جنت البقیع میں چند لمحات
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
(مدینہ منورہ کا متبرک، مقدس اور
تاریخی قبرستان)
مکہ المکرمہ کے بعد مدینہ منورہ کو جو اعلیٰ مقامِ، عظمت و مقدس حیثیت حاصل
ہے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ صحیح مسلم کی حدیث حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ
سے مروی ہے رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا’حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کو ’حرم‘ ہونے
کا اعلان کیا تھا اور میں مدینہ کے ’حرم ‘ قراردئیے جانے کا اعلان کرتا ہوں،
اس کے دونوں طرف کے دروں کے درمیان پورا رقبہ واجب الا احترام ہے‘۔ جس
سرزمین کے حرم یعنی مقدس ہونے کا اعلان ہمارے نبی نے کیا ہو وہ ہر مسلمان
کے لیے ، اس سرزمین کا چپہ چپہ مقدس ،توقیر و حُرمت والا ہے۔ حج کے لازمی
فرائض میں تمام ارکان کی ادائیگی مکہ المکرمہ میں ہی انجام پاتی ہے لیکن ہر
ہر حاجی، ہر ہر عمرہ کی سعادت حاصل کرنے والا مکہ میں فرائض کی ادئیگی کے
بعد مدینہ منورہ میں اپنے قیام ، عبادات اور وہاں کے مقدس مقاما ت کی زیارت
کو اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتا ہے۔ مدینہ کی سرزمین میں، وہاں کی فضاؤں
میں،وہاں کی ہواؤں میں جو لطف ہے، ٹھنڈک ہے ، بھینی بھینی خوشبو ہے،جو کشش
ہے وہ دنیا میں کسی اور جگہ موجود نہیں۔ہر مسلمان کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے
کہ اسے زندگی میں ایک بار مدینہ جانا نصیب ہوجائے، روضہ رسولﷺ کی وہ زیارت
کر لے اور سلام عقیدت پیش کردے۔ حتیٰ کہ یہ خواہش بھی ہر ایک مسلمان کے دل
میں ہوتی ہے کہ اس کی زندگی کا خاتمہ بالخیر مدینہ میں ہوجائے اور اسے
مدینہ کے مقدس و عظمت والے قبرستان ’جنت البقیع‘ میں دو گز جگہ نصیب ہو جا
ئے ۔ لیکن یہ سعادت و نصیب کی بات ہے۔ اس کا اختیار پرور دگار نے اپنے پاس
رکھا ہے کہ کس نے کب اس دنیا میں آناہے اور کب اور کس جگہ لوٹ کر جانا ہے۔
کہتے ہیں کہ جس مٹی سے انسان کی تشکیل ہوتی ہے وہ مرنے کے بعد واپس اسی
مقام پر چلی جاتی ہے۔میرے جدِ امجدمحمدابراہیم آزادؔکی نعت کاایک شعر
آزادؔ نہیں اور تمنا کوئی دل میں
روضے کا ہے ارماں مدینے کی تمنا
الباقی کے معنی ہے’ درختوں کا باغ‘، یہ جنت الباقی کے نام سے جانا جاتا ہے
۔اس کا اصل نام ’بقیع الغرقد‘ ہے‘ غرقد عربی میں جھاڑیوں کی زمین کو کہتے
ہیں۔ ’جنت البقیع‘ کی عظمت و تعظیم کا کیا کہنا۔بقیع رسول ِاکرم ﷺ کے زمانے
سے اب تک مدینہ کا قبرستا ہے۔جہاں پر ہمارے پیارے نبی کے خاندان کے بے شمار
لوگ ابدی نیند سو رہے ہیں۔ یہ تو وہ مقدس زمین ہے جہاں پر آپ ﷺ نے اپنے
ہاتھوں سے اپنے لخت جگر ’ابرہیم ؓ کو کم سنی میں انتقال کرگئے تھے اس مٹی
کے سپرد کیا تھا، یہ وہ مقدس زمین ہے کہ جس میں آپ ﷺ کی ماسوائے حضرت خدیجہ
ؓ کے تمام ازواجِ مطہرات اپنی اپنی قبروں میں آرام فرما ہیں۔ حضرت خدیجہ ؓ
مکہ کے جنت المعلیٰ قبرستان میں آرام فرما ہیں۔یہ تو وہ قبرستان ہے کہ جس
میں آپ ﷺ کی چھیتی بیٹی حضرت سیدہ فاطمہ زہرہ ؓ کی قبر اطہر ہے، آپ ؑ کی
پھو پھیاں حضرت حفصہ، حضرت عاتکہ، فاطمہ بنت الا اسد، چچا حضرت عباس ابن
عبد المطلبؓ ،حضرت علی ؓکی والدہ ماجدہ، حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ، حضرت سعد بن
ابی وقاصؓ، حضرت ابو سعید خدریؓ، حضرت نافع مولی عمر اور حضرت امام مالک ،
یہاں مدفن ہیں، ہمارے نبی کے ہر دل عزیز نواسے حضرت امام حسن ؓ اسی مقدس
زمین میں آرام فرما ہیں، یہاں خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی ؓ کی قبرِ مبارک ہے
، حضرت سجادؓ ، حضرت امام جعفر صادق ؓ ، امام علی ابن الحسین ؓ،امام محمد
ابن علی ؓ کے علاوہ مسلم اسکالر ملک ابن انس بھی اسی قبرستان میں آرام فرما
ں ہیں۔ان کے علاوہ اس قبرستان میں ہزاروں صحابہ اکرم ، تابعین، تبع تابعین
، صلحاء، علماء، ائمہ کرام اس قبرستان میں محوِخواب ہیں۔ مدینہ پہنچ کر
روضہ ٔ رسول ﷺ پر سلام پیش کرنے، مسجد نبوی میں نماز کی ادائیگی ، مسجد قبا
ء میں نفل کی ادائیگی کے بعد یہاں آنے والے ہر مسلمان کی خواہش جنت البقیع
میں حاضری اور وہاں کے اہل قبور کو سلام عقیدت پیش کرنا اور ان کی مغفرت کی
دعا کرنا ہوتا ہے۔
قبرستان جانا اور اہل قبور کے لیے دعائے مغفرت کرنا احادیث مبارکہ سے ثابت
ہے۔ ہمارے بنی حضرت محمد ﷺ از خود اسی جنت البقیع میں حاضر ہوتے ۔ ام
المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے ، آپ فرماتی ہیں کہ
شَعَبان المعظّم کی پندھرویں شب تھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی باری
میرے ہاں (آرام فرمانے کی) تھی کہ اچانک میں نیند سے بیدار ہوئی ۔ آپ صلی
اﷲ علیہ و سلم کو اپنے ہاں نہ پایا تومیں آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کی تلاش میں
نکل کھڑی ہوئی، میں نے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کو جنّت البقیع میں پایا۔ حضور
صلی اﷲ علیہ و سلم نے ( ان کی آمد کو محسوس کرکے) فرمایا ’کیا تمہیں اس بات
کا خدشہ تھا کہ اﷲ اور اس کا رسول صلی اﷲ علیہ و سلم تمہارے ساتھ زیادتی
کریں گے‘۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اﷲ ! میں نے(بشری تقاضے کے تحت) یہ
سمجھا کہ شاید آپ کسی اور زوجۂ مطہرہ کے حجرۂ انور میں تشریف لے گئے ہوں۔
اﷲ کے بنی صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا ’’اﷲ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو
آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی
تعداد سے بھی زیادہ اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے‘‘۔ اس حدیث
مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شعبان کی نصف شب کو مدینہ منورہ کے قبرستان
’جنت البقیع ‘ میں جانا آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کا عمل تھا ۔ گویا اس رات
بطور خاص قبرستان جانا سنت نبویﷺ ہے البتہ خواتین کو قبرستان جانے سے منع
کیا گیا ہے ۔
’معارف الحدیث‘ میں ہے کہ قبر میں موجود مردے کے لیے افضل تحفہ استغفار ہے۔
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
’قبر میں مدفون مُردے کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جو دریا میں ڈوب رہا
ہواور مدد کے لیے چیخ پکار کر رہا ہو۔ وہ بیچارہ انتظا ر کرتا ہے کہ ماں یا
باپ، بھائی یا کسی دوست آشنا کی طرف سے دعائے مغفرت کا تحفہ اسے پہنچے ۔ جب
کسی طرف سے اسے کو ئی دعا کا تحفہ پہنچتا ہے تو وہ وہ اس کو دنیا و مافہا
سے زیادہ عزیز و محبوب ہوتا ہے اور دنیا میں بسنے والوں کی دعاؤں کی وجہ سے
قبر کے مُردوں کو اتنا عظیم ثواب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے جس کی مثال
پہاڑوں سے دی سکتی ہے۔ اور مُردوں کے لیے زندوں کا خاص ہدیہ ان کے لیے
دعائے مغفرت ہے ‘ ۔سنن ابن ماجہ کی حدیث ہے، حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ
عنہ اس کے راوی ہیں۔فرمایا رسول اﷲ ﷺ نے ’’میں نے تم کو زیارت قبور سے منع
کردیاتھا (اب اجازت دیتا ہوں کہ ) تم قبروں کی زیارت کر لیا کرو، کیونکہ
(اس کا یہ فائدہ ہے کہ) اس سے دنیا کی بے رغبتی اور آخرت کی یاد اور فکر
پیدا ہوتی ہے‘‘۔ اس حدیث کی تشریح معارف الحدیث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ
’شروع شروع میں جب تک کہ توحید پوری طرح مسلمانوں کے دلوں میں راسخ نہیں
ہوئی تھی اور انہیں شرک اور جاہلیت سے نکلے ہوئے تھوڑاہی زمانہ ہوا تھا ،
رسول اﷲ ﷺ نے قبروں پر جانے سے منع کر دیا تھا ، کیونکہ اس سے ان لوگوں کے
شرک اور قبرپرستی میں ملوث ہوجانے کا خطرہ تھا۔ پھر جب امت کا توحیدی مزاج
پختہ ہوگیا ، اور ہر قسم کے جلی خفی شرک سے دلوں میں نفرت بھر گئی اور
قبروں پر جانے کی اجازت دے دی اور یہ بھی واضح فرما دیا کہ یہ اجازت اس لیے
دی جارہی ہے کہ وہ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی یاد اور فکر دلوں میں پیدا
ہونے کا ذریعہ ہے۔ علامہ مولانا محمد منظور نعمانی ؒ اس حوالے سے مزید
لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے شریعت کا یہ بنیادی اصول معلوم ہوا کہ اگر کسی کام
میں خیر اور نفع کا کوئی پہلو ہے اور اسی کے ساتھ کسی بڑے ضرر کا بھی
اندیشہ ہے تو اس اندیشہ کی وجہ سے خیر کے پہلو سے صر ف نظر کرکے اس کی
ممانعت کردی جائے گی ، لیکن اگر کسی وقت حالات میں ایسی تبدیلی ہو کہ ضرر
کا اندیشہ باقی نہ رہے تو پھر اس کی اجازت دے دی جائے گی‘۔جامع ترمذی کی
حدیث جس کے راوی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ ہیں ’ایک مرتبہ رسول اﷲ ﷺ
کا گزر مدینہ ہی میں چند قبروں پر ہوا، ‘آپﷺ نے ان کی طرف رخ کیا اور
فرمایا’’السلام علیکم یا اھل القبور‘(سلام ہوتم پر اے قبر والو! اﷲ تعالیٰ
ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم ہم سے آگے جانے والے ہو اور ہم پیچھے
پیچھے آرہے ہیں‘۔
یکم مئی 2015جمعہ کے دن نماز جمعہ جدہ میں ادا کرنے کے بعد ہم مدینہ منورہ
کے لیے روانہ ہوئے۔ میرے بیٹے کی اپنی گاڑی تھی ، ہم سفروں میں عدیل کے
علاوہ شہناز(میری شریک حیات)، بڑے بیٹے عدیل کی بیگم ،میری بڑی بہو مہوش
عدیل، بڑا پوتا صائم اور آٹھ ماہ کی میری پوتی حبیبہ شامل تھے۔ اس بار عدیل
کے پاس جیپ نما کار ٹویو ٹا فارچیونر(Fortuner) تھی۔ سعودیوں میں بڑی سے
بڑی گاڑی رکھنے کا شوق پایا جاتا ہے۔ وہاں رہنے والے غیر سعودی بھی سعودیوں
کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ بھی بڑی سے بڑی گاڑی کی خواہش
پوری کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ ایک تو پیٹرل کا سستا ہونا ہے دوسرے یہاں کے
رہنے والے لانگ ڈرائیو زیادہ کرتے ہیں۔خاص طور پر مکہ اور مدینہ سے دور کے
شہروں میں رہنے والوں کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ مکہ اور مدینہ کا رخ کرتے
ہیں۔ یہاں بائی روڈ سفر کو فوقیت دی جاتی ہے۔ ہائی وے پر 120 فی گھنٹہ گاڑی
چلانے کی اجازت ہے۔ اس سے اوپر رفتار جوں ہی ہوتی ہے ایک تو گاڑیوں میں
الارم بجنے لگتا ہے دوسرے سڑک کے کنارے جگہ جگہ خفیہ کیمرے نصب ہیں ۔ جو
گاڑی مقررہ رفتار سے زیادہ رفتار اختیار کرتی ہے خفیہ کیمرہ اس کی تصور اور
رفتار کو نوٹ کر لیتا ہے اور گاڑی کے مالک کو اس کے موبائل پر چالان جسے
عربی میں ’ گراما‘ کہا جاتا ہے آجاتا ہے۔ اس ڈر اور خوف سے ہائی وے پر گاڑی
چلانے والے مقررہ رفتار کے اندر اندر ہی رکھتے ہیں۔ جو لوگ ان راستوں پر
آتے جاتے رہتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ کہاں کہاں کیمرے لگے ہیں وہ اس جگہ
اپنی گاڑی کی رفتار مقررہ رفتار میں رکھتے ہیں اور پھر اپنی رفتار 150حتیٰ
کے 180تک لے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں ہائی وے پر روڈ ایکسی
ڈینٹ کا مطلب عام طور پر زندگی کا اختتام تصور کیا جاتا ہے۔ کوئی قسمت
والاہی زندہ بچ جاتا ہے۔ خیر بات میں اپنے سفر کی کررہا تھا ۔ جدہ سے جمعہ
کی نماز ادا کر کے نکلے راستے میں عصر پڑھی اور مغرب کی اذان مدینہ منورہ
کی مسجد نبوی کی سنی۔ اپنی خوش قسمتی پر ناز کررہا تھا۔ اﷲ کا شکر ادا کرتے
ہوئے مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔ جمیل نقوی کی ایک نعتِ رسول ﷺ کا ایک شعر
اﷲ اﷲ مدینہ کی فضا کا منظر
نُور ہی نُو ر ہے نکہت بھری رعنائی ہے
مسجد نبوی کے نذدیک ہی ہوٹل تھا، سامان کمرہ میں رکھ کر میں اپنے پوتے صائم
کے ساتھ مسجد نبوی چلا گیا اور روضہ ٔ مبارک پر حاضری دی، سلام عرض کیا، اﷲ
کا شکر ادا کیا وہ مجھے گزشتہ چار سال سے بار بار مقدس سرزمین پرآنے کی
سعادت عطا کررہا ہے۔ میں مئی 2011میں پہلی بار سعودی عرب آیاتھا ۔ چار
سالوں میں مَیں وقفے وقفے سے یہاں آتا رہا ہوں ۔ مئی 2015میں مجھے پانچویں
بار سعودی عرب اور مدینہ منورہ میں تیسری حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔اﷲ کا
لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے، یقینا بلاوے کی بات ہے اس پر جس قدر فخر کروں
کم ہے۔ میری ہی ایک نعت کے دو اشعار
بلاوے پہ نبیؐ کے میں مدینے آگیا ہوں
خوش ہوں زندگی میں یہ مرتبہ پا گیا ہوں
کہاں میں بے کس و بے نوا کہا ں میرا نصیب
مدینہ کی فضاء میں شفاء پا گیا ہوں
مدینہ منورہ کے بارے میں حضرت محمد ﷺ نے دعا فرمائی صحیح بخاری کی حدیث ہے
’’آپ ﷺ نے فرمایا’’ اے اﷲ! جس طرح مکہ مکرمہ کی محبت ہمارے دلوں میں ہے اسی
طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ محبت مدینہ منورہ کی ہمارے دلوں میں ڈال دے اور
آپﷺ نے دعا فرمائی کہ مولا! جوبرکتیں تونے مکہ المکرمہ میں رکھی ہیں ان میں
چارگناہ اضافہ کے ساتھ مدینہ منورہ میں رکھ دے ‘‘۔ مسند امام احمد میں
حدیثِ مبارکہ ہے ۔ فرمایا آنحضرت محمد ﷺ نے کہ ’’جو شخص میری مسجد میں
چالیس نمازیں ادا کرے اور اس سے کوئی نماز نہ چھوٹی ہو تو اس کے لیے دوزخ
اور عذاب سے خلاصی لکھ دی گئی اور وہ نفاق سے محفوظ و بری ہوگیا‘‘۔
میری خوش نصیبی تھی کہ میں گزشتہ برس جنوری 2014میں ایک ہفتہ مدینہ میں رہا
اور پیر2 1 ربیع الا ول1435ھ مطابق 13 جنوری 2014کی تمام شب روضۂ رسول ﷺ کے
سامنے گزاری۔ اس بار تین روز کے لیے مدینہ آناہوا کیونکہ ہمارا مکمل قیام
صرف ایک ماہ کے لیے تھا۔
اتوار3مئی 2015) میری زندگی کا خوش نصیب دن تھا جسے میں کبھی بھلا نہ سکوں
گا۔ مِیں گزشتہ دو روز سے مدینہ میں تھا آج جدہ واپسی تھی۔ میں صبح تین بجے
مسجد نبوی چلاگیا، رسول اﷲ ﷺ کے روضہ مبارک پر حاضری دی اور سلام عرض کیا،
اس وقت لوگ کچھ کم تھے جس وجہ سے مجھے ریاض الجنہ میں آسانی سے جگہ مل گئی،
دو رکعت نفل ادا کی ، استغفار اور دعائیں کیں، اپنے لیے بھی ، اوروں کے لیے
بھی ، نماز کے بعد جب بھی بائیں جانب سلام پھیرتا تو روضہ رسول ﷺ نظروں کے
سامنے ہوتا، اسی جگہ بیٹھے بیٹھے تہجد کی اذان ہوگئی، تہجد پڑھی اور یہی
ٹکا رہا، اذان ِفجرہوگئی ، فجر کی جماعت میں شریک رہا، بعد میں کسی خوش
نصیب کی نماز جنازہ بھی اسی مقدس مقام پر ہی پڑھی ۔ نصیب اور سعادت کی بات
ہے۔ میری قسمت میں یہ سعادت لکھی تھی سو مجھے ملی۔ایک حدیث مبارکہ زیارت
روضہ اطہر کے حوالہ سے یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس
نے میرے روضہ اطہر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوچکی ہے‘‘۔
’ریاض الجنہ ‘ اﷲ نے جنت کا ٹکڑا مسجد نبویﷺ میں اتارا ہے یہاں نفل پڑھنا
ایسے ہے جیسے جنت میں نفل پڑھے۔ صحیح مسلم و بخاری کی حدیث ہے جس کے راوی
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ ہیں فرمایا رسول ﷺ نے ’میرے منبر کے درمیان کی
جگہ جنگ کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے ، اور میر منبر میرے حوض کوثر پر
ہے‘۔ جب پہلی بار مدینہ منورہ گیا اور مسجد نبویﷺ اور روضہ مبارک پر حاضری
ہوئی ، سلام پیش کیا اور اس وقت بھی ریاض الجنہ میں نفل پڑھنے کی سعادت
نصیب ہوئی تو میں نے ایک نعت نبوی ﷺ کہی اس کا صرف ایک شعر ریاض الجنہ کے
حوالے سے یہ ہے
تھی تمنا ریاض الجنہ میں ہو ایک سجدہ نصیب
جبیں کو جنت میں جھکا نے کا اعزاز پا گیا ہوں
اب مَیں نے جنت البقیع کا رخ کیا ۔ مدینہ کا یہ قبرستان روضہ مبارک ﷺ کے
مشرق کی جانب ہے، قبرستان کے گرد سیمنٹ کی پکی دیوار کچھ سرخی مائل بنادی
گئی ہے۔ جنت المعلیٰ میں تو چاروں جانب جالی کی دیوار ہے کہ باہر ہی سے
اندرکی صورت حال نظر آجاتی ہے لیکن یہاں بقیع میں باہر سے اندر کی جانب کچھ
دیکھا نہیں جاسکتا۔ مسجد نبوی کے صحن کی دیوار اور قبرستان کی دیوان کے
درمیان چوڑی صاف ستھری جگہ ہے یعنی مسجد بنویﷺ کا گیٹ اور بقیع کا مرکزی
دروازہ آمنے سامنے ہے۔ اس کھلی جگہ میں نماز کے اختتام پر کچھ وقت کے لیے
بازار لگ جاتا ہے، بیچنے والے جن میں برقعہ پوش کالی عورتیں بھی شامل ہوتی
ہے چلا چلا کر لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے ہوتے ہیں۔آوازیں کچھ اس طرح
کی ہوتی ہیں ’پانچ ریال ریال‘، مدینہ مدینہ پانچ ریال پانچ ریال، یا دو
ریال دو ریال‘ کوئی چیز دو یا پانچ ریال سے کم کی نہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ
بہت سستی چیز مل رہی ہے اس لیے ان کے گرد جمع رہتے ہیں۔یہ پاکستان کے جمعہ
بازار اور اتوار بازار کا سما ہوتا ہے۔ جنت البقیع میں ہر وقت جانے کی
اجازت نہیں صرف عصر کی نماز کے بعد کچھ دیر کے لیے اور فجر کی نماز کے بعد
زائیرین کو اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔وہ بھی مختصر وقت کے لیے۔ خواتین تو
بالکل ہی اندر نہیں جاسکتیں۔ مجھے اس بات کا علم تھا ، کل ہی عصر کے نماز
کے بعد کچھ لیٹ ہوگیا تھا چنانچہ گیٹ بند کردیا گیا تھا، باوجود اس کے کہ
مغرب میں ابھی بہت دیر تھی، بہت سے کام سعودی اہل کاروں کی مرضی اور موڈ سے
انجام پاتے ہیں ان میں کوئی شرعی، قانونی یا اخلاقی منطق دکھائی نہیں دیتی۔
چنانچہ میں فجر کی نمازاور نماز جنازہ پڑھنے کے بعد تیزی سے بقیع جانب
روانہ ہوگیا۔دروازہ کھل چکا تھا ۔ لوگ جوق در جوق بقیع جارہے تھے، میں بھی
ان میں شامل ہوگیا، تمام اہل قبور کو سلام عرض کیا،بقیع کے اس دروازے سے
سیڑھیاں اوپر کی جانب جارہی ہیں۔ یہاں بھی آہنی گیٹ لگے ہیں۔یہ مرکزی
دروازے اندر جانے اورساتھ ہی واپس آنے کے ہیں۔ قبرستان میں سیکیوریٹی گارڈ
(شرتے) اور سعودی لباس میں اہلکار جگہ جگہ موجود نظر آتے ہیں۔ جہاں بھی کسی
کو ہاتھ اٹھائے دیکھا ،حرام حرام کی سدا بلند کرتے نظر آتے ہیں۔کوئی کوئی
سعودی مولوی قبروں کے بارے میں کچھ تبلیغ کرتا بھی نظر آتاہے ۔ وہ عربی میں
بول رہا ہوتا ہے اس لیے نہیں معلوم کیا کہتا ہے۔یقینا وہ یہ تبلیغ کررہا
ہوتا ہے کہ یہ قبریں بے معنی ہے ، ان پر حاضری سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، خیر
یہ عقیدے کی بات ہے ، اسے یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ مرکزی دروازے سے جیسے ہی
اندر جائیں تو بائیں جانب شروع ہی میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی قبر اطہر ہے
لیکن اس قبر کے نذدیک جانے نہیں دیا جاتا، لوگ دور ہی سے سلام عرض کرتے
ہیں، آگے بڑھیں تو دائیں طرف چھوٹی چھوٹی بوسیدہ پتھروں کی دیواروں کے اندر
قبریں حضرت فاظمہ الزہرہؓ، حضرت امام حسین ؓ، اور دیگر سات ام المومنات ؓکی
قبور مبارک ہیں اور آگے بڑھیں تو ایک اور چھوٹی سی چاردیواری جو انتہائی
بوسیدہ ، کالے رنگ کے پتھر ، قبر کا سائز کیونکہ چھوٹا ہے اس لیے یہ بات
یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ قبر نبی اکرم ﷺ کے فرزند حضرت ابرہیم ؓ نے
جنہوں نے حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے جنم لیا اور کم سنی میں ہی اﷲ کو
پیارے ہوئے کی قبر اطہر ہے، حضرت ابرہیم ؓ کو تو حضور ﷺ نے اپنے ہاتھوں ہی
یہاں قبر میں اتارا تھا ۔ اس جگہ تو حضور کے قدم مبارک پڑے ہوں گے، اس بڑی
ہماری خوش قسمتی اورکیا ہوگی کہ اس وقت میں اُسی جگہ موجود ہوں، میں بیٹھنے
کے لیے کرسی اپنے ساتھ قبرستان میں لے گیا تھا اس لیے بہت دیر تک کرسی پر
اطمینان سے قبر کے نذدیک ہی بیٹھا رہا، اورحضرت ابرہیم ؓ کی تدفین کی منظر
کشی کرتا رہا۔اپنی قسمت پر رشک کرتا رہا۔ قبرستان میں آگے کی جانب بڑھتے
جائیں تو وسط سے بھی کچھ آگے حضرت عثمان غنی ؓ کی قبر مبارک ہے جو اسی طرح
بوسیدہ سی چھوٹی چار دیواری کے اندر موجود ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت
عثمان ِ غنی ؓ کی جنت البقیع میں تدفین کی مخالفت کی گئی تھی اس لیے انہیں
ان کے اپنے گھرکے احاطے میں ہی دفن کر دیاگیا تھا ۔ بعد میں ان کا گھر اور
قبر مبارک بقیع کا حصہ بن گئی۔ یہ قبرستان اس وقت ایک سے دو میل کے درمیان
لمبا ہوگا۔ تمام اہل بیت و دیگر خاص احباب کی قبور مبارکہ حضرت عثمان ؓ کی
قبر مبارک تک ہیں اس کے بعد کی قبریں بعد کی ہیں۔ تدفین تو اب بھی بقیع میں
ہوتی ہے۔ گزشتہ برس جب میں اسی طرح فجر کے بعد بقیع میں موجود تھا دیکھا کہ
قبرستان کے آگے کی جانب کنارے پر ایک گاڑی کھڑی ہے اور ا س میں سے ہری رنگ
میں لپٹا کسی کا جسد خاکی نکالا جارہاہے۔ مشکل سے چاریا پانچ افراد ہوں گے۔
زائیرین نے جو ں ہی انہیں دیکھا اس جانب دوڑپڑے۔ میں نے بھی اس جانب چلنے
کی کوشش کی لیکن میرے وہاں پہنچنے سے قبل ہی تدفین عمل میں آچکی تھی۔ مکہ
میں بھی میں نے یہ دیکھا کہ کفن تو نہیں معلوم سفید ہوتا ہے یا نہیں لیکن
مردہ ہرے رنگ کی چادر میں لپٹا ہوتا ہے۔1925 سے قبل یہاں جنت البقیع میں
کئی قبروں پر مقبرے تعمیر تھے سعودی حکرانوں نے اپنے عقیدے پر عمل کرتے
ہوئے تمام مقبروں کو منہدم کردیا۔ بعض توکہتے ہیں کہ ٹریکٹر چلادیا گیا۔اس
حوالے سے معروف سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے اپنے حج کے سفر نامنے
’مُنہ وَل کعبے شریف‘کے صفحہ 277پر لکھا ہے کہ ’ترکوں نے ، بے شک وہ ایک
جابر اور قابض قوت تھے لیکن انہوں نے تحقیق اور جستجو سے حیات محمد ؑ کی
نشاندہی کی․․تاکہ تاریخ محفوظ ہوجائے یہ ان کا دستور تھا․․اور آل سعود کا
دستور یہ ہے کہ وہ ہر ایسے عمل کو بدعت اور شرک گردانتے ہیں۔۔تاریخ کو
محفوظ کرنے کو وہ کفر سمجھتے ہیں، اس لیے جو کچھ ترکوں نے تعمیرکیا، انہوں
نے ڈھا دیا․․مٹا دیا․․ان کے نذدیک خانہ کعبہ کے سوا ہر عمارت شرک اور بدعت
ہے اور میں نہیں جانتا کہ اس میں کہاں تک سچائی ہے کہ وہ روضۂ رسول ؑ کو
بھی برداشت نہ کرتے تھے اور اسے مسمار کرنے کے بھی درپے تھے․․ شاید یہ افوہ
ہو، مخالف عقیدے کے لوگوں کا الزام ہو․․ میں نہیں جانتا‘۔ مستنصر صاحب کی
بات میں وزن ہے، منطق ہے، سچائی ہے، خلوص ہے، عقیدت ہے۔ اور کئی مصنفین اس
قسم کی باتیں اپنے سفر ناموں میں ، تاریک کی کتابوں میں لکھ چکے ہیں۔
اس وقت جنت البقیع میں جو صاف ستھرے ، کشادہ راستے بنے ہوئے ہیں نہیں معلوم
کے ان راستوں کے نیچے یا جس وقت ہم یہاں کھڑے ہیں ہمارے پاؤں تلے کن کن
قابل احترام شخصیات کی قبریں ہوں گی۔ اﷲ معاف کرے۔ اس قبرستان میں داخل
ہوتے وقت دل لرزجاتا ہے۔ بعض بعض تو قبرستان میں ننگے پیر ہوتے ہیں، وہ
اپنے جوتے باہر ہی اتار کر آتے ہیں۔ ایسے لوگ سعودی ہرگز نہیں ہوتے، دیکھنے
میں پاکستان ، ہندوستان، بنگلہ دیش یا ایران سے تعلق لگتا ہے۔ سعودیوں کے
لیے یہ عام سی بات ہے لیکن فقہ حنفی میں کسی بھی قبر کی بے حرمتی کا کوئی
سوچ بھی نہیں سکتا۔ کسی بھی قبر پر کتبہ نہیں ، اس بات کی واضح نشان دھی
نہیں ہوتی کہ قبر کس کی ہے۔ جن جن کی قبروں کا علم تھا خاص طور پر حضرت
عائشہ صدیقہ ؓ، حضرت عثمان ؓ، حضور ﷺ کے ننھے صاحبزادے ابراہیم ؓ ،حضرت
فاطمہ ؓ ، امام حسنؓ اور دیگر کی قبروں پر کچھ دیر قیام کیا اور فاتحہ پڑھی
، تمام قبریں بے نام و نشان ہیں۔ اکثر لوگوں کے پاس کچھ نقشے ہوتے ہیں جن
پر اہل قبور کی قبروں کی نشاندھی کی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ نشانیاں سینہ بہ سینہ
چلی آرہی ہیں لوگ انہیں پر صبر شکر کرکے دعاؤں کا نذررانہ پیش کردیتے ہیں۔
سعودیوں کے اس عقیدے سے بے شمار مسلمانوں کے دل دکھتے ہیں،ان کا دل خون کے
آنسو روتا ہے جب وہ عظیم ہستیوں کی قبروں کو کھنڈر کی صورت میں دیکھتے
ہیں۔اﷲکو اس مخلوق میں یقینا کچھ اچھا نظر آیا ہوگا تب ہی تو انہیں یہ
سعادت نصیب ہوئی کہ وہ مکہ و مدینہ اور یہاں کے ہر چیز کے مالک و مختار
ہیں۔ لیکن انہیں یہ سعادت نصیب نہیں ہوتی کہ ان کے اکابرین مکہ میں جنت
المعلیٰ میں یا مدینہ میں جنت البقیع میں جگہ پاسکیں، شاہی قبرستان ریاض
میں ہے ، ریاض شہر سعودی عرب کا مرکزی شہر ضرور ہے لیکن اسے وہ مقام و
مرتبہ حاصل نہیں جو مکہ، مدینہ، طائف کو حاصل ہے۔ ان کا قبرستان ریاض میں
ہے ۔ شاہی خاندان کے تمام لوگ ریاض ہی میں دفن کیے جاتے ہیں حالانکہ ان کے
لیے ان دونوں قبرستانوں میں جگہ پانا مشکل نہیں لیکن نصیب و مقدر کی بات
ہے۔ خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ کی خواہش تھی کہ انہیں مدینہ میں جگہ ملے اس
حوالے سے متعدد احادیث اور واقعات تاریخ کا حصہ ہیں ، بظاہر ایسا ممکن نظر
نہیں آتا تھا، بعض احباب نے حضرت عمر ؓ سے کہا بھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ
آپ کو شہادت کا مرتبہ بھی ملے اورآپ مدینہ میں بھی دفن ہوں، حضرت عمر ؓ کا
ایمان سچا تھا، اﷲ نے ان کی خواہش پوری کی، ان ہونی ، ہونی میں تبدیل
ہوگئی،جب حضرت عمر مدینہ میں تھے تو ابو لوء لو نے مسجد بنویﷺ کے محراب میں
آپ کو زخمی کردیااور آپ شہادت کے مرتبہ فائز ہوئے اور آپ کی تدفین مدینہ ہی
میں بلکہ آنحضرت محمد ﷺ کے ساتھ ایک ہی ہجرے میں عمل ہوئی۔مولانا محمد عبد
المعبود نے اپنی کتاب ’تاریخ مدینہ منورہ‘ میں لکھا ہے کہ’تاجدار مدینہ
رسول اکرم ﷺ نے فرمایاکہ’قیامت کے دن جنت البقیع سے ستر ہزار افراد اٹھیں
گے۔ جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے اور وہ خوش نصیب
بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے‘۔سید ناابی بن کعب ؓ بیان کرتے
ہیں کہ سید عالم ﷺ نے فرمایا کہ ’جو آدمی ہمارے اس قبرستان میں دفن ہوا۔ تو
میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دون گا‘۔(21،مئی 2015) |
|