غوث علی شاہ کیساتھ ایک نشست

سندھ کے سابق وزیر اعلی غوث علی شاہ کے اصرار پر شفیق دوست اور بڑے بھائی جمشید گل بخاری کے توسط سے محترم مشر اجمل خٹک کشر ، کے ہمراہ ان کے دفتر میں ایک غیر رسمی نشست کا اہتمام کیا گیا اس موقع پر محترم مقتدا منصور بھی ہمراہ تھے ، کراچی پریس کلب سے جانے والی دوگاڑیوں میں ایک گاڑی جمشید گل بخاری چلا رہے تھے جبکہ مقتدا منصور صاحب کے کہنے پر میں ان کے ساتھ ہوگیا ۔ کراچی پریس کلب میں استاد محترم ڈاکٹر توصیف احمد خا ن صاحب سے بھی پہلی مرتبہ ملاقات ہوگئی انھوں نے دل موہ لینے والے انداز میں خیریت دریافت کی اور مجھے داعش کی جانب سے ملنے والی دہمکی پر شفقت کے ساتھ اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے ہوئے اپنی حفاظت کا خاص خیال رکھنے کی نصیحت کی، مقتدا منصور صاحب سے باتیں کرتے کرتے ہم دونوں ’ راستہ ‘بھٹک گئے لیکن کسی نہ کسی طرح غوث علی شاہ کے ڈیفنس میں واقع پر تعیش گھر میں قائم دفتر میں پہنچ گئے ۔ اس دوران غوث علی شاہ کو آنے میں تاخیر ہوئی توبعض احباب نے چہ میگوئیاں شروع کردیں کہ وڈیرانہ فطرت بڑی مشکل سے جاتی ہے لیکن اسی وقت جمشید گل بخاری نے غلط فہمی دور کردی کہ شاہ صاحب وقت کے سختی سے پابند ہیں ، انھوں نے جو وقت دیا تھا ہم کافی تاخیر سے پہنچے ہیں ، شاہ صاحب نمازکے سخت پابند ہیں ، اس وقت نماز پڑھ رہے ہیں ۔

غوث علی شاہ کے دفتر میں نظریں دوڑایں تو ماحول کے جائزے میں ایک حیران کن تبدیلی دیکھی کہ اس قبل ان کے دفتر ،میں میاں نواز شریف کی تصاویر بھی جگہ پاتی تھیں لیکن ان کے دل سے اترنے کے بعد میاں نواز شریف کی تصویریں بھی اتار دیں گئیں ، لیکن متعدد تصاویر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی اکلوتی خوب صورت تصویر سب سے جداگانہ نظر آرہی تھیں اور غوث علی شاہ جو تقسیم پاکستان کے ذمے دارذوالفقار علی بھٹو کو سمجھتے ہیں ان کی بیٹی کی تصویر کو ذاتی تصاویر میں جگہ دینے کا واضح مطلب ان کی سیاسی بصیرت کو تسلیم کرنا اور میاں نواز شریف سے ناراضگی کا واضح اظہار تھا۔غوث علی شاہ جیسے ہی اپنے دفتر تشریف لائے تو راقم سے سب سے پہلے مصافحہ کیا اور میں نے پختون روایت کیمطابق باہر سے آنے والے (چاہیے وہ میزبان ہی کیوں نہ ہو) ، خوش آمدید کہا۔ وہ آگے بڑھے اور دیگر مہمان گرامی سے گرم جوشی سے مصافحہ کرتے گئے اور جمشید گل بخاری نے متعارف کرانے کی ذمے داری سنبھالی ہوئی تھی ۔ غوث علی شاہ کے مطابق ان کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ اردو اور سندھی کیمونٹی کو ساتھ لیکر چل سکتے، غوث علی شاہ مصر تھے کہ وہ لوئر کلاس سے تعلق رکھتے ہیں جس پر میری نگاہوں میں ان کا پرتعیش بنگلہ ، دفتر ڈرائینگ روم گھوم گیا اور بے ساختہ دعا نکلی کہ اﷲ تعالی ہر لوئر کلاس کو اسی طرح کی سہولیات فراہم کرے۔کھانے کی میز پر سوال جواب کا ایک طویل سلسلہ شروع تھا جس میں غوث علی شاہ نے اپنی سیاسی جہدوجد ، ہائی کورٹ کے قصے، مسلم لیگ ن ، نواز شریف سے گلہ و بے رخی، قید و بند کی کہانیاں کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا کچھ باتیں آف دی ریکارڈ بھی کیں،جن کا ذکر مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ صحافتی اصول کے خلاف ہے۔چونکہ ان کی بیشتر باتیں میڈیا میں آچکی ہیں اس لئے یہاں ان کا ذکر نہیں کر رہا ، تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ ایم کیو ایم بنانے میں آپ کا کوئی کردار تھا تو انھوں نے دلیل دی کہ ایک سابق فوجی جرنیل نے اپنی کتاب میں اقرار کرلیا ہے کہ ایم کیو ایم اس نے تخلیق کی اس لئے میں اب اس الزام سے بری الزمہ ہوتا ہوں۔یہیں ایک اور تلخ سوال ایک واقعے کے صورت میں انھیں سنایا کہ آپ سے ملاقات کیلئے آتے وقت ایک کسب گر ( نائی) سے جلدی شیو بنانے کو کہا گیا اس نے وجہ پوچھی ، کسب گر کو بتایا کہ غوث علی شاہ کے پاس جانا ہے ، اس کسب گر نے نفرت سے کہا کہ پختونوں کے سب سے بڑے دشمن کے پاس۔ غوث علی شاہ سے جب یہ سوال پوچھا تو انھوں نے سختی سے تردید کی وہ پختونوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں سہراب گوٹھ آپریشن کسی پختون کے خالف نہیں تھا بلکہ ڈرگ مافیا کے خلاف تھا ، آپریشن کامیاب ہوجاتا لیکن اس علاقے کے ایک ایس ایچ او نے جس کو غوث علی شاہ کے مطابق 73لاکھ روپے روزانہ رشوت ملتی تھی اس آپریشن کا راز فاش کردیا جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج بر آمدنہیں ہوسکے ، غوث علی شاہ نے کہا کہ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی مجھے اختیار ملا تو میں اس ناسور کے خلاف ایکشن لوں گا ۔ یہیں پر انھوں نے پختونوں کے ساتھ یک جہتی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب کراچی میں پختونوں کی بسوں کو آگ لگائی جا رہی تھی تو میں نے یہ آرڈر دیئے تھے کہ بس جلانے والوں کی ٹانگوں پر فائرنگ کرکے انھیں گرفتار کرو۔بعد ازاں ایم کیو ایم کے قائد کی دو مرتبہ گرفتاری کے حوالے سے بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اگر میرا جھکاؤ مکمل ایم کیو ایم کی جانب ہوتا تو میں انھیں گرفتار کیوں کرتا ، الطاف حسین کو گرفتار کرنا معمولی بات تو نہیں تھی۔ان کی مسلم لیگ کیلئے سیاسی جدوجہد ، قربانیاں ، قید وصعوبتیں اور نواز شریف کی جانب سے ان سے بقول وعدہ خلافیاں اپنی جگہ لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ان کے دور حکومت میں لسانی فسادات کو جتنا فروغ ملا اور پختونوں کو جتنی نفرتیں اور پریشانیوں کا سامنا آج تک کرنا پڑ رہا ہے ایسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، لیکن یہ ضرور ہے کہ اپنے نئے سیاسی اتحاد جس میں ان کی ملاقات پرویز مشرف سے بھی ہوئی ، احوال کا انھوں نے آف دی ریکارڈ ذکر کیا اور موجودہ پیر صاحب پگاڑا سے بھی ، جن میں سابق چار وزیر اعلی سندھ بھی شامل تھے ، انھوں نے کراچی کی دوسرے نمبر کی کثیر نفوس پر مشتمل پختون آبادی اور سندھ میں تیسرے نمبر پر کیثر نفوس پر مشتمل مستقل آباد پختون باشندوں کے تحفظ اور ان کے بنیادی حقوق کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ، ماضی میں انھوں نے ایک ٹرانسپورٹر کو متعدد پرمٹ دینے کا اعتراف کیا کہ وہ ایک اچھا پختون تھا، لیکن مستقل آباد پختون اور محنت کش ایسے پختون جو روزگار کی تلاش میں سندھ بالخصوص کراچی میں آئے ، ان کی آبادیوں کو ترقیاتی کاموں سے محرومی سمیت بے تحاشا مسائل کا سامنا رہا ہے۔اس امید کے ساتھ کہ غوث علی شاہ کے حوالے سے پختونوں میں جو بھی رویہ پایا جاتا ہو اس کا مدوا کرنے کیلئے امید کرسکتے ہیں کہ کسی ایسے دور میں جب اﷲ تعالی انھیں دوبارہ با اختیار بنائے تو اردو ، سندھی ، پشتو ، بلوچی ، کچھی ، پنجابی و یگر زبان بولنے والی قومیتوں کے درمیان قومی روا داری اور بھائی چارے کے فروغ کیلئے اہم کردار ادا ضرور کریں گے۔ غوث علی شاہ صاحب سے معذرت کیساتھ عرض ہے کہ ماضی کی پیدا شدہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کا بھی وعدہ کریں۔ غوث علی شاہ نے آخر میں جاتے جاتے مجھ سے کہا کہ خان صاحب آپ بہت کم بولتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ شاہ صاحب میں واقعی میں بہت کم کم بولتا ہوں ، لیکن جب بولتا ہوں تو سامنے والوں کو میرے سوالات بڑے تلخ لگتے ہیں ۔ہماری پختون روایتمیں ہے کہ مہمان بن کر جہاں جائیں وہاں میزبان کو سنیں اور ان کی عزت رکھیں ۔ آپ کا شکریہ کہ موجودہ ایک ایسے پر شکوہ ماحول میں جب پختونوں ، بلوچوں پر قیامت صغری ہے ۔ ہمیں اپنے ساتھ ذاتی باتیں شیئر کیں اور کھل کر بات کرنے کا موقع دیا ۔ اگر اس موقع پر کسی بلوچ تجزیہ نگار کوبھی بلا لیتے تو مزید اچھا ہوجاتا۔تاہم غوث علی شاہ سے نشست دلچسپ رہی لیکن یادیں بہت تلخ ہیں اس لئے معذرت کے ساتھ ، تلخیاں جاتے جاتے جاتی ہیں۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744443 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.