پاکستان میں فسٹیولا کی شکار
خواتین کی تعداد50ہزار سے ایک لاکھ تک جا پہنچی ۔۔۔۔!!
بدقسمتی سے ہر سال 5ہزار خواتین کے اضافے کی وجہ سے پاکستان دنیا کے ان
ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں فسٹیولا میں مبتلا خواتین کی تعداد ہر سال
بڑھ رہی ہے ۔۔ جبکہ دنیا بھر کی 2ملین خواتین فسٹیولا کا شکار ہو کر معاشرے
سے علیحدگی پر مجبور ہو جاتی ہیں ۔ڈاکٹر ثمینہ ناز
دنیا بھر میں فسٹیولا کا عالمی دن 23مئی کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد
فسٹیولا جیسی قابل علاج بیماری سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے اور ا س کی
تھیم خواتین کی زندگیاں بچانا ہے کیونکہ فسٹیولا زچگی کے دوران طوالت کے
باعث پیدا ہوجاتی ہے دنیا بھر میں اس کی شکار خواتین کی تعداد 2ملین تک
جاپہنچی ہے جبکہ پاکستان میں اس کی تعداد میں ہر سال 5ہزار سے زائد سے
خواتین مبتلا ہو رہی ہیں تاہم اس کی کل تعداد 50ہزار اے ایک لاکھ کے درمیان
جو ہر سال بڑھ رہی ہے ۔فسٹیولا کی بیماری بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک میں
بسنے والی خواتین میں زچگی کا دورانیہ طویل ہونے سے بچے کا پھنس جانا اور
بسا اوقات پاخانے کی تھیلیوں میں سوراخ ہوجاتے ہیں جس سے مسلسل پیشاب اور
پاخانہ بہتا رہتا ہے جس کے باعث ہزاروں خواتین ہرسال اس شرمناک بیماری کی
وجہ سے معاشرے سے دور ہوکر رہ جاتی ہیں ۔اس بیماری کی بنیادی وجہ معاشرتی
ناہمواری ،فرسودہ رسم ورواج ،غربت،تعلیم کی کمی ،فیملی پلاننگ کی سہولتوں
کی عدم دستیابی،تربیت یافتہ صحت کے کارکنوں کی کمی اور علاقائی سطح پر
بنیادی سہولتوں کا ناپید ہونا شامل ہے ۔اسی وجہ کر 21نومبر 2012ء کو اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار داد کے ذریعے ہر سال 23مئی کو فسٹیولا کا
عالمی دن منانے کا اعلان کیا تھا تاکہ دنیا بھر میں ماؤں کو صحت کے حوالے
سے آگاہی اجاگر کی جاسکے اور فسٹیولا جیسی مہلک بیماریوں سے بچا جا سکے ۔اس
ضمن میں معروف گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر ثمینہ ناز کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں
2ملین خواتین فسٹیولا کا شکار ہوکر معاشرے سے علیحدگی پر مجبور ہوجاتی ہیں
۔ملک بھر میں 13طبی مراکز ایسے ہیں جہاں پر مریضوں کا ناصرف مفت علاج کیا
جاتا ہے بلکہ انہیں سفری اخراجات بھی دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ فسٹیولا مراکز
میں پہنچ سکیں اگرچہ یہ مراکز کراچی، حیدر آباد،ملتان ،لاہور،کوئٹہ
،پشاور،اسلام آباد اور لاڑکانہ میں واقع ہیں جبکہ کراچی کے مرشدہسپتال میں
بھی فسٹیولا کا علاج بالکل مفت کیا جا رہا ہے۔اگر حکومت پاکستان یہ عہد کرے
کہ فسٹیولا کا خاتمہ ملینئیم ڈویلپمنٹ ہدف کو پورا کرنا ہے تو بڑے پیمانے
پر مڈوائف کی ٹریننگ شروع کرنا ہوگی تاکہ ہر حاملہ خاتون کی دیکھ بھال اور
زیرنگرانی زچگی کا عمل ممکن بنایا جا سکے اور فسٹیولا سے بچاؤ ہو سکے۔جس کے
لئے تمام بنیادی صحت کے مراکز ،دیہی صحت کے مراکز کو مکمل طور پر کام شروع
کرنا ہوگا تاکہ خواتین کو بنیادی و ایمر جنسی صحت کی سہولیات میسر آسکیں
۔ان کا کہنا ہے کہ ایک سروے کے مطابق لڑکیوں کی شادی 15برس اور 18برس کی
عمر میں کردی جاتی ہے جبکہ بعض کم عمری کی شادیوں کے نتیجے میں ماؤں کی شرح
اموات ایک لاکھ میں سے 276اور بچوں کی 1000میں سے 78تک جا پہنچی ہے کم عمری
کی شادی ان لڑکیوں کے جسم کو تباہ کردیتی ہے جبکہ ملکی قوانین کے مطابق
لڑکی کی عمر 18برس ہونی چاہئے کیونکہ کم عمر کمزور اور نامکمل تولیدی
ڈھانچہ بچوں کی مسلسل پیدائش کے نتیجے میں پڑنے والے بوجھ کو برداشت نہیں
کر پاتا ہے ۔کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان شرح آبادی میں تیز ترین
اضافے کی صورت میں سامنے آرہا ہے چونکہ بڑھتی آبادی کا زیادہ تر حصہ نوجوان
نسل پر مشتمل ہے اور انہی کم عمر لڑکیوں میں سے زیادہ تر لڑکیاں فسٹیولا کا
شکار ہو جاتی ہیں کیونکہ زچگی کے دوران اموات اور فسٹیولا جیسی بیماریوں کا
تناسب کم عمر لڑکیوں میں خاصا زیادہ پایا جاتا ہے کم عمر ی میں ماں بننے کے
مراحل سے گزرتی ان لڑکیوں کو دوران زچگی نہ صرف پیچیدگیوں بلکہ قبل از وقت
پیدائش جیسے مسائل کو برداشت کرنا پڑتا ہے جس کا وزن بچے کی پیدائش کی صورت
میں نکلتا ہے اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پاکستانی لڑکیوں میں کم عمری کی
شادی ان کی تولیدی صحت پر بھاری بوجھ بن جاتی ہے اور کم عمری میں جنسی
فعالیت لڑکیوں کے لئے نہایت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ نامکمل تولیدی
نظام کی حامل لڑکی جب زچگی کے عمل سے گزرتی ہے تو اکثر فسٹیولا کا شکار ہو
جاتی ہے جس کے باعث اس کی اندام نہانی ،مثانہ اور بڑی آنت کا آخری حصہ پھٹ
جاتا ہے ۔کم عمری کی شادی دراصل قبل از وقت زچگی کا باعث ہوتی ہے اور کمزور
تولیدی نظام ،ہیمبرج ،انفیکشن اور ایکلیمیشیا کی شکل میں عورت کی موت کو
یقینی بنا دیتا ہے ۔کم عمر ی میں ماں بننے والی لڑکیاں کم وزن ،وٹامن کی
کمی کے باعث خون کی قلت کا بھی شکار ہوتی ہیں ۔18برس کی عمر سے قبل تولیدی
مراحل سے گزرنے والی لڑکی کی پیڑوں کی ہڈی کی نامکمل بڑھوتری نارمل سائز کے
بچے کو جنم دینے میں رکاوٹ بنتی ہے اور اکثر ایسے بچے ان بچون کے مقابلے
میں اپنی پیدائش کے پیلے برس ہی میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔کم عمری کی
شادی لڑکی کی ذہنی صحت کے لئے بھی بوجھ ثابت ہوتی ہے عموما ایک بڑے گھراور
شوہر کی ضروریات کو پورا نہ کرسکنے کی وجہ سے مسلسل جسمانی اور ذہنی تشدد
کا شکار بنتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر پریشان ہو کر
رہ جاتی ہے یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ لڑکیاں بدلتے ماحول ،حالات اور
دباؤ کے باعث خودکشی بھی کر لیتی ہیں ان تمام تر معاملات کا نتیجہ بڑی عمر
کے مردوں کی چھوٹی عمر کی لڑکیوں سے شادی کی صورت میں نکلتا ہے اگرچہ یہ
مسئلہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ کئی ملکوں میں اب بھی کم عمر بچیوں کی
شادی کا رواج موجود ہے ۔انہوں نے بتایا کہ کم عمری میں کی جانیوالی بچیوں
کی شادی میں ہونے والی اس بیماری کی شرح بہت زیادہ ہے کیونکہ کم عمری میں
شادی کرنے والی لڑکیوں کے جسم کی ہڈیا ں کمزور ہوتی ہیں جسم اور ہڈیوں کی
مکمل نشونما سے پہلے اگر ان کے ہاں بچے پیدا ہوں تو ان کو فسٹیولا کی
بیماری لاحق ہوجاتی ہے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کم عمری میں شادی شدہ لڑکیاں
جہاں دیگر مسائل کا شکار ہوتی ہیں وہیں یہ بیماری ان کے لئے شدید پریشانی
کا سبب بھی بنتی ہے جس بابت یہ خدشہ بھی ہے کہ پاکستان 2015تک اقوام متحدہ
کے زچگی کے شرح اموات میں کمی لانے کے احداف تک نہیں پہنچ پائے گا جبکہ
پاکستان کو اس حدف کے تحت زچگی کے دوران ہونے والی اموات میں ایک تہائی کمی
لانا تھی ۔ان کے مطابق اگر پاکستان 1990میں اقوام متحدہ کے کنونشن پر کئے
گئے دستخط کے بعد سے عمل درآمد کرواتا تو یقیناًآج پاکستان میں ان کم عمر
ماؤں کو فسٹیولا جیسی بیماری لاحق نہ ہوتی اور نہ ہی ان کی شرح اموات میں
حد درجہ اضافہ ہوتا لہذا پاکستان آج بھی ان کم عمر ماؤں یعنی ان کم عمر ی
کی لڑکیوں کی شادی رکواکر انہیں صحت کے پیچیدہ مسائل سمیت کم ماؤں کی بڑھتی
شرح اموات میں کمی اور فسٹیولا جیسی بیماری سے نجات دلا سکتا ہے ۔ |