ہوئی چھولی کے چھیددر احساس پہ دستک دیں اور ہم صبر کے
بند کواڑوں میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا باڈی سکینگ کے نام پر
ایئر پوٹس پراسلام اوراخلاقیات پر کاری ضرب لگائی جارہی ہے کیونکہ محکوم
اور مقروض قوموں کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے ۔ ڈونرکا نفرنس
ہویا کوئی جندہ مہم ،کیری لوگر بل ہو یا کولن پاول فارمولاارض پاک کے
درودیوارہل جاتے ہیں ۔ مجھے ڈرہے کہ اگر ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کو ٹھوس
بنیادوں پر استوارنہ کیا تو ہمیں ہم امریکہ کی ایک ریاست نہ بن جائیں ۔ وطن
کو گروی رکھنے والے یہ یاد رکھیں ۔
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ تیرے جسم تیری روح سے عبارت ہے |
|